جمعہ , 19 اپریل 2024

اسرائیل آذربائیجان بڑھتے تعلقات اور خطے پر اسکے اثرات

(تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس)

آذربائیجان اور آرمینیا کچھ عرصے سے خبروں میں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روس سے آزاد ہونے کے بعد ان دونوں ممالک میں شدید تنازع پیدا ہوگیا۔ بین الاقوامی طور پر آذربائیجان کے تسلیم شدہ علاقے پر آرمینیا نے قبضہ کر لیا۔ اس پر ہونے والی جنگ میں بھی آذربائیجان کو شکست ہوئی، مگر دوسری آرمینیا آذربائیجان جنگ میں یہ علاقے آذربائیجان نے واپس لے لیے۔ اس سے آذربائیجان نے اپنے سفارتی تعلقات کو وسعت دی، ترکی کے ساتھ ایک قوم دو ملک کا نعرہ لگا کر ایک نئی شناخت بنانے کی کوشش کی گئی۔ تاریخی طور پر صرف دو صدیاں پہلے تک یہ علاقے ایران کا حصہ تھے اور دوسری ایران روس جنگ میں ایک معاہدے کے تحت قاچاروں سے روس کے انتظام میں چلے گئے۔ نگورنو کاراباخ کا علاقہ آذربائیجان کو مل گیا، اس پر دنیا بھر کے مسلمان آذربائیجان کے ساتھ تھے، مگر مسئلہ یہ ہوا ہے کہ اس پورے چکر میں آذربائیجان اسرائیل کے زیادہ ہی قریب ہوگیا۔ اسرائیلی موجودگی اتنی واضح ہوگئی کہ اس کے ایران کی داخلی سلامتی پر اثرات پڑنے لگے۔

اسرائیل اس چکر میں ہے کہ وہ کسی طرح سے مسلمان ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف کرے اور دوسرا ایران کے بارڈر پر اپنے ٹھکانے بنا سکے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے آذر بائیجان کا دورہ کیا۔ یہ بات علاقے کے ممالک بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اس کے ساتھ ہی آذربائیجان کے ریاستی ٹی وی پر ایران کے آذربائیجان کے خود ساختہ جلاوطن رہنماء کو ٹی وی پر گفتگو کا موقع دیا گیا اور ایسے لوگ کیا گفتگو کرتے ہیں، یہ معلوم ہے کہ انتشار، افراتفری، علیحدگی اور ایران کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ ایسا پہلی بار ہوا، اس سے پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ آذربائیجان ایران میں موجود ترکوں کو نسل اور زبان کی بنیاد پر الگ کرنے کے نعروں کی حوصلہ افزائی کرتا رہتا ہے۔ اسی لیے آج تعلقات میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے، جس پر فوری سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے درست کہا کہ ان مسائل کا حل خطے کے ممالک کے دارالحکومتوں میں ہے، باہر سے آئی قوتون کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔

ایران کی روس تک تجارت کا تاریخی روٹ آرمینیا سے ہو کر جاتا ہے اور 2020ء کی جنگ کے بعد آذربائیجان نے ایرانی ساز و سامان سے بھرے ٹرکوں سے ٹیکس وصول کرنے کی کوشش کی تھی، جس سے حالات کافی خراب ہوگئے تھے، جو بعد کی سفارتی کوششوں سے درست ہوئے تھے۔ ایران نے آذربائیجان بارڈر کے ساتھ جنگی مشقوں کا آغاز کیا، جس میں ایک انتہائی اہم پل کی تعمیر سمیت کئی اہم تجربات بھی کیے جانے تھے۔ الہام الہوف صدر آذربائیجان نے اس پر شدید اعتراضات کیے کہ مشقیں ہمارے ہی بارڈر پر کیوں ہو رہی ہیں؟ ایران نے آفیشلی سفارتی ذرائع سے آذربائیجان کو ان مشقوں کی خبر دی تھی۔ ایران کے چیف آف آرمی سٹاف محمد حسین باقری نے اطلاع دی تھی اور آذربائیجان کے وزیر دفاع ذاکر حسینو سے بات ہوئی تھی، جس میں اہم دفاعی امور پر بھی بات ہوئی تھی۔ ان تمام چینلز کو استعمال میں لا کر مشقیں کرنے کے باوجود آذربائیجان کو اس پر شدید تحفظات ہیں۔

آستانہ میں ابراہیم رئیسی اور الہام الہوف کے درمیان ملاقات ہوئی تھی، جس میں باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی بات ہوئی تھی۔ ایران کی قیادت یہ کہہ رہی ہے کہ آذربائیجان جس تجارتی روٹ کو کاٹنا چاہتا ہے، یہ ایک ہزار سال سے علاقے میں تجارت کو فروغ دے رہا ہے، لہذا اسے پہلے کی طرح چلتے رہنے دینا چاہیئے۔ آذربائیجان کے اقدامات سے لگتا ہے کہ وہ اس تاریخی روٹ پر اپنی حاکمیت قائم کرنا چاہتا ہے، جس سے خطے کے کئی ممالک متاثر ہوں گے۔ یہ تنازع کی ایک بڑی وجہ ہے، جس کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ ایران آذربائیجان تعلقات میں دوسری بڑی رکاوٹ آذربائیجان میں اسرائیل کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔ یہ اثر و رسوخ کسی طور پر خطے کے مفاد میں نہیں ہے۔ اسرائیل کی یہ پالیسی رہی ہے کہ ایران کے بارڈرز پر اپنا اثر و رسوخ پھیلائے۔ وہ اسے اپنے تحفظ کے دائرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ آذربائیجان اگر اسرائیل کے ساتھ گرم جوشی دکھاتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ ایران کے ساتھ تعلقات میں خرابی کی صورت میں نکلنا ہے۔

اسرائیل تو آگ لگا کر نکل جائے گا، سوچنا آذربائیجان کو ہے کہ کیا وہ قربانی کا بکرا بننا چاہتا ہے، جیسے آج کل یوکرین بنا ہوا ہے؟ یا وہ خطے میں ایک اچھے پڑوسی کی طرح سب سے بہتر تعلقات بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ ایک طرف آرمینیا سے جنگ ہے اور دوسری طرف ایران کے جیسے بڑے ملک سے بھی مسائل اچھے نہیں ہیں۔ ایرانی افواج کے بریگیڈئر علی اکبر نے خطے میں غیر ملکی فوجی موجودگی کو ایران کے لیے خطرہ قرار دیا۔ یہ بات سیکھنے کی ہے کہ دنیا کے جس خطے میں بھی بیرونی فوجی آئے ہیں، اس خطے کے مسائل کبھی بھی حل نہیں ہوئے۔ جو بیرونی فوجیں آتی ہیں، وہ اس خطے کو کبھی بھی امن کی طرف نہیں جانے دیتیں، کیونکہ اگر امن ہوگیا تو ان کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ مذہبی طورپر یہ خطہ غالب شیعہ اکثریت کا علاقہ ہے، مگر مذہبی آزادی محدود ہے۔ برائے نام جمہوریت ہے، اگر آزاد الیکشن ہو جائیں تو موجود صدر ہمیشہ باقی نہیں رہیں گے۔ موجودہ صدر اور ان کی پارٹی کو معلوم ہے کہ پوری قوم کو کسی اور طرف لگائے رکھنا ہے اور اس مذہبی شناخت کو کم سے کم کرنا ہے، تاکہ انہی کو اقتدار ملا رہے۔ یہ آذربائیجان کے نظام میں ایک فالٹ لائن ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …