جمعہ , 19 اپریل 2024

سرمایہ دارانہ نظام کا مقابلہ ملی و اسلامی اتحاد کے ذریعہ ہی ممکن ہے: علامہ امین شہیدی

فیصل آباد:امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے ڈسٹرکٹ بار کونسل فیصل آباد میں قومی امن کانفرنس میں شرکت کی اور خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ دینِ اسلام امن کا پیامبر ہے، اللہ کی مخلوق کے حوالہ سے اسلام ہمیشہ میانہ روی، رحم دلی، درگزر اور انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کی تعلیم دیتا ہے تاہم ظلم کے خلاف اس میں شدت پائی جاتی ہے۔ یہ دین انسانوں کو خدا سے جوڑنے، انہیں اللہ کی وحدانیت اور عبودیت کے دائرہ میں داخل کرنے کے لئے آیا ہے۔ اس تناظر میں وطن عزیز پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال یکسر مختلف ہے۔ گذشتہ تیس سے چالیس سال کے دوران دین کے نام پر یہاں جو کچھ ہوا وہ اسلام دشمن قوتوں کی ترجمانی تھی نہ کہ اسلام کی۔ ان قوتوں کا ہدف یہی تھا کہ پاکستان میں امن قائم نہ ہو، آج بھی یہ طاقتیں اپنے مذموم عزائم کے حصول کے لئے سرگرم ہیں۔ ان حالات میں ہمیں دشمن سے زیادہ بیدار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں، پاکستان پُرامن ہوگا تو ہم بھی محفوظ اور پر سکون رہ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ چیز سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلم دنیا سرمایہ دارانہ نظام کی زد میں ہے۔ مسلم ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے اور وہاں اپنی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لئے چند لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں فرقہ وارانہ اختلافات کو بڑھاوا دینے کا کام دین فروش مولویوں کے ذریعہ کیا گیا۔ اس صورتحال میں اگر کوئی شخص دین کی روح کے مطابق زندگی گزارنا چاہے تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی صورتحال دیگر مسلم ممالک کی ہے۔ عراق میں داعش، یمن میں القاعدہ کو مسلط کیا گیا، اسی طرح افغانستان کی صورتحال ہم سب پر واضح ہے لیکن اس پر کوئی سوال نہیں کرتا کہ ان شدت پسند تنظیموں کو کس نے اور کیوں بنایا؟ ان کو فنڈز اور اسلحہ کون فراہم کرتا ہے؟ اس کے برعکس سوشل میڈیا پر کوئی ایسی چیز شیئر کر دی جائے جو ان سرمایہ داروں کی پالیسی کے خلاف ہو تو فورا پکڑ ہوتی ہے اور اس اکاؤنٹ یا پیج کو بند کر دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف انہی قوتوں کی ایما پر اسلام کے اصل چہرہ کو مسخ کرنے کے لئے ہولناک مناظر پیش کرنے والی تصاویر کا اشتراک کیا جاتا ہے جنہیں دیکھ کر دیگر مذاہب کے لوگ مسلمانوں کو انتہا پسند آپ اور دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔

علامہ امین شہیدی نے کہا پاکستان میں اسلام دشمن قوتوں نے ڈالرز خرچ کر کے فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دی، آج صورتحال یہ ہے کہ پاکیزگی، معنویت، تقدس، خدا پرستی اور محبت کے جذبات پر عناد، عدم برداشت اور شدت پسندی حاوی ہے۔ معاشرہ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے اس قدر دور کر دیا گیا ہے کہ کھلے عام فحاشی کے پھیلائے جانے پر اعتراض نہیں ہوتا لیکن میلاد کی محافل پر پابندی یا عزاداری کے جلوس کو روکنے کے لئے ایک پورا گروہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اللہ کے قوانین میں تبدیلی پر خاموشی طاری رہتی ہے لیکن دوسرے مسلک کے مخصوص طریقہ کو فہم کے اختلاف پر پرکھنے کی بجائے کفر کا عنوان دیا جاتا ہے اور شدت پسند اس بنیاد پر کیے جانے والے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔

عقیدہ توحید کے نام پر معمولی مقاصد کے حصول کے لئے غیر مسلم آبادیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دراصل یہ ایک عالمی منصوبہ ہے جس کا ہدف دین کی روح کو کچلنا ہے اور اس میں ہمارے بچے، مدارس، مولوی، لبرلز اور میڈیا جانے انجانے میں استعمال ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے ریاستی اداروں نے بھی اغیار کے ایجنڈے پر عمل کیا جس کی وجہ سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ مسلم ممالک کو اس مشکل صورتحال سے نکالنے کے دو ہی راستے ہیں: ایک ملی اتحاد یعنی ہم پاکستانیت کی بنیاد پر متحد ہوں، دوسرا اسلامی اتحاد یعنی موحد اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے امتی کی حیثیت سے اختلافات کو بڑھاوا دینے کی بجائے لوگوں کو آپس میں جوڑیں۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …