ہفتہ , 20 اپریل 2024

امریکا کے مڈٹرم الیکشن، نوعیت اور اہمیت

امریکا کی سیاسی تاریخ میں یہ ماہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وجہ یہ ہے کہ 8 نومبر کو وسط مدتی انتخابات ہو رہے ہیں جن میں اراکین کانگریس اور گورنروں سمیت اہم عہدوں پر چناؤ ہوگا۔

ان الیکشنز میں نہ تو صدر جوبائیڈن بیلٹ پر ہیں اور نہ ہی ان کے سابق ری پبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ مگر کئی وجوہات کی بنا پر ان دونوں رہنماؤں کا مستقبل بھی انہی الیکشنز کے نتائج سے جڑا ہوا ہے۔

پاکستان اور پاکستانی امریکنز کیلئے یہ الیکشنز ماضی سے کہیں زیادہ اہمیت کیوں اختیار کر گئے ہیں، اس کا بھی ذکر ہوگا مگر پہلے کچھ بنیادی ذکر وسط مدتی انتخابات کی نوعیت کا۔

دنیا میں یوں تو ہر شخص کی توجہ امریکا کے صدارتی الیکشن پر ہوتی ہے جو ہر چار سال بعد ہوتا ہے تاہم اپنی نصف مدت کے بعد صدر کس آزادی سے قانون سازی کرسکتا ہے اسکا تمام تر انحصار ہر دو سال بعد ہونے والے ان ہی مڈٹرم الیکشنز پر ہوتا ہے۔

مڈٹرم الیکشنز میں ایوان نمائندگان، جسے پاکستان کی قومی اسمبلی سے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے، کی تمام یعنی 435 نشستوں پرچناؤ ہوگا جبکہ سو رکنی سینیٹ کی ایک تہائی یعنی 35 نشستوں پر الیکشن ہوگا۔
50 ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا پر مشتمل امریکا میں 36 گورنروں کو بھی منتخب کیا جائے گا ساتھ ہی کونسلر، میئر، اٹارنی، جج اور بورڈ اراکین سمیت درجنوں دیگر اہم عہدوں پر بھی شخصیات منتخب کی جائیں گی۔

صدر جوبائیڈن کی جماعت ڈیموکریٹس کیلئے یہ الیکشن اس لحاظ سے اہم ہے کہ موجودہ ایوان میں ڈیموکریٹس کے پاس 220 جبکہ حریف ری پبلکنز کے پاس 212 نشستیں ہیں۔ 3 نشستیں خالی تھیں۔ اسطرح ایوان میں اس وقت پلڑا ڈیموکریٹس کا بھاری ہے۔

جہاں تک سینیٹ کا تعلق ہے اس ایوان میں ری پبلکنز یعنی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت کے پاس 50 نشستیں ہیں۔ سینیٹ کی اس بار جن سیٹوں پر الیکشن ہو رہا ہے ان میں سے 12 ڈیموکریٹس اور 23 ری پبلکنز کے پاس ہیں۔

سینیٹ میں ڈیموکریٹس کی موجودہ نشستیں ہیں تو محض 48 مگر چونکہ 2 آزاد سینیٹرز نے ڈیموکریٹس کا ساتھ دیا تھا اس لیے دونوں پارٹیوں کے اراکین کی تعداد برابر ہوگئی۔

امریکی آئین کے تحت چونکہ نائب صدر سینیٹ کا سربراہ بھی ہوتا ہے تو ڈیموکریٹس نے ان دو سالوں میں اس شق کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔ 26 ایسے مواقع آئے جب نائب صدر کاملا ہیرس نے اپنا ووٹ ڈیموکریٹس کے حق میں ڈال کر اپنی پارٹی کے ترجیحی بلوں کو قانون بننے میں مدد دی۔

اب ایوان نمائندگان ہاتھ سے گیا یا سینیٹ دونوں صورتوں ہی میں صدر بائیڈن کیلئے اپنے آخری دو سالوں میں مرضی کی قانون سازی تقریبا ناممکن ہوجائے گی اور انہیں ایگزیکٹو آڈر جاری کرکے کام چلانا پڑے گا۔

مڈٹرم الیکشنز میں اہم ترین معرکے چھ ریاستوں ایری زونا، جارجیا، مشی گن، پنسلوینیا، وسکونسن اور نیواڈا میں متوقع ہیں جہاں کئی حلقوں میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا، یہی ریاستیں طے کریں گی کہ طاقت کا توازن کس پارٹی کی جانب جھکے گا اور یہ بھی کہ ملک کے اہم ترین اشوز جن میں اقتصادی پالیسیاں، اسقاط حمل کے حقوق، تعلیم اور ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول شامل ہیں، ان کے بارے کس قسم کے رجحانات اختیار کیے جائیں۔

امریکا کی جن 50 ریاستوں میں سے جن 36 میں گورنر چنے جائیں گے ان میں سے 27 پر اس وقت ری پبلکنز جبکہ 23 پر ڈیموکریٹک گورنر براجمان ہیں۔ ٹیکساس جیسی کسی ری پبلکن ریاست میں ڈیموکریٹ گورنر منتخب کرالیا گیا تو یہ صدر بائیڈن کیلئے غیرمعمولی کامیابی بھی ہوگی۔

مہنگائی اس الیکشن میں چونکہ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ڈیموکریٹس کم سے کم ایوان نمائندگان میں اپنی اکثریت کھودیں گے۔ اس صورت میں صدر جو بائیڈن کی پوزیشن کمزور ہوجائے گی۔ وہ پہلے ہی اپنے بھلکڑ پن کی وجہ سے طنز کا نشانہ بنائے جاتے رہے ہیں۔ نائب صدر کاملا ہیرس چپ سادھ کر یہ سارا منظر دیکھ رہی ہیں کیونکہ بائیڈن کی پوزیشن کمزور ہونے میں انہیں اپنی پوزیشن مضبوط ہوتی نظرآ رہی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے بھی مڈٹرم بہت اہم ہے۔ دوبارہ صدارت کا امیدوار بننے کے خواہش مند ڈونلڈ ٹرمپ نے اس الیکشن میں کچھ ایسے امیدواروں کی توثیق کی ہے جو ری پبلکنز کو پسند نہیں۔ ایسی شخصیات کو عوام نے منتخب کرلیا تو ری پبلکن پارٹی پر ڈونلڈ ٹرمپ کی نہ صرف گرفت مضبوط ہوگی بلکہ ٹرمپ کے دوبارہ صدارتی امیدوار بننے کا امکان بھی بڑھ جائے گا۔

ماضی کے مقابلے میں اس بار مسلم خصوصاً پاکستانی امریکنز بھی ان الیکشنز میں بھرپور دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں یا وکیل تاہم اہم ترین اور تاریخی معرکہ ڈاکٹرآصف محمود کا ہے جو کیلی فورنیا سے کانگریس کے امیدوار ہیں۔بشکریہ شفقنا نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …