جمعرات , 25 اپریل 2024

’سب کچھ 92 والا تھا، بس وسیم اکرم کی دو گیندیں نہیں ہوئیں‘

ٹی ٹونٹی ورلڈ کے فائنل سے قبل 1992 کے ورلڈ کپ سے مماثلت کے انبار لگے لیکن اگر کچھ ویسا نہیں ہوا تو وہ فائنل کا حتمی نتیجہ تھا جو اس بار انگلینڈ کے حق میں آیا۔

پاکستان کی اننگز کا آغاز تو تقریبا ویسا ہی تھا جیسا کہ 92 میں تھا یعنی ابتدائی بلے باز کچھ جم کر نہیں کھیل سکے۔ یہ پچ کا اثر تھا، انگلیڈ کی باؤلنگ کا کمال یا پھر بڑے میچ کا دباؤ، بابر اعظم اور رضوان اپنا روایتی کھیل پیش نہیں کر سکے جس پر سوشل میڈیا صارفین نے ایک بار پھر توپوں کا رُخ اوپننگ جوڑی کی جانب موڑ دیا۔ تاہم ایسے صارفین بھی تھے جن کا خیال تھا کہ پچ کو دیکھتے ہوئے اوپنرز نے سمجھ داری کا ثبوت دیا۔

معظم رئیس نے لکھا کہ ’بال بلے پر نہیں آ رہا، پچ بہت سخت ہے، آوٹ فیلڈ بہت سلو، ایسے میں بڑے سٹروکس کے بجائے 2-3 سے کام لینا چاہیے جو بابر اعظم بخوبی کر رے ہیں۔‘

لیکن یہ سمجھ داری زیادہ دیر نہیں چل سکی۔ پانچویں اوور میں رضوان آوٹ ہوئے تو حارث، بابر اعظم اور افتخار بھی یکے بعد دیگرے پولین لوٹ گئے۔

ایسے میں شان مسعود اور شاداب خان نے کسی حد تک بہتر بلے بازی کی۔طہہ سجاد نے لکھا کہ ’انگلش بولرز نے چانس دیے لیکن شان مسعود کے سوا کوئی اور بلے باز پچ کو سمجھ نہیں سکا۔‘

انگلینڈ کی بہترین بولنگ کے باعث پاکستان صرف 137 رن بنا پایا تو پاکستانی شائقین مایوس نظر آئے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’ٹوٹل کم از کم بیس رن کم ہے۔ کیا اب ہم سو جائیں؟‘

اس کے باوجود کئی صارفین کی امیدیں پاکستان کے باؤلنگ اٹیک سے جڑی تھیں۔ تاہم ایک اور صارف نے یاد دلایا کہ ’انگلینڈ کا سکواڈ دیکھ لو، جواب مل جائے گا، آوٹ کر کر تھک جائیں گے لیکن بیٹنگ ختم نہیں ہو گی۔‘

انڈیا کے خلاف انگلینڈ اوپنرز کی تباہ کن بیٹنگ کی یاد بھی تازہ تھی تو پاکستانی صارفین آسمان کی جانب دیکھنے لگے۔شمس مہر نے لکھا کہ ’بارش، طوفان، سیلاب، زلزلے اور تیسری جنگ عظیم چھڑنے کی امید کرتے ہیں۔‘

یہ امید تو پوری نہیں ہوئی لیکن پاکستان کی جانب سے شاہین نے پہلے ہی اوور میں ایلکس ہیلز کو بے بسی کی تصویر بنا کر پولین بھیجا تو صارفین کی امیدیں پھر جوان ہو گئیں۔

چوتھے اور چھٹے اوور میں حارث روف نے پہلے فل سالٹ اور پھر انگلینڈ کپتان جوز بٹلر کو آوٹ کیا تو میچ دلچسپ ہو گیا۔انڈین صارفین نے بھی اس بات کا اظہار کیا کہ میچ کا نتیجہ جو بھی ہو، پاکستان نے بہترین بولنگ کی۔ انڈین صحافی ایوناش نے لکھا کہ ’حارث تو آگ اگل رہے ہیں۔ پڑوسیوں امید نہ چھوڑو۔‘

ایک جانب سے حارث تو دوسری جانب سے نسیم شاہ نے بہترین گیند بازی شروع کی۔ ولید بٹ نے لکھا کہ ’ٹھپا پڑتے ہی گیند غائب ہو رہی ہے۔‘

اس بہترین گیند بازی کے نتیجے میں امید تو بندھی لیکن وکٹ نہیں گر سکی۔ ایسے میں سب کو 1992 کے اس لمحے کا انتظار تھا جب وسیم اکرم نے دو گیندوں پر انگلینڈ کے دو بلے بازوں کو بولڈ کیا اور پاکستان کو میچ میں واپس لائے۔

اسد حسین نے لکھا کہ ’دو گیندوں کی ضرورت ہے جو وسیم اکرم نے کی تھیں بس اب وہ ہی بچا سکتی ہیں پاکستان کو۔‘

لیکن شاہین آفریدی انجری کے سبب پولین لوٹے تو بین سٹوکس اور معین علی کے سامنے افتخار گیند تھامے آئے اور میچ کا پانسہ پلٹ گیا۔

30 گیندوں پر 41 رن کا ہدف اس اوور کے خاتمے پر 24 گیندوں پر 28 رن رہ چکا تھا۔ محمد وسیم کے اگلے اوور میں رہی سہی کسر بھی پوری ہوئی اور تین چوکے لگے تو تین اوور میں 12 رن باقی رہ گئے تھے۔

19ویں اوور کی آخری گیند پر انگلینڈ کے بین سٹوکس نے وننگ رن سکور کیے تو پاکستانی صارفین نے اس بات سے خود کو سہارا دیا کہ کم از کم ٹیم نے میچ میں کم سکور کے باوجود پوری جان لڑائی۔بشکریہ بی بی سی

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …