جمعرات , 25 اپریل 2024

ایران میں دہشت گردی اور مغرب کے انسانی حقوق کے دوہرے معیار

(تحریر: علی احمدی)

ایران کے شہر شیراز میں حضرت شاہ چراغ کے مزار پر داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد کے حملے کے بعد ہمسایہ اور دوست ممالک سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے اظہار ہمدردی اور تسلیت کے پیغامات آنا شروع ہو گئے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ایک بھی مغربی ملک نے نہ تو اس دہشت گردی کی مذمت کی اور نہ ہی شہید ہونے والے افراد کے اہلخانہ سے اظہار ہمدردی کیا۔ یہ بات اس وقت زیادہ عجیب محسوس ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک خود کو دنیا میں انسانی حقوق کا علمبردار ظاہر کرتے ہیں۔ شیراز میں حضرت احمد ابن موسی کاظم علیہ السلام کے مزار پر اس دہشت گردانہ حملے میں پندرہ کے قریب افراد شہید جبکہ دسیوں زخمی ہو گئے تھے۔ یہ حملہ ایسے وقت انجام پایا جب اس مزار میں نماز باجماعت منعقد کی جا رہی تھی۔

داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد کی جانب سے ایک مقدس مقام میں عبادت میں مصروف عام نہتے شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے کا واقعہ اس قدر افسوسناک اور المناک تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان مملکت اس کی مذمت کئے بغیر نہ رہ سکے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایرانی صدر کے نام اپنے پیغام میں اس حملے کی شدید مذمت کی اور تسلیت کا اظہار کیا۔ ان کے پیغام میں کہا گیا تھا: "میں دہشت گردی کے خلاف مختلف شعبوں میں روس اور ایران کے درمیان دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے کا خواہش مند ہوں۔” اسی طرح چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماو ننگ نے بھی شیراز میں دہشت گردی کے واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "چین کو اس حملے سے صدمہ ہوا ہے اور اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا: "ہم ہر قسم کی دہشت گردی کے شدید مخالف ہیں اور دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں ایرانی عوام اور حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔” اخبار انڈیپنڈنٹ کے مطابق مصر حکومت نے بھی اس بارے میں ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں ایران کے شہر شیراز میں اہل تشیع کے مقدس مقام پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی گئی ہے۔ مصر کی وزارت خارجہ نے اس بیانیے میں دہشت گردانہ حملے میں شہید ہونے والے افراد کے اہلخانہ سے تسلیت کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد از جلد شفایابی کی دعا کی۔ اس بیانیے میں دہشت گردی کی تمام اقسام کا مقابلہ کرنے عالمی سطح پر کوشش کرنے اور مہم چلانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح لبنان کی وزارت خارجہ نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور تسلیت کا اظہار کیا۔

شیراز میں حضرت شاہ چراغ کے مزار پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرنے والے دیگر ممالک میں بحرین، یمن، ترکی، فلسطین کے اسلامی مزاحمتی گروہ حماس اور اسلامک جہاد، پاکستان، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات وغیرہ شامل ہیں۔ یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے رکن محمد علی الحوثی نے اپنے پیغام میں رہبر معظم انقلاب اور شہداء کے اہلخانہ سے تسلیت کا اظہار کیا۔ حماس اور اسلامک جہاد نے بھی اس دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ بحرین کی وزارت خارجہ کے بیان میں آیا ہے: "بحرین شیراز میں ایک مذہبی مقام پر دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔” ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اوگلو نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں لکھا: "ہم شیراز شہر میں اہل تشیع کی زیارتگاہ پر ظالمانہ دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور شہداء کیلئے رحمت الہی جبکہ زخمیوں کیلئے شفا کے طالب ہیں۔”

عالمی سطح پر شیراز میں حضرت شاہ چراغ کے مزار پر دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت اور متاثرین کیلئے اظہار ہمدردی کے باوجود انسانی حقوق کا دفاع کرنے کے دعویدار مغربی ممالک نے اس افسوسناک واقعے پر پراسرار انداز میں چپ سادھ رکھی ہے۔ اگرچہ برطانیہ اور جرمنی نے سفیر کی حد تک اور فن لینڈ نے وزارت خارجہ کی سطح پر اس حملے کی مذمت کی ہے لیکن اکثر یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے اس سانحے پر کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ یورپی یونین جو ہمیشہ انسانی حقوق کے دفاع اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے کرتا دکھائی دیتا ہے اس المناک واقعے پر خاموش دکھائی دیتا ہے۔ یہ خاموشی ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ایک ماہ قبل یورپی یونین کے سیکرٹری خارجہ جوزف بورل نے ایران میں ہنگاموں پر سیاست کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ کو فون کیا اور مہسا امینی کے قتل کی مذمت کی اور انارکی پھیلانے والوں کے حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران مغربی ممالک نے ایران میں ہنگاموں کی حمایت کرتے ہوئے ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کئے۔ جرمنی ایران میں انارکی پھیلانے والوں کے اصلی حامیوں میں سے ایک تھا۔ اس نے اپنے ملک میں انقلاب مخالف عناصر کو مظاہروں کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ اب شیراز کے دہشت گردانہ واقعے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ امریکی حکام نے اعلانیہ طور پر ایران میں بدامنی پھیلانے والے عناصر کی حمایت کی ہے۔ جان بولٹن نے سعودی ٹی وی چینل الحدث کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا فائدہ ایران میں مخالفین کی حمایت کر کے ایرانی معاشرے میں دراڑ ڈالنے میں ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک جو ایران میں بدامنی پھیلانے والوں کے حقوق کیلئے پریشان تھے اب شیراز میں مذہبی مقام پر عبادت میں مصروف نہتے شہریوں کے وحشیانہ قتل عام پر چپ ہیں۔ یہاں سے مغرب کے انسانی حقوق سے متعلق دوہرے معیار اور دوغلی پالیسیاں واضح ہو جاتی ہیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …