ہفتہ , 20 اپریل 2024

امریکہ کے زوال کا جائزہ

رہبر انقلاب اسلامی نے کچھ طلبہ سے ملاقات میں امریکہ کے زوال کے عمل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "دنیا کے بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ زوال کی سمت بڑھ رہا ہے، وہ قطرہ قطرہ پگھل رہا ہے۔ یہ بات ہم نہيں کہہ رہے ہيں۔ حالانکہ ہمارا بھی یہی خیال ہے، لیکن پوری دنیا کے سیاسی تجزیہ نگار یہی کہہ رہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کچھ طلبہ سے ملاقات میں امریکہ کے زوال کے عمل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "دنیا کے بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ زوال کی سمت بڑھ رہا ہے، وہ قطرہ قطرہ پگھل رہا ہے۔ یہ بات ہم نہيں کہہ رہے ہيں۔ حالانکہ ہمارا بھی یہی خیال ہے، لیکن پوری دنیا کے سیاسی تجزیہ نگار یہی کہہ رہے ہیں ۔” KHAMENEI.IR ویب سائٹ نے امریکہ اور بین الاقوامی امور کے ماہر جناب حمید رضا غلام زادہ کا ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں امریکہ کے عروج و زوال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مقالے کے چند اقتباسات کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے:

امریکہ کا خواب بکھر گیا

اکیسویں صدی کا آغاز، امریکہ میں مختلف پہلوؤں سے حقیقت پسندی کا بھی آغاز رہا ہے۔ سماجی آزادی اور قومیتی مساوات کا یہ عالم تھا کہ باراک اوباما نے مارٹن لوتھر کنگ کی امریکن ڈریم کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر اپنی تقریر میں، اس خواب کے شرمندہ تعبیر نہ ہونے کا اعتراف کیا ۔ (1) ‘میں سانس نہيں لے پا رہا ہوں’ (2) اور ‘سیاہ فاموں کی زندگي بھی اہمیت رکھتی ہے’ (3) جیسی تحریکوں میں لگائے جانے والے نعرے، ایک سیاہ فام صدر کے ہاتھوں امریکن ڈریم کو شرمندہ تعبیر کئے جانے کی کوششوں کا نتیجہ تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے وعدوں اور بینکنگ سسٹم اور ریئل اسٹیٹ کے نظام کے نتیجے میں امریکی سماج میں جو معاشی و سماجی عدم مساوات ہے اس کے خلاف وال اسٹریٹ (4) تحریک کا آغاز ہوا۔ مائکل لینڈ نے اپنی کتاب ‘نئي طبقاتی جنگ’ میں لکھا ہے کہ امریکہ میں محنت کشوں کا طبقہ، چھوٹے سے ‘اعلی طبقے’ اور ‘ خواص و عہدیداروں’ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے کیونکہ اس اعلی طبقے کے لوگ سماج کے دس سے پندرہ فیصد حصے پر ہی مشتمل ہیں لیکن حکومت، معیشت اور علمی حلقوں پر ان کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ (5) معیشت کے شعبے میں خدمات کے لئے نوبل انعام یافتہ انگس ڈیٹن نے اپنی حالیہ کتاب ‘مایوسی کی موت’ (6) میں یہ ثابت کیا ہے کہ کس طرح سے سرمایہ دارانہ نظام اور کیپٹلزم نے امریکی عوام کی زندگي کو کھوکھلا بنا دیا ہے اور لوگ زندگی کی سختیوں اور دباؤ سے نجات کے لئے، سکون بخش دواؤں اور شراب و منشیات کا استعمال کرتے ہيں اور یہی مایوسانہ رجحان، خودکشی اور منشیات کے ہائي ڈوز سے خاص طور پر سفید فام متوسط طبقے میں اموات میں اضافے کا باعث بنا ہے ۔ (7)

جنسی انقلاب اور سماجی بے لگام آزادی، شادی سے بے رغبتی اور طلاق کی رفتار میں تیزی اور سب سے بڑھ کر امریکہ میں بچوں کی پیدائش میں کمی کا باعث بنی ہے ۔ انحطاط پذیر سماج (8) نامی کتاب کے مصنف راس ڈوٹیٹ جو نیویارک ٹائمز سے بھی جڑے ہيں اپنی کتاب میں مغرب میں بچوں کی پیدائش میں کمی کو امریکی طاقت کے زوال کی ایک وجہ قرار دیتے ہيں۔ انہوں نے امریکہ کے زوال کے دیگر اسباب اس طرح بیان کئے ہيں: سیاسی بے حسی، نئي شناخت اور نظریات قائم کرنے کے لئے ثقافتی کمزوری اور ٹکنالوجی میں ترقی اور نئی ایجادات کا سلسلہ ختم ہونا، امریکہ کے زوال کی دیگر وجوہات ہیں۔ جس ملک کے لوگوں نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں سنیما اور سیاست میں ‘ستاروں کی جنگ’ کی باتیں سنی تھیں اور اوڈیسا 2001 کے خلائی سفر کے خواب کو پورا کرنے کے لئے کوشاں تھے، وہ اب فلینٹ، نیو آرک اور چارلسٹون و ملکواکی جیسے علاقوں میں پینے کے پانی کے مسئلے کا سامنا کر رہے ہيں ۔ پانی کی پائپ لائنوں کے ساتھ ہی ساتھ سڑکیں، پل اور ریلوے جیسے دیگر بنیادی ڈھانچے کی حالت بھی واضح طور پر خراب ہے۔ امریکہ میں بنیادی ڈھانچے کی کمزوری، کورونا کے دور میں پوری طرح بے نقاب ہو گئی۔ حالانکہ امریکہ کے سیاسی میدان میں کورونا کی تمام کمیوں کی ذمہ داری ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے عجیب و غریب کاموں کے سر تھوپ دی گئي لیکن اسپتالوں میں بيڈ کی کمی، میڈيکل اسٹاف کے لئے ساز و سامان اور سہولتوں کی کمی اور ونٹیلیٹر مشینوں اور دیگر ساز و سامان کی کمی، اپنے شہریوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں امریکی حکومت کی ناکامی کی دلیل ہے۔ جارج پکر نے اٹلانٹک میں اپنے ایک مقالے میں، کورونا کے دوران امریکہ کی صورت حال کو ‘ہاری حکومت’ (9) کا نام دیا ہے اور ییل یونیورسٹی کی قانوں داں اور سیاسی قبائل نامی کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر ایمی چوآ نے فارن افیئرز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں (10) لکھا ہے : "کورونا کی وبا نے یہ واضح کر دیا کہ امریکہ ‘سسٹم فیلیور’ کی پوزیشن میں پہنچ رہا ہے۔ بحران کے درمیان پہلے سے بہت زيادہ یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ملک پر تشدد انداز میں سیاسی حساب چکانے کے حالات کی سمت بڑھ رہا ہے۔”

رعب و دہشت کا خاتمہ

قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی وہ سپر پاور جو گزشتہ صدی میں، جنگوں کے فیصلے کرنے کا دعوی کرتا تھا ، اب ‘ختم نہ ہونے والی جنگ’ کے مفہوم سے لڑ رہا ہے اور اب بھی اس قسم کی جنگوں میں اربوں ڈالر خرچ کر دیتا ہے۔ اس ملک کو جس کی مداخلت کے بغیر بلقان کے تنازعات ختم نہيں ہوئے تھے، دنیا کے سیاسی امور کے ایک بے حد اہم معاملے یعنی بحران شام میں سیاسی عمل میں کوئي رول ادا کرنے کا موقع نہيں ملا ۔ عالمی معیشت میں بھی امریکہ کی پوزیشن کمزور ہو چکی ہے اور اب وہ چین جیسے سخت جان حریف کے سامنے ہاتھ پیر مار رہا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں کثیر الجہتی عمل سے دوری اور بین الاقوامی تعاون سے پرہیز بھی امریکی قیادت کے پھیکے پڑنے میں پہلے سے زیادہ موثر رہا ہے۔ یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ میکراں امریکہ کی عالمی قائدانہ صلاحیت پر شک ظاہر کریں۔ (11) اور میونخ کانفرنس اپنے تازہ اجلاس میں ‘مغربیت سے دوری’ ((Westlessness کو تبادلہ خیال کے موضوعات میں اہمیت کے ساتھ جگہ دے اور مغربی اقدار کا اثر کم ہونے پر گفتگو کرے اور یہ کہا جائے کہ امریکہ اور یورپ ان اقدار سے منہ موڑ چکے ہيں جس کی وجہ سے دوسرے ممالک اب ان سے مشابہت کے خواہاں نہيں ہیں۔

حالانکہ بین الاقوامی سطح پر سیاست، فوج اور معیشت کے میدان میں امریکہ کے عالمی کردار اور اس کے نشیب و فراز کے پیش نظر امریکی زوال کی بات کی جاتی ہے لیکن امریکہ کے اندر جو کچھ ہوا ہے وہ در اصل سماجی مسائل کا نتیجہ ہے۔ جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں سے لے کر، انتخاباتی جنگ اور اس کے بعد چھے جنوری کو کانگریس کی عمارت پر حملے تک سب کچھ اس طبقاتی سماجی نظام کا حتمی نتیجہ ہے جو صدیوں سے امریکہ میں جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریچرڈ ہاس جمہوریت کی علامت کہی جانے والی کیپٹل ہل کی عمارت پر حملے کو ‘پوسٹ امریکن’ دور کا آغاز قرار دیتے ہيں (12) اور یہی وجہ ہے کہ فرانسس فوکویاما خبردار کرتے ہيں کہ "امریکی، ایسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہے ہيں جو چھوٹی شناخت پر متشمل ہے اور جو ایک مجموعے کی شکل میں کسی بھی سماج کے اجتماعی اقدامات اور سوچ کے امکان کے لئے خطرہ ہے۔”بشکریہ حوزہ نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …