جمعہ , 19 اپریل 2024

سیلاب میں جمہوری ڈھانچہ بانجھ کیوں رہا؟

(محمود شام)

سیلاب 2022کے دوران جلسے، احتجاج، دعوتیں اور غیر ملکوں کے دورے سب کچھ ہوتا رہا۔ نہ ہوا تو قومی اسمبلی کا خاص اجلاس۔ سینیٹ کا خاص اجلاس۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے خصوصی اجلاس جہاں سنجیدگی سے سیلاب کے اثرات، نقصانات پر بات ہوتی۔منتخب نمائندے اپنے اپنے علاقوں کی صورتِ حال سے آگاہ کرتے۔ کوئی لائحہ عمل طے کیا جاتا۔ کیونکہ پارلیمنٹ ہی سب سے بالاتر ہے۔ بارشوں کا سلسلہ 14جون سے شروع ہوا ہے۔ اب ستمبر کا آخری ہفتہ آگیا ہے۔

اب ضرورت ہے کہ قوم سیلابی صورت حال کا مجموعی اور معروضی جائزہ لے۔ حقیقی اعداد وشُمار اکٹھے کیے جائیں۔ سیلاب میں پاکستان کی مسلح افواج بری، فضائیہ اور بحریہ نے اپنی روایات اور فرائض کے مطابق پورے پاکستان میں خدمات انجام دیں۔ تینوں افواج کے سربراہ بھی مختلف علاقوں میں جاکر خود متاثرین سے ملتے اور ان کا دُکھ بانٹتے رہے۔

سب سے بہتر اور موثر عمل غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کا رہا۔ جن کا دائرۂ خدمات بہت وسیع تھا۔ الخدمت، ایدھی، سیلانی، اخوّت، سٹیزن فائونڈیشن، چھیپا، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، پاکستان آئی بینک سوسائٹی اور کئی دوسری تنظیمیں قوم کے دل میں اپنی خدمات سے بس گئی ہیں۔ مقامی طور پر بھی افراد نے تنظیموں سے مل کر بہت مدد کی ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قیادت کی دعویدار سیاسی جماعتیں۔ ووٹوں سے منتخب ہونے والے ادارے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں یعنی سارا جمہوری ڈھانچہ بہت مایوس کن کردار کا حامل رہا۔ بلدیاتی ادارے تھے ہی نہیں۔ جہاں ہوں گے بے اختیار ہوں گے۔ ان سے کوئی گلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے زیادہ تشویشناک یہ تجربہ ہے کہ سول بیورو کریسی وفاقی سیکرٹریوں سے لے کر صوبائی چیف سیکرٹریوں، سیکرٹریوں، ایڈیشنل سیکرٹریوں، سیکشن افسروں، کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں، اسسٹنٹ کمشنروں، مختار کاروں نے بھی ماضی کی طرح کوئی مستعدی اور کارکردگی نہیں دکھائی۔ حالانکہ ریاست اور حکومت کی ریڑھ کی ہڈی یہ ہوتے ہیں۔ آفاتِ ناگہانی کے مقابلے میں حفاظتی بند یہ ہوتے ہیں۔ جنہیں اس کام کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ تنخواہیں مراعات خصوصی فنڈز دیے جاتے ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان۔ سینیٹ کے ارکان کہیں پانی سے گھرے ووٹروں کے ساتھ کھڑے دکھائی نہیں دیے۔ جمہوریت شرم سے اپنا منہ چھپائے پھر رہی ہے۔ وفاقی حکومت اب بھی آنسو گیس کی تاثیر چکھ کر دیکھ رہی ہے۔ ووٹروں کی سمجھ میں آئے نہ آئے۔ لیکن تاریخ نے مشاہدہ کرلیا ہے۔ موجودہ پارلیمانی نظام۔

22 کروڑ عوام کے مسائل حل کرنے میں قطعی طور پر ناکام رہا ہے۔ کسی سسٹم اور طریق کار کا امتحان ایسے ہی مواقع پر ہوتا ہے۔ غیر سیاسی مقتدر قوتیں اور غیر سیاسی فلاحی تنظیمیں ہی انسانیت کے کام آئی ہیں۔صرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے ٹیلی تھون کرکے 14ارب روپے جمع کیے ہیں۔ جو ہائوسنگ پر خرچ کیے جائیں گے۔ لیکن ان کے ایم این اے، ایم پی اے کارکن بھی متاثرین کے آس پاس دکھائی نہیں دیئے۔ غیر سیاسی، غیر سرکاری اور فلاحی تنظیموں نے بڑے چھوٹے پیمانے پر پورے ملک میں بہت نتیجہ خیز کوششیں کی ہیں۔ انہیں مخیر شخصیات نے اداروں نے عام لوگوں نے اسی لیے عطیات بھی دل کھول کر دیے ہیں۔ انتہائی قابل تحسین امر یہ ہے کہ متاثرہ علاقوں کی مساجد کے آئمہ اور دینی مدارس کے مہتمم۔ بھی مستعد نظر آئے۔ اپنی مدد آپ کے تحت بہت کام کیا گیا۔ لیکن بڑے گدی نشیں، پیر،سجادہ نشین باہر نہیں نکلے۔ وہ مریدوں کی دستگیری کرتے دکھائی نہیں دیے۔تنظیمیں اگر یہ فلاحی اور ان کا نیٹ ورک نہ ہوتا اور سیلاب زدگان صرف حکومت کے رحم و کرم پرہوتے تو سوچئے کہ کیا حال ہوتا۔

انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کراچی کے سیمینار میں فیصل ایدھی نے یہ مشاہدہ بھی بیان کیا کہ سیلاب زدہ علاقوں کے دوروں میں انہوں نے جاگیرداری نظام میں انسانیت کی بد ترین تذلیل دیکھی۔ فیصل ایدھی نے یہ حوالہ بھی دیا کہ FATFکے دبائو میں آکر 2015 اور 2016 میں بہت اچھا کام کرنے والی غیر ملکی فلاحی تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی۔ بہت توہین آمیز طریقے سے انہیں پاکستان بدر کیا گیا۔ ان تنظیموں نے 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب میں بہت منظّم انداز سے متاثرین کی مدد کی تھی اس بار وہ میدان میں موجود نہیں تھیں۔ جو آنا چاہتی تھیں انہیں ویزا نہیں دیا گیا۔

اس سیمینار میں کئی جیّد ٹریڈ یونین رہنمائوں نے بتایا کہ مزدور،محنت کش اگر چہ بہت سے مسائل کا شکار ہیں۔ لیکن وہ اپنے طور پر عطیات جمع کرکے اپنے کسان بھائیوں کی مدد کے لیے جاتے رہے ہیں۔ ان کی تجویز یہ تھی کہ اب سائنٹیفک بنیادوں پر منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ Climate Change موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے۔ غیر منظّم انداز سے بسائے گئے پاکستانی شہر اور قصبے اس تبدیلی کے لیے بہت آسان ہدف ہیں۔ گرمی بڑھے گی۔ گلیشیئر پگھلیں گے۔ اس بار بھی جو علاقے مون سون کے نہیںہیں، وہاں بھی بارشیں ہوئی ہیں۔ اس لیے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پیش بندی بہت ضروری ہے۔ایٹمی طاقت ہونے کے دعویدار ملک کو سائنسی بنیادوں پر فکر اور عمل کرنا ہوگا۔

اب جس مرحلے سے ہم گزر رہے ہیں۔ اس میں پانی اترنے لگا ہے۔ زمین نظر آرہی ہے۔ اکثرمتاثرین از خود اپنے گھروں کے پاس اونچی اور خشک جگہ پر واپس جارہے ہیں۔ وہ اپنے گھروں کی مرمت یا تعمیرنو خود کریں گے۔اب سارے عطیات کا رُخ اس طرف ہونا چاہئے۔

میری عاجزانہ تجویز یہ ہے کہ سیلاب نے جہاں ہماری 50 سالہ حکمرانی کی قلعی کھول دی ہے۔ وہاں ہمیں یہ موقع بھی دیا ہے کہ ہم اپنی خامیوں پر نظر ڈالیں۔ ان کی اصلاح کرکے ایک باقاعدہ نیا نظام تشکیل دیں۔ جو تنظیمیں مختلف علاقوں میں کام کررہی تھیں۔ ان کے رضا کاروں کے پاس بہت قیمتی مشاہدات اور حقیقی معلومات ہیں۔ انہوں نے بہت قریب سے جاگیرداری نظام کی انسان دشمنی، ضلعی انتظامیہ کی غفلت ،اپنے ہم وطنوں کی بے خبری کے مظاہر دیکھے ہیں۔ ایک جامع سوالنامہ مرتب کرکے ان تنظیموں کے رضا کاروں سے اپنے سماج اور آفت کے مقابلے میں محکموں کی نقل و حرکت کے بارے میں ڈیٹا جمع کیا جاسکتا ہے اور مقامی طور پر سرگرم نوجوانوں سے یہ معلومات حاصل کرکے ایک جامع دستاویز مرتب کی جائے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کو مرکزی اہمیت دی جائے۔ اس کی روشنی میں آئندہ دس پندرہ سال کا لائحہ عمل تعمیر کرکے ایک مستحکم اور مستعد معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے اور پاکستان کو ایک فعال جمہوریت بنایا جائے۔بشکریہ جنگ نیوز

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …