منگل , 23 اپریل 2024

بحرین میں انتخابات

(تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی)

بحرین میں آج (12 نومبر) ایوان نمائندگان پارلیمنٹ کے 40 ارکان اور سٹی کونسلوں کی 30 نشستوں کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ بحرین کی اکثریتی آبادی کی نمائندگی کرنے والی بیشتر سیاسی جماعتوں اور گروہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے اور تحریک الوفاق نے ایک بیان میں انتخابات کے بائیکاٹ کی ضرورت کی تقریباً 140 وجوہات بتائی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ اس پارلیمنٹ کے فیصلے اس وقت تک قابل اجراء نہیں ہوتے، جب تک مشاورتی اسمبلی یا نام نہاد سینیٹ ان کی منظوری نہ دے دے۔ قابل غور ہے کہ اس سینیٹ کے تمام 40 ارکان کا تقرر بادشاہ کرتا ہے۔ تمام انتخابی امیدواروں کے لئے انتخاب سے پہلے استبدادی حکومت کی اجازت ضروری ہے۔ انتخابات کے بائیکاٹ پر زور دینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ بحرین کی پارلیمنٹ بنیادی طور پر بادشاہ کی پالیسیوں کی پابند ہے، اسے کوئی آزادی نہیں ہے اور اس کا کام صرف اس ملک کے بادشاہ کی پالیسیوں کی منظوری دینا ہے۔ لہٰذا سیاسی گروہوں اور بحرین کی آبادی کے ایک بڑے حصے کے نقطہ نظر سے ایسی پارلیمنٹ جو ہر 4 سال بعد ایک رسمی اور غیر آزادانہ انتخابات کے ساتھ بنتی ہے، اس ملک میں صرف "جمہوریت کی نمائش” ہے اور اس کی عدم موجودگی کا بحرین کے حالات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

برسراقتدار آل خلیفہ حکومت نے 2018ء میں ایک فیصلہ کے ذریعے، عین اس وقت جب یہ ملک ٹرمپ انتظامیہ کے دباؤ اور سعودی عرب کی ہری جھنڈی کے ساتھ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف قدم اٹھا رہا تھا، بہت سے شہریوں کو شہریت سے محروم کر دیا تھا۔ آل خلیفہ نے نہ صرف مخالف سیاسی جماعتوں اور گروپوں کی سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دے رکھا ہے بلکہ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے حق سے محروم کر دیا ہے۔ اس ڈکٹیٹر حکومت نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ کئی محالف رہنماؤں کی شہریت بھی ختم کر دی، جن میں آیت اللہ عیسیٰ قاسم جیسی شخصیات کا نام بھی شامل ہے۔ دوسری جانب حکومت منامہ نے مختلف ممالک کے غیر شیعہ اور خاص طور پر شام کی جنگ میں بغاوت کے منصوبے پر عمل درآمد میں حصہ لینے والے تکفیریوں کو وسیع پیمانے پر شہریت دے کر آج کے انتخابات میں ان کی شرکت کی بنیاد فراہم کی ہے۔

فوج کو ووٹ کا حق دینا اور انتخابی اضلاع کو قبیلوں میں تقسیم کرنا، آج کے انتخابات کے انعقاد کے لیے منامہ کی حکمران جماعت کی دوسری چالیں ہیں۔ منامہ کی آل خلیفہ حکومت نے سعودی عرب کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر انتخابات سے چند روز قبل "انسانی بقائے باہمی کے لیے مشرق و مغرب کی یکجہتی” کے نعرے کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کیا اور اس میں اس ملک میں بسنے والے شیعوں کی اکثریت کے نمائندوں کو مکمل نظر انداز کیا۔۔ پوپ جیسی شخصیات اور شیخ الازہر کو اس اجلاس میں مدعو کیا، لیکن اپنے ملک کے اکثریتی مکتب یعنی تشیع مکتب کے ماننے والوں کو شرکت کی اجازت نہیں دی۔ اس عمل سے آل خلیفہ نے نہ صرف صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو بڑھایا بلکہ اس ہتھکنڈے سے انسانی حقوق اور انتخابی پروٹوکول کی وسیع پیمانے پر ہونے والی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس ملک کے قیام کے بعد سے انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیاں اور غیر منصفانہ سیاسی، معاشی اور سماجی امتیازات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں، تاہم 12 نومبر کے حالیہ انتخابات کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ پہلا انتخاب ہے، جو اس ملک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بعد منعقد ہو رہا ہے۔ اس ملک کی جماعتوں، گروہوں اور عوام کی جانب سے انتخابات کے وسیع پیمانے پر بائیکاٹ کا زیادہ تر تعلق اسی مسئلے سے ہے، کیونکہ وہ صیہونی حکومت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں، لیکن منامہ حکومت کے اہداف اور آج کے انتخابات کو جائز بنانے کی کوششوں کا ایک بڑا حصہ بھی اسی مسئلے سے منسلک نظر آرہا ہے۔ سعودی عرب نے منامہ کی کٹھ پتلی حکومت کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کی تشکیل میں ہمیشہ بنیادی کردار ادا کیا ہے، اب اس میں صیہونی حکومت بھی شامل ہوگئی ہے۔

بدقسمتی سے بحرین اپنے قیام کے بعد سے امریکی اور برطانوی فوجیوں کا ٹھکانہ بنا ہوا ہے۔ اگر منامہ کی حکومت آزاد حکومت ہوتی تو اس بات کا امکان بہت زیادہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کسی حل تک پہنچ جاتی، لیکن یہ سلسلہ شیخ حمد کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہوا اور ابھی تک جاری ہے۔ سعودی عرب جس نے عرب اسپرنگ کے آغاز کے بعد اندرونی اصلاحات کے منصوبے کو ناکام بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا، بحرین میں اپنی فوجی موجودگی اور قبضے سے بحرین میں ممکنہ اندرونی سیاسی اصلاحات کا دروازہ بھی بند کر دیا، جس کی وجہ سے بحرین کی اقلیتی لیکن مطلق العنان حکومت اس ملک پر مسلط ہے۔ موجودہ صورت حال میں بحرین کا سعودی عرب پر انحصار زیادہ ہوگیا ہے اور صیہونی حکومت کے ساتھ قربت کی وجہ سے وہ اپنی داخلی سیاست میں اس حکومت کے طرز عمل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔

بحرین کے اصل باشندوں کے خلاف وہی طریقے استعمال ہو رہے ہیں، جو مقبوضہ فلسطین میں صیہونی کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اس میں اصلی بحرینی باشندوں کو شہریت سے محروم کرنا اور ایسے لوگوں کو شہریت دینا شامل ہے، جن کی بحرین میں کوئی جڑیں نہیں ہیں۔ آل خلیفہ کے مخالفین کے نقطہ نظر سے حالیہ انتخابات، بحرین میں آمریت کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے۔ شیخ عیسیٰ قاسم اور بحرین کے بہت سے دیگر مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے نقطہ نظر سے انتخابات اس ملک میں سیاسی خلا کو مزید بڑھانے اور گھٹن میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ ایسی صورت حال میں بحرین میں نام نہاد انتخابات کا انعقاد حکمراں آل خلیفہ اور اس کے غیر ملکی حامیوں کے لیے ایک سیاسی پروپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں اور ان انتخابات کے انعقاد سے عملی میدان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور عوامی احتجاج و جمہوری تحریک بھی جاری رہے گی۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …