جمعہ , 19 اپریل 2024

’ہمیں سیاسی سے زیادہ معاشی مسائل نے گھیرا ہوا ہے‘

(ملیحہ لودھی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے نے ملک کو افراتفری کا شکار کردیا ہے۔ یہ صورتحال ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تناؤ پہلے ہی قابو سے باہر ہورہا ہے۔اس قسم کی پُرتشدد کارروائی ناقابلِ قبول اور قابلِ مذمت ہے۔ ملک میں اس قسم کی کارروائی کو کسی صورت برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ اس ملک میں ویسے بھی سیاسی رہنماؤں کے قتل کی ایک دردناک تاریخ ہے۔

بے نظیر بھٹو کا قتل اب بھی قوم کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ عمران خان پر ہونے والے حملوں نے ان افراد کے خدشات کو درست ثابت کردیا جو خبردار کررہے تھے کہ کشیدہ سیاسی صورتحال تشدد کی جانب جارہی ہے۔ عمران خان تواتر کے ساتھ اپنی زندگی کو لاحق خطرات کا ذکر کررہے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے فوری انتخابات کے مطالبے کے حوالے سے لانگ مارچ کا آغاز کیا۔

گزشتہ ہفتے ہونے والے اس حملے کے بعد سے پی ٹی آئی کارکنان کے غم و غصے میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے کئی شہروں میں مظاہرے بھی ہوئے۔ حملے میں زخمی ہونے کے بعد عمران خان نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں وزیرِاعظم، وفاقی وزیرِ داخلہ اور ایک سینیئر انٹیلی جنس افسر پر ان کے قتل کی سازش تیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا۔

عمران خان نے ان الزامات کا کوئی ثبوت تو نہیں دیا لیکن انہوں نے اپنے مطالبات کی منظوری تک عوامی احتجاج کی کال دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے صحتیاب ہوتے ہی لانگ مارچ کا دوبارہ آغاز ہوجائے گا۔ عمران خان کے الزامات کے جواب میں آئی ایس پی آر نے بھی سخت ردِعمل دیا اور انہیں فوج کے خلاف ’بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ‘ الزامات قرار دیا۔

اس دوران یہ قیاس آرائیاں بھی جاری رہیں کہ عمران خان پر حملے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور اس کا فائدہ کس کو ہوگا۔ کم ہی لوگ اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ یہ کسی اکیلے شخص کا کام ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حملے میں ایک سے زیادہ حملہ آور ملوث تھے۔

وزیرآباد کی مقامی پولیس کی جانب سے حملہ آور کا اعترافی ویڈیو بیان بھی فوری جاری کردیا گیا جس نے اس معاملے کو مزید الجھا دیا۔ عدم اتفاق کے اس دور میں قتل کی ایک سازش پر بھی سیاسی بنیاد پر ردِعمل دیا جارہا تھا۔ پنجاب حکومت نے بھی اپنی نااہلی سے معاملے کو مزید خراب کردیا۔

جب تک سیاسی معاملات پُرسکون نہیں ہوتے تب تک غیر جانبدارانہ طریقے سے معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ تحقیقات سے پہلے لگائے جانے والے الزامات سچ کی تلاش کو مشکل ہی بنائیں گے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہی سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنا ہوگا تاکہ اس معاملے پر شفاف تحقیقات ہوسکیں۔

عمران خان پر حملے کے بعد ملک بھر سے اظہارِ ہمدردی کے پیغامات آئے، ان میں عمران خان کے سیاسی مخالفین کے بیانات بھی شامل تھے۔ ان بیانات سے ایک معمولی سی امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید سیاسی درجہ حرارت کچھ کم ہوگا۔ تاہم دونوں جانب سے جلد ہی سخت بیانات کا تبادلہ شروع ہوگیا جس نے سیاسی ماحول کو فوراً ہی مزید کشیدہ کردیا۔

وفاقی وزیرِ داخلہ کے بیانات نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر ’سرخ لکیر‘ پار کرنے اور قتل کی اس کوشش کو ’سیاسی رنگ‘ دینے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے۔ سیاسی مباحث میں یا تو حفاظتی انتظامات کو نظر انداز کرنے پر عمران خان کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا یا پھر اتحادی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا۔

اس افسوسناک واقعے نے ملک کو مزید تقسیم کا شکار کردیا ہے۔ اس طرح 7 ماہ سے جاری سیاسی بحران کا حل مزید مشکل ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی نے ملک بھر میں احتجاج اور ’بدلے‘ کی کال دے دی ہے جس کے بعد سیاسی افراتفری میں اضافے کا خدشہ ہے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب عمران خان پر حملے سے قبل بھی ملک کئی طرح کے سیاسی، معاشی اور ادارہ جاتی بحرانوں کا شکار تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کو کبھی بھی اسی قدر منقسم اور منتشر ماحول میں اس قدر مشکل چیلنجز کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم معیشت جیسے بڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے ملکی صلاحیت کو نقصان پہنچائے گی۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے جو غیر یقینی پیدا ہوئی ہے وہ ملک کو ایک شدید معاشی بحران کے قریب لے جارہی ہے۔

ہماری معیشت ابھی خطرات سے باہر نہیں آئی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی، دیگر ممالک اور مالیاتی اداروں سے ملنے والی امداد اور سیلاب سے بحالی کی مد میں ملنے والی امداد کے باوجود پاکستان کو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید وسائل کی ضرورت ہے۔

ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر 3 سال کی کم ترین سطح پر ہیں اور صرف 6 ہفتوں کی درآمدات کے لیے ہی کافی ہیں۔ دو ریٹنگ ایجنسیوں، موڈیز اور فنچ نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کردی ہے۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا لگایا گیا ہے اور اس وجہ سے ملک کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ روس اور یوکرین کی جنگ بھی تیل اور اشیائے خور و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی صورت میں اثرانداز ہورہی ہے اور اس جنگ کی وجہ سے آنے والے موسمِ سرما میں ایل این جی کی قلت کا بھی خدشہ ہے۔

دسمبر میں ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی پر مارکیٹ میں پریشانی پائی جاتی ہے۔ بانڈ بہت بڑی رعایت پر ٹریڈ کر رہے ہیں۔ حکومت کا اصرار ہے کہ اس نے ان کی ادائیگی اور مستقبل کی ادائیگیوں کو پورا کرنے کے لیے مناسب وسائل فراہم کردیے ہیں۔

حکومت کے اعتماد کی وجہ یہ توقعات ہوسکتی ہیں کہ وہ قرضوں کی واپسی میں کچھ رعایت حاصل کرلے گی اور توانائی کی عالمی منڈیوں میں ہونے والے اتار چڑھاؤ میں بھی کچھ کمی آجائے گی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اسے رواں مالی سال سعودی عرب اور چین سے اضافی اور خاطر خواہ مالی امداد ملے گی، لیکن اس میں ایک مسئلہ ہے۔

اگرچہ پاکستان کو ماضی میں بھی ادائیگیوں کے توازن اور لیکویڈیٹی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن آج اسے ایک منفی بیرونی ماحول میں اس سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں کورونا وبا کے اثرات اور یوکرین کے تنازع کے نتیجے میں سپلائی چین اور عالمی مالیاتی منڈیاں غیر مستحکم حالت ہیں۔

ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے عالمی سطح پر پاکستان کی غیر متوقع ہوتی پوزیشن کے اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ غیر یقینی صورتحال روپے کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ شرح مبادلہ پر بھی اثر انداز ہورہی ہے جس سے پہلے سے ہی بلند افراطِ زر میں اضافہ ہورہا ہے۔

اس کے علاوہ معاشی بحالی کے امکانات کا انحصار نجی سرمایہ کاری کی سطح پر ہے اور یہی ملک کی ترقی کے راستے اور پائیدار معاشی استحکام کا سب سے اہم اشارہ ہے۔ لیکن سیاسی غیر یقینی کی وجہ سے سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہیں۔ مزید سیاسی بدامنی کے خدشات سرمایہ کاروں کے جذبات پر اور مارکیٹ پر اثر انداز ہورہے ہیں۔

اگر موجودہ سیاسی مسائل جاری رہتے ہیں تو اس سے معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا، عوام کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوگا اور ملک کی حالت بدتر ہوجائے گی، پھر چاہے دوست ممالک سے مالی امداد آئے یا نہ آئے۔ بیرونی قرضوں پر ملک چلانے سے پاکستان کے اندرونی مسائل حل نہیں ہوں گے۔بشکریہ ڈان نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …