جمعرات , 25 اپریل 2024

تماشہ میرے آگے

(چودھری خادم حسین)

سابق وزیراعظم عمران خان تاحال زمان پارک لاہور میں مقیم ہیں کہ وہ شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹر حضرات کے زیر علاج ہیں، تاہم وہ زخمی حالت میں بھی بہت مصروف ہیں اور بقول خود ”اور بھی خطرناک“ ثابت ہو رہے ہیں۔اگرچہ اس خطرناکی کو انہوں نے خود ہی بریک بھی لگا دی تھی کہ زخمی حالت میں راولپنڈی جا کر جلسہ عام سے خطاب کیا اور اسمبلیوں سے باہر نکل آنے کا اعلان کر کے لانگ مارچ ختم کر دیا،جسے مخالفین فرلانگ مارچ کہہ رہے تھے کہ لاہور سے چلنے والا مارچ چند کلو میٹر کے بعد قیام پذیر ہو جاتا تھا۔ وزیر آباد تک تو خان کی اپنی حکمت عملی اپنی براہِ راست نگرانی میں تھی، تاہم زخمی ہو جانے کے بعد دو روزہ بریک کے بعد بھی قافلہ خراماں خراماں رواں دواں رہا اور راولپنڈی کا مری روڈ اختتام بن گیا۔

کپتان کے مخالفین تو بہت کچھ کہتے ہیں، لیکن میرا اور میرے دیگر احباب کا یہ خیال ہے کہ انہوں نے اس مقام پر اسی روز خطاب اور اعلان کر کے درست قدم اٹھایا تھا کیونکہ اعلان کردہ تعداد سے کہیں تھوڑا ہجوم ہونے کے باوجود اتنے لوگ ضرور تھے کہ اسلام آباد کی طرف رخ ہوتا تو شاید نتائج اور ہی نکلتے۔ بہرحال خدا لگتی تو یہ ہے کہ اگر خان کی طویل مہم کے بعد بھی توقع کے مطابق لوگ جمع نہیں ہوئے تو پھر بھی یہ جلسہ معتبر ہی تھا، اس لئے تنقید کرتے وقت یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ خود کپتان کے سابق ٹائیگر فیصل واؤڈا کی خون خرابے والی وارننگ بھی پوری نہیں ہوئی، اگرچہ خود کپتان کے زخمی ہونے کے علاوہ وزیر آباد میں کچھ اور لوگ زخمی ہوئے اور جلسہ میں شرکت کے لئے آنے والا معظم اللہ کو پیارا ہو گیا،اس سلسلے میں کپتان نے راولپنڈی کے جلسہ میں جو تفصیل بیان کی اس نے مجھے چونکا دیا،جب میں اسے اسد عمر کے بیان سے ملا کر دیکھتا اور سوچتا ہوں تو میرا ذہن تاریخ کی کئی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔عمران خان نے فرمایا وزیرآباد میں ان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی اور گولیاں برسائی گئیں،اس سے معظم جاں بحق ہوا جو مجھے بھولتا نہیں،اس کے علاوہ میرے دس بارہ ساتھی زخمی ہوئے اور میں خود گر کر بچ گیا کہ جب میں گرا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ نے مجھے بچا لیا ہے جبکہ عمران اسماعیل کے کپڑوں میں سے چار گولیاں گذریں،کپتان نے اسے اللہ کی رحمت قرار دیا تھا، مجھے اسد عمر کا بیان بھی یاد آ گیا، جب انہوں نے کہا ”مجھے یقین ہو گیا ہے کہ عمران خان پر اللہ کا سایہ ہے“ یوں اگر اسے ملا کر پڑھیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ معجزہ کا ہی ذکر ہو رہا ہے۔اگرچہ فیصل واؤڈا نے کپڑوں سے نکل کر جانے والی گولیوں کو پینا ڈول کی گولیاں کہہ کر طنز کیا ہے وہ جانیں اور ان کا لیڈر، میں تو یہی عرض کرتا ہوں کہ کپتان کا اسلام آبا نہ جانے کا فیصلہ صائب تھا۔ کوئی کچھ کہے، اسے حقیقت مان لیجئے کہ جلسہ میں اتنا مجمع ضرور تھا جو اسلام آباد کی انتظامیہ کے لئے سردرد اور ملک کے لئے بہتر نہ ہوتا کہ بہر صورت جب ہجوم کو روکنے کی کوشش کی جاتی تو کچھ سے کچھ ہو سکتا تھا۔

عمران خان نے لانگ مارچ ملتوی اور اسلام آباد نہ جانے کا فیصلہ تو درست کیا،تاہم اس کے بعد اسمبلیوں سے باہر آنے کا اعلان کر کے جو سلسلہ اسمبلیوں کی تحلیل تک شروع کر دیا گیا ہے اس نے بے یقینی اور محاذ آرائی کی حالت کو تبدیل نہیں کیا بلکہ اب اور بھی اضافہ ہو گیا کہ اگر اس پر عمل ہو گیا اور برسر اقتدار اتحاد کے ارادے بھی وہی رہے جو ہیں تو پھر انتخابات کی جو صورت حال پیدا ہو گی وہ بہتر نہیں ہو گی کہ اب بھی ملک میں سیاسی بحران و انتشار ہے تو تب کیا ہو گا اس پر بعد میں بات کرتے ہیں۔ایک اور ”اچھے عمل“ کا بھی ذکر کر دیں، وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی تجربہ کار سیاست دان ہیں، جو سوچ کر بات کرتے ہیں، اسمبلی کی تحلیل اور پی ڈی ایم سے زور آزمائی کے حوالے سے جہاں انہوں نے یہ کہا کہ حزبِ اختلاف (پی ڈی ایم) کے پاس186 اراکین ہوں گے تو عدم اعتماد ہو گی، کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق یہ فرض اپوزیشن کا ہے کہ وہ اتنے اراکین سے عدم اعتماد کے حق میں ووٹ لے۔ انہوں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ اسمبلی کا اجلاس جاری ہے نہ تو گورنر راج لگ سکتا ہے اور نہ ہی عدم اعتماد آ سکتی ہے۔عدم اعتماد کے حوالے سے تو وضاحت آ گئی کہ یہ عمل صرف اور صرف بجٹ سیشن کے دوران نہیں ہوتا، عام اجلاس میں عدم اعتماد کی تحریک دورانِ اجلاس پیش کی جا سکتی ہے اور اس پر سپیکر کو مقررہ دِنوں کے اندر رائے شماری بھی کرانا ہوتی ہے۔البتہ گورنر راج کے لئے اسمبلی کے وقفہ کا انتظار لازم ہے تاہم وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے واضح کر دیا کہ گورنر راج کا کوئی امکان نہیں،البتہ تحریک عدم اعتماد کی بات درست ہے اور اب کمان آصف علی زرداری نے سنبھال لی ہے اس پر بات کرنے سے پہلے چودھری پرویز الٰہی کا یہ کہنا یاد کریں کہ وہ وضع دار لوگ ہیں جس کے ساتھ کھڑے ہوں اس کا ساتھ نبھاتے ہیں۔وزارت علیہ عمران خان کی امانت ہے وہ جب کہیں گے اسمبلی توڑ دوں گا،چودھری صاحب کے صاحبزادے تو ماشاء اللہ جیالے نظر آئے ہیں اب اگر یہ کہا جائے کہ مونس الٰہی نے یہ کہہ کر کہ اسمبلی اور وزارت تو کیا چیز ہے،عمران خان کے لئے جان بھی حاضر ہے، ٹائیگر حضرات کو مات دے دی ہے ان سب کو اب مونس الٰہی جیسے جذبات کی پیروی کرنا ہو گی۔

حالات جو بھی ہیں سب کے سامنے ہیں،افسوس تو یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے، معاشی حالت خراب تر ہونے کے باوجود یہاں لڑائی جاری ہے حتیٰ کہ سر بازار پرانے کپڑے دھوئے جا رہے ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ سوشل میڈیا ٹرولز سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ کی ہجو لکھ رہے ہیں تو مونس الٰہی نے ان کو جواب دے کر ایک بڑا انکشاف بھی کر دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے تو ان دو (والد+صاحبزادے) سے عمران خان کا ساتھ دینے کو کہا اور وہ عمران خان کی بہت حمایت کرتے رہے ہیں، شاید یہی وہ وجہ ہے کہ جب انہی جنرل باجوہ نے نیوٹرل رہنے کا اعلان کیا تو ٹرولز ان کے پیچھے پڑ گئے اور خود عمران خان نے نیوٹرلز کے حوالے سے بھی بہت کچھ کہا۔

سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ”درد مند سیاست دان“ جو ہر دم عوام اور ملک کی ترقی و بہبود کا اعلان کرتے رہتے ہیں،اس عمل پر کیوں نہیں کرتے کہ ملک کو انتشار و اختلاف کی نہیں اتحاد کی ضرورت ہے۔چہ جائیکہ آپ عدالت عظمیٰ کو بھی دھمکی آمیز زبان میں انتباہ کریں۔اسی عدلیہ سے آج ہی پنجاب حکومت کے ایک حکم یا موقف کے حوالے سے ریلیف مل گئی اور جے آئی ٹی کے سربراہ بحال ہو گئے ہیں۔ اب وزیر آباد سانحہ کی تفتیش وہی کریں گے۔میری پھر سے یہی خواہش و گذارش ہے کہ سب سوچیں اور صرف زبان سے نہ کہیں کہ حالات اچھے نہیں بلکہ ان کی درستگی کے لئے سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو مسائل کی دلدل سے باہر نکالیں۔اللہ کا احسان بھی تب ہو گا جب ہم اللہ کے رسولؐ کے بتائے گئے راستے پر گامزن ہوں گے۔یہ نہیں کہ محاذ آرائی تو بڑھاتے رہیں اور ملک و قوم کی خاطر مل کر نہ سوچیں،عجیب سا ماحول ہے کہ ہم سب یہ گذارش کرتے رہے اور کر رہے ہیں کہ ایوانوں میں جا کر کردار ادا کریں اور یہاں حاضر ایوان بھی توڑے جا رہے ہیں۔بتانے والے عرض بھی کر رہے ہیں کہ ملک میں بار بار انتخابات پر کتنے اخراجات اٹھیں گے اور موجودہ معاشی حالات میں ملک برداشت نہ کر سکے گا ویسے بھی جب انتخابات ہوتے ہیں تو عوامی رجحان کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، بے شک تحریک انصاف والے حضرات بزعم خود بہت زیادہ مقبول ہیں اور کلین سویپ کریں گے۔ان سب کو آزاد کشمیر کے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج دیکھ لینا چاہئیں، بلدیاتی انتخابات تو نچلی سطح کے ہوتے ہیں اور یہاں واضح حمایت کا اندازہ ہوتا ہے،اب جو نتائج وہاں سامنے آئے وہ بتاتے ہیں کہ ملک کے لئے صوبائی یا قومی انتخابات کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا،جن ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمران خان کی مقبولیت کا دعویٰ کیا جاتا ہے ان کے نتائج عمران کے لئے سو فیصد نہیں تو نوے فیصد ضرور ہیں،لیکن جس نشست پر وہ خود امیدوار نہیں تھے وہ تو بڑے فرق سے ہار دی گئی اس لئے مستقبل کیا ہے اور عوامی رجحان کیا ہو گا اس پر بھی غور کر لیں۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …