ہفتہ , 20 اپریل 2024

دنیا کا بہترین جمہوری نظام کس ملک میں نافذ ہے؟

(تحریر: ایسن این حسینی)

جمہوریت کے نام اور اس کی تعریف سے کون واقف نہیں ہوگا۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں ایک طرح کی جمہویت نافذ نہیں۔ کسی ملک میں صدارتی نظام حکومت ہے، تو کسی میں پارلیمانی۔ کسی میں جمہوریت ہے تو کسی میں شہنشاہیت۔ کسی ملک میں جمہوریت ملکہ کے ماتحت ہے تو کسی میں بادشاہ کے ماتحت۔ کسی ملک میں آئین اور بنیادی قانون تحریری صورت میں موجود ہے تو کسی میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ کسی ملک میں آئین میں ترمیم ممکن ہے تو کسی میں کافی مشکل جبکہ بعض میں ترمیم ناممکن ہوتی ہے۔

دنیا کے کس ملک میں جمہوریت اصل معنوں میں نافذ ہے
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ممالک امریکہ، انڈیا اور یورپ میں سے کسی بھی ملک میں جمہوریت اپنے اصل معنوں میں نافذ نہیں ہے۔ دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں جو عوامی نمائندے منتخب ہوتے ہیں، وہ سرے سے عوامی ہوتے ہی نہیں، بلکہ وہ خواص، متمول اور ایسے بااثر لوگوں سے چن لئے جاتے ہیں، جو لاکھ یا کروڑ پتی نہیں بلکہ ارب و کھرب پتی ہوا کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک کا آئین کبھی عوام نے نہیں بنایا، نہ ہی بننے کے بعد ریفرینڈم کے ذریعے عوام سے اس کی توثیق کرائی گئی، بلکہ کسی زمانے میں وہاں کے خواص اور برسراقتدار طبقے نے بنایا ہوتا ہے اور بعد میں عوام کے منتخب کردہ کچھ خاص بندوں کو اس میں ترمیم کا حق حاصل ہوتا ہے۔ کوئی مخصوص جماعت اپنے مفادات کے مطابق کچھ بااثر اداروں کی ملی بھگت سے اس میں ترمیم کرتی رہتی ہے۔ جس کا مشاہدہ دنیا کے ہر ملک میں دیکھا جاسکتا ہے۔ چین، ترکی، روس، مصر، انڈیا اور پاکستان میں اس کی مثالیں مل سکتی ہیں۔

کسی بھی ملک میں آئین کی منظوری کے بعد عوام سے اس کی توثیق نہیں کرائی جاتی۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں، جمہوریت کے باوجود جہاں اداروں کا اثر و رسوخ نہ ہو، یہی نہیں بلکہ یہ کہ وہاں ایک خاص مسلک، لسانی یا قومی جماعت کو اختیار کل حاصل نہ ہو۔ برطانیہ، انڈیا، چین، روس اور امریکہ ہی کی مثال لیتے ہیں۔ وہاں فوجی ادارے کتنے بااختیار ہیں۔ امریکہ میں یہودیوں اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کا دیگر مذاہب کے اوپر اور سفید فاموں کو سیاہ فاموں پر کتنا غلبہ حاصل ہے۔ برطانیہ میں تو سرے سے آئین موجود ہی نہیں۔ وہاں پر بلکہ پورے یورپ میں دیگر مذاہب کے خلاف کتنا زہر اگلا جاتا ہے۔ انڈیا میں شدت پسند ہندو جماعتیں کیا نہیں کرتیں، آئے روز مساجد کو گرا کر اس کی جگہ مندر بنا دیتی ہیں۔

عوامی نمائندوں کی کسوٹی:
الیکشن کے دوران نمائندوں کے لئے کوئی خاص پیمانہ نہیں ہوتا۔ وہ کس قابلیت اور ناہلیت کے حامل ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ملک کے لئے کتنے وفادار ہیں، نیز یہ کہ امیدوار کوئی عقلمند بندہ ہے اور کچھ جانتا بھی ہے کہ نہیں، بلکہ اکثر تو یوں ہوتا ہے کہ جو شخص جتنا دولتمند اور بااثر بلکہ ظالم ہوتا ہے، جس کی جتنی اجارہ داری ہوتی ہے، وہی عوامی نمائندہ بن جاتا ہے۔ ایک انتہائی اہل اور قابل فرد کے مقابلے میں اگر ایک نیم پاگل، ظالم جابر، ملک دشمن، غدار شخص 10 فیصد سے کم ووٹ حاصل کرکے اور حریف سے صرف ایک ووٹ زیادہ حاصل کر لیتا ہے تو اسی کو ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا قلمدان سونپ دیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں رائج جمہوری نظام اور اسکے بنیادی قوانین
دنیا کے ہر ملک میں الگ طرح کی جمہوریت نافذ ہے۔ عوامی نمائندوں کے دورانیے میں بھی فرق ہے۔ کہیں دو سال، کہیں چار، پانچ، چھ اور کہیں آٹھ سال کیلئے نمائندوں کو چنا جاتا ہے۔ ان کے اختیارات میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ ہر ملک نے اپنے مقامی اور سیاسی حالات کو مدنظر رکھ کر اپنے لئے بنیادی قانون (آئین) تیار کیا ہے۔ کسی دوسرے کے قانون پر اعتراض اور ترمیم کا حق وہاں کے قانون ساز ادارے سے باہر کسی کو بھی حاصل نہیں۔ قانون پر اعتراض اور ترمیم کا اختیار وہاں کے عوام کو بھی نہیں دیا گیا ہے، بلکہ منتخب نمائندے اسی قانون کے دائرے میں اس پر اعتراض اور اس میں ترمیم کرسکتے ہیں۔

بی بی سی اور انقلاب دشمن نیوز اداروں کی رائے:
چند سال قبل بی بی سی کی فارسی سروس کے اس وقت کے ڈائریکٹر باقر معین نے 11 فروری یعنی انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ایام میں تبصرہ کرتے ہوئے ایران کے جمہوری نظام کو سخت ہدف تنقید بنایا، یہ کہ یہ قانون چند افراد کا بنایا ہوا ہے، اس میں خواتین کو حقوق اور آزادی حاصل نہیں۔ جبری نظام نافذ ہے، وغیرہ۔ تو بندہ نے بی بی سی کو ایک خط کے ذریعے اپنی رائے یوں بھیج دی۔ "باہر بیٹھ کر کسی کو بھی کسی کے آئین پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں، جس طرح ہم یہاں بیٹھ کر برطانیہ اور امریکہ کے قانون اور آئین کے متعلق کچھ کہنے کے مجاز نہیں، خواتین کو اسلام نے جو بنیادی حقوق دیئے ہیں۔ ایران میں ان حقوق میں کونسی کمی ہے اور یہ کہ جسے تم لوگ قانون کہتے ہو، کیا یہی قانون ہے، جو کسی بھی آسمانی دین سے ہم آہنگ نہیں۔ اسلام ایک آفاقی قانون ہے۔ کسی بھی اسلامی ملک کا آئین شریعت محمدی کے دائرے کے اندر ہی تیار کیا جائے گا۔ آپ کی رائے میں جو آئین اور قانون درست ہے، یعنی امریکہ اور یورپ، تو ان کے مطابق اپنے مفادات کی خاطر فلسطین، بوسنیا، تیمور، سوڈان اور کشمیر میں خون کی ندیاں بہانا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔ تاکہ ان کی مقامی تجارت اور اقتصاد کو فروغ ملکر ملکی عوام سکھ کی زندگی گزار سکیں۔ اس حوالے سے تفصیلاً جواب دیا گیا تھا۔ جسے یہاں طوالت کے باعث نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

مغربی قوانین میں حیوان اور انسان کی حیثیت:
مغربی قوانین میں ملک کے اندر کسی کو ایک حیوان مارنے کی اجازت تو نہیں، تاہم اپنے مفادات کی خاطر باہر خصوصاً اسلامی ممالک جیسے یمن، لبنان، افغانستان اور فلسطین میں عوام کو بھوکوں مارنے کی اجازت ہے۔ فلسطینیوں کو بیدردی سے مار مار کر اپنی سرزمین سے نکالنے کی اجازت ہے۔ کشمیر، برما اور فلپائن میں مسلمانوں کو چن چن کر مارنے اور مروانے کا یہی استکباری ممالک پروانہ جاری کرتے ہیں۔ ایران، شام، لبنان اور عراق میں دہشتگردوں کو سپورٹ کرکے ظلم کا بازار گرم رکھنے کو یہ انقلاب کہتے ہیں۔ ان ممالک کا اقتصادی محاصرہ کرکے عوام الناس، بچوں اور خواتین کو بھوکوں مارنے کا پروگرام یہی بناتے ہیں۔ ان ممالک اور باقر معین جیسے لوگوں کو دنیا بھر میں رائج ظالمانہ جمہوری اور بادشاہی نظاموں پر کوئی اعتراض نہیں۔ اگر اعتراض ہے تو ان کے مفادات کے لئے خطرناک ترین نظام اسلامی جمہوری نظام پر ہے۔

اسلامی جمہوری نظام:
اسلامی جمہوریہ ایران میں نافذ جمہوری نظام دنیا کا سب سے اعلیٰ، پائیدار اور بہترین جمہوری نظام ہے، جسے عوام کے منتخب ماہرین قانون نے شہید ڈاکٹر آیۃ اللہ سید محمد حسین بہشتی کی سرپرستی میں 1979ء میں تیار کیا تھا۔ اس نظام میں ہر خوبی موجود ہے، جبکہ حتی الوسع ہر خامی کو دور کیا گیا ہے۔ ایران میں دو ایوان نمائندہ گان ہیں۔

1۔ مجلس خبرگان:
72 یا کچھ زائد افراد پر مشتمل سینیٹ کے طرز پر یہ خواص کی اسمبلی ہوتی ہے، جسے آٹھ سال کے لئے چنا جاتا ہے، فاضل علماء یعنی آیۃ اللہ کے عہدے پر فائز صاحبان علم ہی اس مجلس کے الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ انہیں کچھ مخصوص اختیارات دیئے گئے ہیں، جن میں سے ایک رہبر کا انتخاب ہے۔

2۔ مجلس شوریٰ:
قومی اسمبلی کے طرز کا عوامی منتخب ادارہ ہے۔ جسے عوام ووٹ کے ذریعے چار سال کے لئے منتخب کرتے ہیں۔ جنہیں سپیکر کے انتخاب، کسی وفاقی وزیر کی توثیق اور مسترد کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ صدر کے نامزد کردہ کسی وزیر کو اس اسمبلی سے توثیق کرانا لازمی ہے، ورنہ وہ وزیر نہیں رہ سکتا۔ قومی، ملکی معاملات، معاشی، خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں ان کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔

نگہبان کونسل:
ایران میں ڈسپلن برقرار رکھنے کے حوالے سے یہ ایک اہم ادارہ ہے، جو الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی چھانٹی کرتا ہے۔ ملک دشمن، رشوت خور، فسادی، دہشتگرد یا کسی بھی بری شہرت کے حامل امیدوار اور نااہل شخص کو بھی الیکشن لڑنے سے روک دیتا ہے۔

صدر:
ہر چار اور مقامی لیپ سال کو جون کے مہینے میں عوام ڈائریکٹ ووٹ کے ذریعے صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہاں کے قانون کے مطابق صدر بلکہ کسی بھی ممبر کو کاسٹ شدہ ووٹوں کا 50 پلس فیصد ووٹ حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے، ورنہ سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو اہم امیدواروں کو اگلے مرحلے میں دوبارہ الیکشن لڑنا پڑتا ہے۔ صدر یہاں کا طاقتور فرد ہوتا ہے۔ جو اپنی کابینہ کا انتخاب خود تو کرتا ہے، تاہم اس کی منظوری قومی اسمبلی سے لینا لازمی ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی مجوزہ پوسٹ کے لئے وزیر کی اہلیت اور نا اہلیت پر کھلا تبصرہ کرکے توثیق یا مسترد کرتی ہے۔

سپریم لیڈر:
سپریم لیڈر ملک کا طاقتور ترین عہدہ ہے۔ جس کا انتخاب سپیشل عوامی نمائندے مجلس خبرگان کرتے ہیں۔ رپبر اعلیٰ تینوں فورسز کا سربراہ ہوتا ہے۔ ملکی پالیسی، جسے صدر اپنی مجلس کے ساتھ ملکر وضع کرتے ہیں اور سیاست میں بے طرف ہوتا ہے۔ تاہم ملکی نظام کو خطرہ لاحق ہو جائے، خصوصاً عسکری سطح کی پالیسی وضع کرنے میں رہبر اعلیٰ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ رہبر، صدر، پارلیمنت اور عدالت کے لئے آئین میں وضع شدہ نکات میں سے کسی کی خلاف ورزی کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی۔ خلاف ورزی کی صورت میں فوراً ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایرانی آئین کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اسے دنیا میں انوکھا اور بہترین نظام جمہوریت پائیں گے۔ اس آئین کی خوبی اور پائیداری کو دیکھ کر افغانستان نے بھی اس کی نقل شروع کی ہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر معروف ایرانی اسکالر ڈاکٹر رحیم پور ازغدی کے کچھ نکات یہاں نقل کئے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر رحیم پور ازغدی یونیورسٹی کے طلباء سے اپنے ایک لیکچر میں فرماتے ہیں:
انقلاب مخالف بعض عناصر اعتراض کرتے ہیں کہ ایرانی قانون انہیں قابل قبول نہیں، کیونکہ اس میں انہیں ترمیم کرنے کا اختیار نہیں۔ اس میں فلاں کمی ہے، فلاں بیشی ہے وغیرہ۔۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی آئین و قانون میں اس ملک کے قانون کے مخالف اور پارلیمنٹ سے باہر کسی شخص کو ماورائے قانون، آئین میں ترمیم کرنے کا حق حاصل نہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں، جس نے قانون تیار کرنے سے قبل یا تیار کرتے وقت اپنے عوام کا اعتماد حاصل کیا ہو اور دنیا میں ایسا کوئی ملک موجود نہیں، جس نے آئین تیار کرنے کے بعد اسے عوام کے سامنے پیش کرکے انہیں اعتماد میں لیا ہو۔ دنیا کے کسی ملک نے اپنے عوام سے نہیں پوچھا ہے کہ تم کس نوعیت کا نظام چاہتے ہو۔

وہ ڈائریکٹ یونیورسٹی کے طلباء سے سوال کرتے ہوئے چیلنج کرتے ہیں کہ کسی ایک ملک کا نام لیں۔ جب سب خاموش ہو جاتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ دنیا کے صفحے پر صرف ایک ملک موجود ہے اور وہ ہے اسلامی جمہوریہ ایران۔ امام خمینی نے اقتدار میں آتے ہی حکم دیا کہ آئین تیار کرنے سے پہلے عوام سے رائے لی جائے کہ وہ کس نوعیت کا نظام چاہتے ہیں۔ عوام کی بھاری اکثریت نے اسلامی جمہوری نظام کے حق میں ووٹ دیا۔ اس کے بعد عوام سے دوبارہ رائے لی گئی کہ صرف قانون کی تیاری کیلئے اپنی پسند کے نمائندوں کا انتخاب کریں۔ انتخاب کے بعد جب منتخب نمائندوں نے ڈاکٹر بہشتی اور دیگر ماہرین قانون کے زیر نگرانی قانون تیار کرلیا تو اس کی تشہیر کرکے دوبارہ عوام کے سامنے رکھا گیا اور تیسری بار ان کی رائے لیکر قانون کی توثیق حاصل کی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے قدیم اور جدید ملکی آئینوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا آئین نہیں، جسے عوام کا اتنا بھاری اعتماد حاصل ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عوام سے آئین کی منظوری اس زمانے میں لی گئی تھی۔ اب دوبارہ اور اس زمانے میں تو نہیں لی گئی۔ ان کے لئے عرض ہے کہ ایران سے باہر جمہوریت کے دعویدار کسی بھی مغربی یا مشرقی ملک میں دکھائیں کہ پرانے آئین کو منسوخ کرکے دوبارہ نیا آئین تیار کیا گیا ہو۔ ایسا کوئی ملک دنیا کے صفحے پر موجود نہیں۔ چنانچہ کسی کو بھی باہر بیٹھ کر ایران کے قانون میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ مضمون کی طوالت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ورنہ ایرانی آئین کو جامع اور یونیورسل ثابت کرتے ہوئے ڈاکٹر رحیم پور نے جو مفید اور معلوماتی لیکچر دیا ہے۔ یقیناً دیکھنے اور سننے کے قابل ہے۔ جسے البلاغ والوں نے اردو ترجمے کے ساتھ یو ٹیوب پر اپ لوڈ کیا ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …