منگل , 23 اپریل 2024

ٹی ٹی پی کے حوالے سے آپشنز اور چینج آف کماںڈ

(تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی)

گذشتہ دنوں افغانستان میں کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے انچارج ڈی افیئرز پر قاتلانہ حملے اور سمنگان کی مسجد میں ہونے والے دھماکے میں بیس سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جس نے افغانستان میں سلامتی کے استحکام کے حوالے سے کئی خدشات کو جنم دے دیا ہے۔ افغانستان میں پاکستانی سفارتخانے کے انچارج عبیدالرحمان نظامانی کابل شہر میں پاکستانی سفارت خانے پر نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے بال بال بچ گئے اور اس فائرنگ میں ان کا محافظ زخمی ہوگیا۔ ابھی تک کسی شخص یا گروہ نے کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ ایک پیغام میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے کی کوشش کی مذمت کرتے ہوئے افغانستان میں طالبان حکومت سے حملہ آوروں کی شناخت اور گرفتاری کے لیے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرنے والوں کا سب سے اہم ہدف پاکستان اور طالبان گروپ کے درمیان تعلقات کو خراب کرنا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں مذہبی مقامات اور دینی مدارس کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، جن میں سمنگان اور کابل کی ایمان مسجد میں دہشت گردانہ حملہ بھی شامل ہے، جس کے دوران درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان کے حریف گروپ منجملہ داعش دہشت گرد گروہ طالبان کی سکیورٹی صلاحیتوں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں نے مذہبی مقامات اور سیاسی شخصیات کے دفاتر کے ساتھ ساتھ سرکاری عمارتوں پر حملے کرنے کے لیے اپنا آپریشنل طریقہ کار تبدیل کر لیا ہے۔

افغانستان میں سیاسی امور کے ماہر عبدالطیف نظری کہتے ہیں: "طالبان نے کئی بار افغانستان کے عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا ہے، لیکن عملی طور پر، اس ملک میں نہ صرف مستحکم سکیورٹی قائم نہیں ہوئی، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کچھ گروپ اسلام آباد میں طالبان کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔” کیونکہ طالبان کی ایک اہم ترین حمایت پاکستانی حکومت اور فوج ہے۔ پاکستان کی نائب وزیر خارجہ حنا ربانی کے دورہ کابل کے چند روز بعد پاکستانی سفارت خانے کے چارج ڈی افیئرز پر حملہ اسلام آباد کے لیے واضح پیغام ہوسکتا ہے کہ وہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت بند کرے اور اس عمل کو ختم کرے۔ یہ مسئلہ افغانستان کے لیے اہم ہے، کیونکہ حکومت پاکستان اس ملک کو اپنے ایک صوبے کے طور پر دیکھتی ہے۔

دہشت گرد گروہ ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کی اور یہ ثابت کیا کہ وہ پاکستان کے مفادات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کابل کے دارالامان سڑک پر واقع مسجد ایمان کو نشانہ بنایا گیا، جو حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار کے دفتر کے قریب واقع ہے، اس حملے میں دو افراد مارے گئے ہیں اور حکمتیار کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے دونوں افراد حملہ آور تھے، جنھیں مسجد کی حفاظت پر تعینات محافظوں نے بروقت کارروائی کرکے ہلاک کر دیا۔ خبر رساں اداروں کے مطابق، افغانستان کی حزب اسلامی پارٹی کے سربراہ گلبدین حکمتیار اس مسجد کے امام جمعہ ہیں اور وہ اس حملے میں محفوظ رہے،
باخبر ذرائع کے مطابق گلبدین حکمتیار کے دو باڈی گارڈ اس حملے میں زخمی ہوگئے ہیں۔ اب تک کسی بھی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بدھ کے روز بھی صوبہ سمنگان کے ایبک شہر میں واقع ایک دینی مدرسے میں دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا، جس میں بیس افراد جاں بحق جبکہ تیس زخمی ہوئے تھے۔

افغانستان میں اس نوعیت کے حملوں میں شدت آتی جا رہی ہے، تاہم طالبان حکومت کی جانب سے اس کی روک تھام کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے ملکی فوج کے ساتھ جنگ ​​بندی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس نے اپنے جنگجوؤں کو پاکستان بھر میں آپریشن شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ حکم حال ہی میں پاکستانی طالبان اور اس ملک کی فوج کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بارے میں رپورٹس شائع ہونے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کا مطلب اس گروپ اور پاکستانی فوج کے درمیان حالیہ مذاکرات کی مکمل ناکامی ہے۔ افغان طالبان کی پہل پر شروع ہونے والے ان مذاکرات نے پاکستان کی تمام داخلی صلاحیتیں استعمال کیں، جن میں قومی عمائدین اور علمائے کرام بھی شامل تھے، تاکہ اسے کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے میں مدد ملے، لیکن پاکستانی فوج اور تحریک طالبان کے درمیان بنیادی اختلافات ہیں۔ جو ان کی بات چیت کی ناکامی کا باعث بنی اور جنگ بندی بھی ختم ہوگئی۔

حکومت پاکستان اور فوج کے نقطہ نظر سے تحریک طالبان کے کچھ مطالبات ایسے ہیں، جو قانونی طور پر ناقابل قبول ہیں، جیسے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے 2008ء میں خیبر پختونخواہ صوبے میں انضمام کو منسوخ کرنا اور تحریک طالبان کے تمام گرفتار دہشت گردوں کو رہا کرنا شامل ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے مطابق گذشتہ سال تحریک طالبان نے 95 حملے کیے، جن میں 140 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ اگرچہ پاکستانی فوج اس سے قبل تحریک طالبان کو روکنے میں کامیاب ہوئی تھی، لیکن گذشتہ سال اگست کے بعد جب سے افغانستان میں طالبان دوبارہ برسراقتدار آئے تو تحریک طالبان نے دوبارہ اپنی طاقت حاصل کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے لیے کوشاں رہیں گے۔ اس صورتحال میں پاکستانی حکومت اور فوج نے افغان طالبان پر کڑی تنقید کی اور ٹی ٹی پی کو دبانے اور افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔

طالبان نے تحریک طالبان اور پاکستانی فوج کے درمیان بات چیت کا ماحول بنا کر اسلام آباد کے دباؤ سے نکلنے کی کوشش کی اور اس تناظر میں پاکستان کی وزیر مملکت برای خارجہ امور "حنا ربانی کھر نے افغانستان کا دورہ کیا۔ حنا ربانی کھر کے دورے کا مقصد یہ تھا کہ وہ طالبان حکومت سے کہیں کہ وہ تحریک طالبان کو تشدد سے باز رہنے پر مجبور کریں اور جنگ بندی کے لئے ماحول کو سازگار بنائیں۔ پاکستان کے مسائل کے ماہر احمد رشید کہتے ہیں: "تحریک طالبان کئی مسلح گروہوں پر مشتمل ہے، جن کا ہدف پاکستانی فوج کے ٹھکانوں پر حملہ کرنا ہے اور ان کی اصل سرگرمی کا مرکز اس ملک کے قبائلی علاقے ہیں، جنہیں اب صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا ہے۔ الحاق کے بعد، تحریک طالبان کے لئے یہ علاقے پہلے کی طرح محفوظ نہیں رہے اور وہ افغانستان بھاگ گئے ہیں۔”

پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف کی تبدیلی کے بعد تحریک طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا خاتمہ معنی خیز ہے۔ کیونکہ اس گروپ اور فوج کے درمیان بات چیت فوج کے سابق کمانڈر "قمر جاوید باجوہ” کی درخواست پر ہوئی تھی، البتہ انہوں نے ہمیشہ اس بات چیت کی کامیابی پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ اس لیے پاکستانی فوج کے نئے کمانڈر عاصم منیر کی جانب سے تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کا نیا روڈ میپ کیا ہوسکتا ہے اور کیا وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے دوبارہ آغاز کو شروع کریں گے یا کوئی اور راستہ اپنائیں گے۔؟ تحریک طالبان کو بھی اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔

دوسری طرف طرف افغان طالبان پر پاکستان کی جانب سے تحریک طالبان کے ساتھ تعاون اور اس کی میزبانی جاری رکھنے کے حوالے سے شدید دباؤ ہے اور پاکستانی فوج تحریک طالبان کے مقابلے میں ماضی کی نسبت زیادہ سنجیدہ ہو رہی ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پاکستانی فوج کے نئے کمانڈر اس سے قبل فوج کی انٹیلی جنس تنظیم آئی ایس آئی کے سربراہ رہ چکے ہیں، لہذا وہ بلاشبہ تحریک طالبان کے معاملے پر سب سے بہتر انٹیلی جنس اور آپریشنل مہارت رکھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے یا فوج کے حملوں کو تیز کرنے میں سے کس آپشن کا انتخاب کرتے ہیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …