جمعہ , 19 اپریل 2024

معیشت بند گلی میں

ملکی سیاست تو کچھ عرصے سے بند گلی میں ہے ہی مگر اب معیشت بھی اس گلی میں محصور ہے۔
کیا سیاست کی وجہ سے معیشت بحران میں ہے یا پھر معاشی مسائل سیاسی اضطراب کو جنم دے رہے ہیں؟ یہ سوال تجزیہ کاروں کے لیے تو دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے مگر عوام کے لیے بے معنی ہے۔ عوام کے سامنے مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے اور اس کے بعد مایوسی ہے۔

عوام کے اوپر والی سطح پہ تاجر برادری ہے جو کہ ہر وقت بے یقینی کی کیفیت میں ہے۔ کبھی گیس کے نہ آنے کی خبریں ہیں تو کبھی چینی کا بحران سامنے ہے۔

بیرون ملک سے درآمد شدہ خام مال بھی میسر نہیں اور قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
ڈالر کی اونچی اڑان کے متاثرین صرف بیرونی تجارت سے منسلک طبقہ نہیں ہے۔ کوئی بھی شہری جو بیرون ملک سفر کرنا چاہتا ہو یا جس کا کام کسی بھی حوالے سے زرمبادلہ پہ منحصر ہو وہ فوراً ہی ڈالر کے چار مختلف ریٹس کی کہانی سناتا ہے۔

عوام اور تاجروں سے اوپر کی سطح پر زیادہ تشویش ہے۔ گو حکومت تردیدیں کر رہی ہے لیکن کاروباری طبقے میں ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہونے کی خبریں عام ہیں۔

آئی ایم ایف کے حوالے سے بھی منفی علامتیں ہیں اور طویل عرصے والی ادائیگیوں کے بارے میں بھی شکوک و شبہات سامنے آتے ہیں۔

کہیں کسی دوست ملک کے حوالے سے یہ خبر آتی ہے کہ وہ اپنے قرضے یا واجب الادا زرمبادلہ میں رعایت دے رہے ہیں تو پھر کچھ دن سکون سے گزر جاتے ہیں، ورنہ زیادہ تو ایک ایک دن کر کے وقت گزارا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس دِگَر گُوں معاشی صورتحال سے نمٹنے کے دعوے دار کیا کر رہے ہیں؟ جواب اس کا یہ نظر آتا ہے کہ فی الحال حکومتی کیمپ ایک دوسرے کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موجودہ اور سابق وزیر خزانہ کے درمیان اختلاف اب ڈھکی چھپی بات نہیں۔

دونوں میں فرق معیشت کے بارے حکمت عملی تک ہی محدود نہیں بلکہ سیاست، خاندان اور پس منظر کا فرق بھی واضح ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار جب تک لندن میں تھے تو جوش و خروش سے ڈالر کی اڑان اور تیل کی قیمتوں کو قابو میں لانے کی ترکیبیں بتایا کرتے تھے۔

نیا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کا ہدف اپنی ہی پارٹی کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ہیں۔ دونوں طرف جوش و خروش کی جگہ غصے نے لے لی ہے اور موجودہ وزیر خزانہ کی پی ٹی آئی کی حکومت پر تنقید کی گنجائش بنتی نہیں، اس لیے اپنی ہی پارٹی کے سابق وزیر خزانہ ہدف ہیں۔

جس کا واضح مطلب تو یہ بھی ہے کہ ان کے خیال میں وزیراعظم کی معاشی پالیسی بھی ناکام ہی ہو گی مگر اس کو وہ گھر کی بات کے طور پر گھر میں رکھنا چاہتے ہیں۔

موجودہ حکومت مہارت اور قابلیت کے دعوں کے ساتھ اقتدار میں آئی۔ اپوزیشن کے طور پر ان کی طرف سے میثاقِ معیشت کی تجاویز سامنے آتی تھیں۔

ہر طرف سے قابل اور تجربہ کار ٹیم ہونے کا دعویٰ تھا۔ پی ٹی آئی کے خلاف ان کی طرف سے سب سے بڑی چارج شیٹ معاشی میدان میں کمزور کارکردگی تھی۔ آئی ایم ایف سے اچھی ڈیل نہ لینا، زرمبادلہ کی قلابازیاں، بے قابو مہنگائی اور پاکستان کی سفارتی تنہائی پی ٹی آئی کے ناقدین کا پسندیدہ بیانیہ تھا۔

آج کے دن انہی سب باتوں کا اطلاق موجودہ حکومت پر بھی ہو رہا ہے۔ وہی قابل ٹیم معیشت کو اس بند گلی میں دھکیلنے کی ذمہ دار ہے۔ اور افسوس کا مقام اس میں یہ ہے اس کے بعد کوئی ٹھوس بہتری کی صورت نظر آتی ہے اور نہ حکومت کی طرف سے اعتماد کا اظہار سامنے آ رہا ہے۔

اسی صورت حال کا فائدہ عمران خان کو ہو رہا ہے۔ اُن کا نظریاتی اور بیرونی بیانیہ ایک طرف، صرف معاشی صورتحال ہی لوگوں کو حکومت سے بدظن کرنے کے لیے کافی ہے۔

ان حالات میں یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ حکومت اس تاثر کا تدارک کرنے کے لیے کوئی انتہائی قدم اٹھانے کی طرف نہ جائے جیسا کہ الیکشن کو معیاد سے آگے کرنے کے اشارے کیے جا رہے ہیں۔

فی الحال تو صوبائی اسمبلی کی تحلیل ہی ایسا سیاسی بحران ہے جس کا حکومت کے پاس کوئی جواب نظر نہیں آ رہا، اور اوپر سے ایسا کوئی بھی قدم اٹھایا گیا تو اس سے سیاسی اور معاشی بحران قومی بحران میں بدل جائے گا۔بشکریہ نیوز اردو

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …