عبرانی اخبار ہارٹز نے رپورٹ کیا کہ نابلس شہر میں سرگرم عرین الاسود گروپ ایک خیال ہے نہ کہ ایک ایسی تنظیم جو ایک واضح ڈھانچے کی پیروی کرتی ہے، جس کی وجہ سے فوج کے لیے اسے ختم کرنا مشکل ہوگا.
اخبار کے تجزیہ کار اموس ہیرل نے کہا کہ "عرین الاسود” اپنے آپ کو ایک نئے اور محبوب رجحان کے طور پر مارکیٹ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے، اور اپنے نسبتاً کم اراکین کے باوجود مستقبل قریب میں اسے ختم کر دینے کا کوئی بھی دعویٰ درست نہیں ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا گروپ کے لیے یہاں کوئی واضح تنظیمی یا درجہ بندی کا ڈھانچہ نہیں ہے اور اس لیے اسے کسی مخصوص کارکن تک محدود کرنا مشکل ہے جو مارا گیا یا گرفتار ہوا۔یہ بنیادی طور پر ایک خیال ہے اس سے زیادہ یہ تنظیمی ڈھانچہ ہے اور یہ اس کی توسیع کو روکنا مشکل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی گلیوں میں اس کی زبردست حمایت کی حقیقت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ ایک سنگین، مقبول رجحان ہے جو عروج پر ہے اور مستقبل قریب میں اسے آسانی سے دبایا نہیں جائے گا۔”