جمعرات , 18 اپریل 2024

نارملائزیشن کا عمل اور قطر کا ورلڈ کپ

(ترتیب و تنظیم: علی واحدی)

قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے دلچسپ واقعات میں سے ایک مختلف عرب ممالک کے عوام کا اسرائیلی میڈیا سے بات کرنے سے انکار اور عرب تماشائیوں کی طرف سے صیہونی حکومت کے خلاف فلسطین کی بھرپور حمایت ہے۔ بنیادی طور پر ورلڈ کپ ایسے واقعات دیکھنے کا منظر ہے، جو مختلف ممالک میں عام دنوں میں شاذ و نادر ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ورلڈ کپ مختلف ممالک کے لوگوں کے لیے ایک دوسرے کو جاننے کا پلیٹ فارم ہے، اسی طرح بعض ممالک کے سماجی اور کھیلوں کے مقابلہ کا اسٹیج بھی ہے۔ تاہم قطر میں 2022ء کے ورلڈ کپ میں ایک خاص منظر ہے، جسے صیہونی میڈیا کے لئے برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے: مختلف ممالک بالخصوص عرب ممالک کے تماشائیوں نے نہ صرف اسرائیلی میڈیا اور رپورٹرز سے بات کرنے سے انکار کیا بلکہ میچوں کے دوران فلسطین کی کھل کر حمایت کی۔ جب عرب ناظرین کا اسرائیلی نامہ نگاروں سے سامنا ہوتا ہے تو وہ انٹرویو دینے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں "اسرائیل نام کی کوئی ریاست ہی نہیں ہے، اور ان کے زیر قبضہ ملک کا نام فلسطین ہے۔”

قطری، تیونسی، لبنانی اور حتیٰ کہ سعودی تماشائیوں نے اسرائیلی رپورٹرز سے بات کرنے سے انکار کرکے ثابت کر دیا کہ وہ اسرائیل کے بارے میں کیا موقف رکھتے ہیں۔ تیونس کے تماشائیوں نے قطر ورلڈ کپ کے دوران فلسطین کی حمایت میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ یہ مسئلہ اتنا نمایاں تھا کہ اسرائیلی اور مغربی میڈیا بھی اس کی کوریج کرنے پر مجبور ہوگیا۔ صیہونی حکومت کے چینل 12 نے اپنی ایک رپورٹ میں تاکید کی ہے کہ تیونسیوں کے لیے فلسطین عالمی کپ میں کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔ تیونس ٹیم کے بہت سے شائقین فلسطینی قوم کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں اور ان گیمز کے دوران وہ فلسطینی قوم کی حمایت کے پیغامات دیتے ہیں اور فلسطین کی آزادی کے موضوع پر مشتمل پلے کارڈز سٹیڈیم میں لاتے ہیں، ان میں سے کچھ اس حد تک نظر آتے ہیں کہ گویا یہ میچز فلسطین کے واقعات کو دنیا کے سامنے بیان کرنے کا ایک مناسب موقع ہے۔

قطر ورلڈ کپ میں عرب تماشائیوں کے اس رویئے میں کچھ اہم سماجی اور سیاسی نکات شامل ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں اپنے بعض حکمرانوں کے مغرب پر انحصار اور صیہونی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کے باوجود مسلمان عوام تعلقات کو معمول پر لانے کے شدید مخالف اور مسئلہ فلسطین کے حامی ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اسرائیلی میڈیا اور صحافیوں کے تئیں عرب حاضرین کا رویہ مسئلہ فلسطین پر اقوام اور بعض عرب حکومتوں کے درمیان خلیج کی نشاندہی کرتا ہے، جبکہ عرب حکومتیں مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالتی ہیں اور القدس کی قابض حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے دستبردار ہوتی ہیں، جبکہ عرب عوام کے لیے مسئلہ فلسطین اب بھی ایک مرکزی اور شناختی مسئلہ ہے۔ بہرحال قطر میں ہونے والا ورلڈ کپ اقوام عالم کے مطالبات اور عرب حکومتوں کی اختیار کردہ پالیسیوں کے درمیان خلیج کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ صحافیوں اور صیہونی میڈیا کے ساتھ عرب تماشائیوں کے رویئے کا مطلب صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کی ناکامی ہے۔ جہاں بعض عرب ممالک کے حکمران اپنے ملکوں کے اندر صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کے خلاف کسی قسم کے احتجاج کو روکتے ہیں، وہیں قطر ورلڈ کپ مختلف عرب ممالک کے عوام کے لیے ایک موقع بن گیا ہے کہ وہ معمول کے عمل کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کریں۔ قطر میں عرب عوام کے رویوں سے ثابت ہو رہا ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہے اور عملی طور پر نارملائزیشن کا عمل ایک ناکام عمل بن گیا ہے، جسے عوامی حمایت ہرگز حاصل نہیں ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …