جمعرات , 25 اپریل 2024

معاشی بحران کے باوجود افغانستان کی کرنسی مستحکم کیوں؟

(اظہار اللہ)

افغانستان میں ماہرین کے مطابق معاشی مسائل تو کافی عرصے سے چلے آ رہے تھے لیکن طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے ان مسائل میں شدت آئی ہے۔ عالمی اقتصادی بدحالی کے باوجود افغان کرنسی افغانی غیرمعمولی طور پر مستحکم رہی ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟

طالبان کے کابل میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ایک امریکی ڈالر 80 افغانی کے برابر تھا لیکن ابتدائی چند دنوں میں افغانی کا گرنا شروع ہوگیا اور ایک امریکی ڈالر دسمبر 2021 میں 130 افغانی تک پہنچ گیا تھا۔

تاہم اس کے بعد سے افغانی نے مستحکم ہونا شروع کیا ہے اور افغانستان کی کرنسی کی قدر دنیا کی مضبوط کرنسیوں کے مقابلے میں بھی بڑھ گئی۔

حالیہ کرنسی کے نرخ کو دیکھا جائے تو ایک امریکی ڈالر 82 افغانی جبکہ 87 انڈین روپے کے برابر ہے۔پاکستان میں ڈالر آج کل اوپن مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں 227 کا مل رہا ہے۔

حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی مارچ 2022 میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کے آنے کے بعد خراب معاشی حالات کی وجہ سے 82 فیصد آبادی کی یومیہ اجرت متاثر ہوئی ہے جبکہ وہ گھرانے جن کا خرچہ ایک خاتون برداشت کرتی تھی، ایسے 100 فیصد گھرانوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور اس میں زیادہ تر گھرانے گھر کی اشیا فروخت کر کے خوراک کا انتظام کرنے پر مجبور ہیں۔

افغان حکام خراب معاشی حالات کی ایک وجہ امریکہ کی بینکوں میں افغانستان کے منجمد تقریباً نو ارب ڈالرز کے ذخائر بھی ہیں جو امریکی صدر جو بائیڈن کے ایگزیکٹو حکم نامے کی وجہ سے افغانستان کو نہیں دیے جاسکتے ہیں۔

اس صورت حال کی وجہ سے افغانستان میں معاشی حالات مختلف اداروں اور ماہرین کے مطابق انتہائی خراب ہیں لیکن اس سب کے باوجود افغانستان کی کرنسی مختلف ممالک کے کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم رہی ہے۔ افغانی کے استحکام کے علاوہ افغانستان میں مہنگائی کی شرح بھی پاکستان اور چند دیگر ممالک کے مقابلے میں کم بتائی جاتی ہے۔

اس کی وجہ ہے کیا کہ پوری دنیا میں مہنگائی نے سر اٹھایا ہے اور بڑی بڑی کرنسیاں جیسے کہ برطانوی پاونڈ بھی غیرمستحکم ہے تاہم افغانی اور افغانستان میں مہنگائی کی شرح کچھ اور ہے۔انڈپینڈنٹ اردو نے انہی سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ماہرین اور کچھ رپورٹس کا مطالعہ کیا ہے۔

افغانستان کی کرنسی مستحکم کیوں؟

سب سے پہلے نظر ڈالتے ہے کہ گذشتہ چند ماہ میں افغانی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں کتنی مستحکم ہے۔ ورلڈ بینک ہر ماہ افغانستان کی معاشی صورت حال پر ایک رپورٹ جاری کرتا ہے۔

عالمی بینک کی اپریل 2022 کی رپورٹ کے مطابق ایک طرف اگر پوری دنیا کی کرنسیز غیرمستحکم ہیں تو افغانستان کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں رواں سال مارچ میں ڈالر کے مقابلے میں تقریباً چار فیصد، یورو کے مقابلے میں چار فیصد، پاکستانی روپے کے مقابلے میں 3.6 فیصد، 1.8 فیصد انڈین روپے اور چین کی کرنسی ین کے مقابلے میں تقریبا دو فیصد بڑھی ہے۔

اس کی بڑی وجہ ورلڈ بینک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں انسانی امداد کے لیے ملک میں ڈالر کا آنا ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ڈالر کی فراہمی پیدا کی گئی ہے جس کی وجہ سے افغانستان کے مرکزی بینک نے ڈالر کی نیلامی بھی شروع کی ہے۔

اسی رپورٹ کے مطابق فروی سے اپریل تک افغانستان کی سینٹرل بینک نے 33 ملین ڈالر سے زائد ڈالر نیلام کیے ہیں جبکہ افغانستان میں طالبان کی انتظامی حکومت نے کرنسی ریٹ میں ہیرا پھیری کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات بھی کیے ہے جس کی وجہ سے افغانی مستحکم ہے۔

ورلڈ بینک کی پچھلے ماہ کی رپورٹ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو افغانستان کی کرنسی مستحکم تو ہے لیکن اپریل کے مقابلے میں اس کی قدر میں تھوڑی کمی دیکھی گئی ہے تاہم پچھلے کئی مہینوں سے مہنگائی کی شرح دیگر کئی ممالک کے مقابلے کم ہے۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال جولائی میں مہنگائی کی شرح تقریبا 18 فیصد ریکارڈ گئی ہے جبکہ اسی ماہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 23 سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔

اسی طرح ورلڈ بینک کے رپورٹ کے مطابق رواں سال ستمبر میں افغانی پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں مزید مستحکم ہوئی ہے اور پاکستانی روپے کے مقابلے میں افغانی تقریباً 11 فیصد بڑھی ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

خان افضل ہڈاوال افغانستان کے سینٹرل بینک کے سابق گورنر ہیں اور افغانستان کی معیشت کا کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ افغان کرنسی کا استحکام قدرتی نہیں بلکہ مصنوعی ہے اور یہ سلسلہ افغانستان میں بہت پہلے سے چلا آرہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ افغانسان میں سینٹرل بینک غیرملکی کرنسی کی نیلامی کرتا ہے اور لوکل کرنسی جمع کرتا ہے جس کی وجہ سے مقامی کرنسی مضبوط ہوجاتی ہے۔

انہوں نے ’دیگر ممالک کے ساتھ تقابلی جائزہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان، انڈیا سمیت دیگر ممالک میں صرف اس ملک کی اپنی کرنسی چلتی ہے لیکن افغانستان میں ایسا نہیں ہے اور وہاں افغانی کے علاوہ آپ پاکستانی روپیہ، ایرانی تمن یا ڈالر میں بھی خریدو فروخت کرسکتے ہیں۔‘

خان افضل نے بتایا کہ اسی وجہ سے افغانی کی قدر اتنی نہیں ہے اور اسی وجہ سے لوگ زیادہ تر نہیں چاہتے کہ وہ افغانی کو بطور سیونگ رکھیں بلکہ وہ دیگر ممالک کے کرنسیاں رکھتے اور خریدتے ہیں۔

انہوں نے بتایا، ’جب مارکیٹ میں لوکل کرنسی نہ ہو اور باقی کرنسی مارکیٹ میں آرہی ہو اور اس میں خریدو فروخت بھی کی جاتی ہو تو مقامی کرنسی کی قدر بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان کے خریدار کم ہوتے ہیں اور یہ وہی ڈیمانڈ اور سپلائی کا فارمولہ ہے کہ جب ڈیمانڈ کم ہو تو قیمت بھی کم ہوگی۔‘

خان افضل سے جب پوچھا گیا کہ افغان زیادہ تر ڈالر میں تجارت نہیں کرتے تو کیا مقامی کرنسی کی مستحکم ہونے کی ایک وجہ یہ تو نہیں ہے، جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نہیں ایسا نہیں ہے کیونکہ اس صورت حال سے غیرملکی ذخائر پر اثر پڑتا ہے۔

انہوں نے بتایا، ’اگر افغانستان اور پاکستان کے مابین پاکستانی روپے میں تجارت ہوتی ہے تو اس کا اثر دونوں ممالک کے غیرملکی کرنسی کے ذخائر پر تو پڑتا ہے لیکن اس کا کرنسی کی مستحکم ہونے سے تعلق نہیں ہے۔‘

افغانستان حکومت کے آٹھ نومبر کو جاری ہونے والے اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ سات مہینوں میں افغانستان کی درآمدات پچھلے سال کے 850 ملین ڈالر سے بڑھ کر اب تقریباً دو ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق افغانستان کی 97 فیصد برآمدات پاکستان، انڈیا، ایران، تاجکستان، متحدہ عرب امارات، ازبکستان، قازقستان، چین، سعودی عرب اور عراق کو کی گئی ہیں۔

صدام حسین پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں معاشی محقق ہیں اور افغانستان کی معاشی حالات پر نظر بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طالبان کے آنے کے بعد اب تک بین الاقوامی سطح پر طالبان کے ساتھ تعلقات، برآمدات و درآمدات کی بحالی اور بین الاقوامی امداد کی وجہ سے افغانی کی قدر میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

صدام نے بتایا، ’ان ہی وجوہات کی وجہ سے افغانستان میں مہنگائی بھی دیگر ممالک کے مقابلے کم بڑھی ہے جبکہ ابتدا میں یہ سوچ کہ شاید طالبان آکر معاشی حالات پر قابو پائیں گے یا نہیں اور اب یہ یقین ہونا کہ طالبان یہاں رہیں گے، بھی مقامی کرنسی کی مضبوطی کی ایک وجہ ہے۔‘

انہوں نے مہنگائی کی شرح کے بارے میں بتایا کہ اگرچہ ملک بھر کی بیشتر مارکیٹوں میں مہنگائی میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے تاہم اب بھی دور دراز صوبے جیسے کہ بدخشاں، غور اور نورستان میں مہنگائی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

کیا مستحکم کرنسی کسی ملک کی مستحکم میعشت کا ثبوت ہے؟

ڈاکٹر ناصر اقبال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ میں پروفیسر ہے اور معاشی معاملات پر مختلف تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہر ایک ملک کی معیشت کو ان کے ڈائنیمکس کے لحاظ سے دکھا جاتا ہے اور اگر کسی ملک کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہے تو اس کا مطلب یہ ہمیشہ نہیں ہوتا کہ وہ ملک زیادہ مضبوط معیشت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ افغانستان کی اگر بات کی جائے تو افغانستان میں طالبان حکومت کے بننے کا ایک سال ہی ہوگیا ہے اور اس سے پہلے افغانستان کی 90 فیصد معیشت دیگر ممالک کے امداد پر چل رہا تھا۔

ڈاکٹر ناصر کے مطابق کسی بھی ملک کی کرنسی کی قدر میں کمی تب پیدا ہوتی ہے جب وہ درآمدات و برآمدات کو برابر کرنے کے اقدامات کرے جس طرح اب پاکستان نے کیا ہے۔

انہوں نے بتایا، ’افغانستان کی درآمدات و برآمدات بہت کم ہیں اور زیاد تر انحصار ان کا پاکستان، انڈیا یا ایران پر ہے لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات درآمدات بہت زیادہ ہیں اور اسی کو برابر کرنے کے لیے پاکستان کی کرنسی کی قدر میں کمی دیکھی گئی ہے۔

ڈاکٹر ناصر کے مطابق کل بھی اگر پاکستان چاہے تو وہ درآمدات کو کم کر کے ڈالر کو نیچے لا سکتا ہے لیکن پھر پاکستان کو بیرون ممالک سے چیزیں خریدنے کے لیے ڈالر کی کی کمی کا سامنا ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ ’برآمدات میں ڈالر ملک کے اندر آتا ہے جبکہ درآمدات میں یہ باہر جاتا ہے۔ اب برآمدات کو بند کیا جائے تو ڈالر ملک سے باہر نہیں جائے گا اور ملک میں ڈالر کی مانگ میں کمی آئے گی جس کی وجہ سے مقامی کرنسی کی قدر میں اضافہ ہوگا لیکن درآمدات و برآمدات کسی بھی ملک کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ افغانستان میں زیادہ تر چیزیں مقامی سطح پر پیدا ہوتی ہے۔ افغانستان میں کھپت بھی قدرے کم ہے۔‘

ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق ایک روز قبل ہی یورپی یونین نے افغانستان کو 50 ملین یورو نقد عطیہ کیے ہیں۔

ڈاکٹر ناصر نے سعودی عرب کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اس نے سعودی ریال کو ڈالر کے مقابلے میں فکس کیا ہوا ہے اور ان کی جتنی بھی تیل کی تجارت ہوتی ہے، وہ ڈالر ہی میں ہوتی ہے لیکن اس کا مقامی کرنسی پر کوئی اثر نہیں پڑتا یعنی ہر ایک ملک کی فارن کرنسی ایکسچینج کی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔

کیا کرنسی کی قدر میں کمی سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے، اس کے جواب میں ڈاکٹر ناصر کا کہنا تھا کہ اگر کسی ملک نے بیرون قرضے زیادہ لیے ہیں تو اس صورت حال میں ملک کی معیشت پر اثر پڑتا ہے کیونکہ آپ کو قرضہ سود سمیت زیادہ دینا پڑتا ہے۔

تاہم ڈاکٹر ناصر کے مطابق افغانستان کے بیرون قرضے ہیں ہی نہیں تو مقامی کرنسی کی قدر میں کمی یا اضافے سے معیشت پر کوئی اثر نہیں پڑتا جبکہ وہاں پر مقامی کرنسیوں کے علاوہ دیگر کرنسیوں میں تجارت کی جاتی ہے۔

نئے کرنسی نوٹ

ادھر افغان میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نئے شائع شدہ افغانی بینک نوٹوں کی پہلی کھیپ گذشتہ روز کابل پہنچ گئی ہے۔ نیوز چینل طلوع کے مطابق دا افغانستان بینک (سینٹرل بینک) کے ایک ذریعے نے بتایا کہ ایک اور کھیپ جمعرات کو پہنچے گی۔ تاہم ذرائع نے نوٹوں کی تعداد کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

اس پیش رفت کے بارے میں سرائے شہزادہ منی ایکسچینجر کی یونین نے کہا ہے کہ نئے نوٹوں کی آمد سے غیرملکی کرنسیوں کے مقابلے افغانی کی قدر پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔کابل کے رہائشیوں نے مرکزی بینک سے نئے نوٹ جلد مارکیٹ میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔بشکریہ دی انڈپینڈنٹ نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …