جمعہ , 19 اپریل 2024

بحران ابھی باقی ہے

(ماریہ میمن)

ملک میں جاری اضطراب اور ہیجان کچھ تو کم ہوا ہے۔ دارالحکومت میں لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات کو بھی کچھ سکون آیا ہے۔ اہم ترین ادارے کی اہم ترین تعیناتی کا مرحلہ سکون سے طے پایا۔ اس کے ساتھ ہی امید تھی کہ عمران خان کا لانگ مارچ ختم ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔
تشویش کے بادل چھٹے تو ہیں مگر کچھ کچھ، کیونکہ ساتھ ہی عمران خان نے تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کر دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ اعلان فیس سیونگ ہے یا پھر جلد ہی ملکی سیاست ایک نئے بحران کی طرف جانے والی ہے؟
عمران خان کی سیاست سے اختلاف کرنے والے بھی ان کی بولڈ اور رسک لینے کی حکمت عملی کا اعتراف کرتے ہیں۔
راولپنڈی کے جلسے سے قبل لانگ مارچ طویل سے طویل ہو چکا تھا۔ اہم تعیناتی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنے معاملات کے لیے کچھ وقت تو ضرور لگنا تھا۔

عمران خان کے زخمی ہونے کے بعد دوسری سطح کی قیادت اس طرح کا تاثر قائم کرنے میں کچھ خاص کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ اعلٰی عدالتوں کی طرف سے بھی پی ٹی آئی کو کوئی خاص ریلیف نظر نہیں آر ہا تھا۔ کارکنوں پر بھی عرصے سے جاری احتجاج کی ایک تھکن نظر آ رہی تھی۔

جس صوبے میں آپ کی حکومت ہو تو وہاں جتنے بھی لوگ جمع کر لیں اس کا وہ اثر نہیں ہو سکتا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان سب عوامل میں یہی قوی امید تھی کہ عمران خان ایک بریک لیں گے۔ حکومت ابھی سُکھ کا سانس لینے نہ پائی تھی کہ عمران خان کا نیا اعلان سامنے آ گیا۔ اس کے ساتھ ہی اتوار کو ایک بار پھر سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا۔
اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان ویسے تو سرپرائز ثابت ہوا مگر اعلان کے بعد تجزیہ کیا جائے تو عمران خان کے زاویہِ نگاہ سے یہ فیصلہ ظاہری طور پر سمجھ میں آتا ہے۔ خصوصاً پنجاب حکومت ان کے لیے کچھ خاص فائدے کا سبب نہیں بن رہی۔

چاہے سامنے کچھ بھی کہیں مگر پی ٹی آئی کی قیادت بشمول وزرَا اجتجاج میں مصروف ہیں اور وزیراعلٰی کی طرف سے ان کے اپنی ترجیحات کے مطابق سیاسی اور ترقیاتی کام جاری ہیں۔

وزیر آباد واقعے کی ایف آئی آر کے معاملے میں بھی عمران خان کی مایوسی عیاں رہی۔ وفاقی حکومت کی طرف سے ان کو کُھلے عام پنجاب حکومت کے طعنے بھی ملتے رہے۔ پھر پنجاب میں حکومت کے بعد ان کے احتجاج میں وہ جان بھی نہیں رہی۔جس صوبے میں آپ کی حکومت ہو تو وہاں جتنے بھی لوگ جمع کر لیں اس کا وہ اثر نہیں ہو سکتا۔

اور اگر ہڑتال اور پہیہ جام سے معمولات زندگی معطل بھی ہوں تو اس کا اثر مثبت کے بجائے منفی ہوتا ہے۔ اس لیے پنجاب کے طول و عرض میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کا سیاسی اثر تو ہوا مگر بطور احتجاج وفاقی حکومت پر اس کا پریشر کم ہی رہا۔

پنجاب میں عمران خان صاحب کا فیصلہ نسبتاً آسان ہے۔ پنجاب حکومت میں ان کی دلچسپی بھی خاص نہیں اور یہاں پر اگر ن لیگ کی حکومت کسی ٹیکنیکل پوائنٹ پر واپس بھی آ جائے، تو ان کو اس میں شاید سیاسی فائدہ ہی نظر آ رہا ہے۔

خیبر پختونخوا کا معاملہ الگ ہے۔ یہاں ان کی اپنی حکومت ہے۔ پہلے بھی اسمبلیوں سے استعفے دینے میں وہ جذبہ نظر نہیں آیا جس کی وہ توقع کرتے تھے۔ ابھی بھی وزیراعلٰی محمود خان ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اُسی وقت اعلان ہوتا اور اسمبلی ٹوٹ جاتی۔

اب زیادہ امکان ہے عدم اعتماد کے ذریعے کچھ وقت حاصل کیا جائے گا۔ اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں اقتدار گورنر کے پاس چلا جائے گا۔ یہ بھی امکان ہے کہ کوئی صورت نکال کر صوبائی الیکشن کو التوا میں ڈال دیا جائے جس کے بعد حتمی فیصلہ پھر عدالتوں میں چلا جائے گا۔

اسمبلیوں سے استعفے ہوں یا وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کی کوشش کریں، یہ تو طے ہے کہ بحران ابھی ختم نہیں ہوا۔ اسمبلیوں کی مدت کو ایک سال تک طول دینے میں پی ڈی ایم کا بہت سارا سیاسی اثاثہ خرچ ہوتا نظر آ رہا ہے۔
پنجاب حکومت حاصل کرنے کے لیے پہلے بھی جو طریقہ کار اپنایا گیا اس سے پی ٹی آئی کا ووٹ بنک بڑھا ہی ہے جس کا ثبوت صوبائی اور بعد میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات سے بھی واضح ہو گیا۔

اگر کسی نہ کسی طرح پی ڈی ایم اتحاد ایک سال نکال بھی گیا تو پھر بھی سیاسی طور پر ان کے پاس دکھانے کے کچھ خاص نہیں ہو گا۔ معاشی میدان میں مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ انتظامی طور پر بھی ایک نفسا نفسی کا عالم ہے۔

اس لیے اگر ان کو یہ گمان تھا کہ دسمبر کے آغاز کے ساتھ وہ سکون سے حکومت کریں گے تو یہ خیال خام خیالی سے کم نہیں کیونکہ بحران ابھی باقی ہے!بشکریہ نیوز اردو

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …