منگل , 23 اپریل 2024

قطر فیفا ورلڈکپ، اسلامی طرز کا مظہر

(مرزا اشتیاق بیگ)

فیفا ورلڈ کپ 2022ء کے باعث قطر عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور دنیا بھر کے شائقین کی نظریں اس عالمی ایونٹ کے فٹبال میچوں پر مرکوز ہیں۔ مسلمانوں کیلئے یہ ورلڈ کپ اس لحاظ سے دلچسپی کا باعث ہے کہ فٹبال کی تاریخ میں فیفا ورلڈ کپ کا انعقاد پہلی بار ایک اسلامی ملک میں کیا گیا ہے جس نے ثابت کردیا ہے کہ فٹبال پر صرف یورپ یا امریکہ کی اجارہ داری نہیں۔

فیفا ورلڈ کپ ہر 4سال بعد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں منعقد کیا جاتا ہے۔ گزشتہ فیفا ورلڈ کپ 2018ء میں روس میں منعقد کیا گیا تھا جس پر 17ارب ڈالر کے اخراجات آئے تھے لیکن قطر میں ہونے والا فیفا ورلڈ کپ فٹبال کی تاریخ کا مہنگا ترین ایونٹ تصور کیا جارہا ہے جس پر 220 ارب ڈالر کے اخراجات آئے ہیں اور فٹبال میچز دیکھنے کیلئے 1.5 ملین غیر ملکی شائقین نےقطر کا رخ کیا جبکہ دنیا کے 5ارب سے زائد شائقین فٹبال میچز کو براہ راست ٹی وی چینلز پر دیکھ رہے ہیں۔ ورلڈ کپ کے آغاز سے ایک روز قبل فیفا کے اطالوی نژاد صدر جیانی انفانتو نے ایک پریس کانفرنس میں انسانی حقوق کی آڑ میں قطر پر یورپ کی تنقید کو منافقت قرار دیا اور کہا کہ دنیا کو اخلاقیات کا سبق دینے سے پہلے ہم یورپی گزشتہ 3ہزار بر سوں سے جو کچھ کررہے ہیں، اس کیلئے ہمیں آئندہ 3 ہزار برس تک معافی مانگنی چاہئے۔

ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس موقع پر کراچی میں قطر کے قونصل جنرل محمد ال انصاری نے اپنی رہائش گاہ پر ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا جہاں خلیجی ممالک کے قونصل جنرلز بھی مدعو تھے ، میں نے ان کے ہمراہ فیفا ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب بڑی اسکرین پر دیکھی۔ افتتاحی تقریب کے آغاز پر قطر کے امیر کا اپنے والد کا ہاتھ چومنے سے میں بے حد متاثر ہوا جس کے بعد تلاوت قرآن پاک سے فیفا ورلڈ کپ 2022ء کا آغاز ہوا۔ اس طرح ایک اسلامی ملک کو فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا جس کا افتتاح تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے سر فخر سے بلند کردیئے۔افتتاحی تقریب کے موقع پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر خلیجی ممالک کے سربراہان کی شرکت نے عرب ممالک کی یکجہتی کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا۔ افتتاحی تقریب میں ترکی کے صدر طیب اردوان بھی موجود تھے۔ افتتاحی تقریب کے مغربی میڈیا کےبائیکاٹ اور براہ راست نشر نہ کرنےسےان ممالک کی متعصبانہ پالیسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

18 دسمبر تک جاری رہنے والے قطر فٹبال ورلڈ کپ کے مجموعی طور پر 2.89ملین ٹکٹس فروخت ہوچکے ہیں جبکہ ورلڈ کپ میچ دیکھنے کیلئے 1.5 ملین غیر ملکی افراد قطر کا وزٹ کررہے ہیں جن کے قیام کے انتظامات کرنا کوئی آسان بات نہیں۔یہ ورلڈ کپ مسلمانوں کیلئے اس لحاظ سے بھی یادگار رہے گا کہ سعودی عرب نے اپنے افتتاحی میچ میں دنیا کی صف اول ٹیم ارجنٹینا کو شکست دے کر دنیا کو حیران کردیا۔ اسی طرح مراکو نے بلجیم اور کینیڈا کو شکست دے کر اپنے گروپ میں ٹاپ پوزیشن کی 16 ٹیموں میں جگہ بنائی۔میں نے یہ دونوں میچز مراکو میں اپنے مراکن دوستوں کے ساتھ دیکھے جس پر وہاں جشن کا سماں تھا اور لوگ سڑکوں پر جشن مناتے نظر آئے۔

فٹبال کھیل سے محبت مختلف ممالک کو یکجا کردیتی ہے اور اس طرح مختلف ثقافتوں کے عوام بھی ایک ہوجاتے ہیں۔گوکہ فٹبال پاکستان کا قومی کھیل نہیں اور پاکستان میں کرکٹ اور ہاکی کو زیادہ اہمیت حاصل ہے مگر قطر فٹبال ورلڈ میں پاکستانی فٹبال شائقین کی دلچسپی قابل دید ہے اور مقامی میڈیا بھی فٹبال کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے جس کی ایک وجہ اس عالمی ایونٹ کا ایک اسلامی ملک میں منعقد ہونا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں کرکٹ اور ہاکی کے ساتھ ساتھ فٹبال کے کھیل کو بھی فروغ دیا جائے۔

حالیہ فٹبال ورلڈ کپ کو بہترین، منفرد اور مثالی تصور کیا جارہا ہے۔قطر نے دنیا کا سب سے بڑا اسپورٹس ایونٹ اسلامی طرز پر کرواکے مسلمانوں کے سر فخر سے بلند کردیئے ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ کھیلوں کے انعقاد کیلئے میوزک، شراب اور ناچ گانا ضروری نہیں بلکہ اسے آپ اسلامی روایات کے اندر رہتے ہوئے بھی کامیاب بناسکتے ہیں۔ اسٹیڈیم کے قریب مسجدوں سے آنے اذان کی آوازوں اور دیگر اسلامی روایات دنیا بھر میں دیکھی گئیں جن سے متاثر ہوکر قطر میں آنے والے کئی غیر ملکی فٹبال شائقین اسلام قبول کرچکے ہیں۔ قطر میں فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد سے مغرب اور مغربی میڈیا کا مکروہ چہرہ بھی بے نقاب ہوگیا ہے کہ وہ کتنے متعصب ہیں اور اس بات سے خوش نہیں کہ ایک عرب ملک فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرے۔ قطر نے اس پورے ایونٹ میں اپنی تاریخ و ثقافت کی عکاسی جس خوبصورتی سے کی، وہ پوری دنیا کے شائقین کیلئے دلچسپی کا باعث بنی اور تقریب کو یادگار بنادیا۔ورلڈ کپ کے منفر د اور بہترین انعقاد اور اسلامی اقدار کے فروغ پر قطر حکومت اور عوام یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں جس سے عالمی فٹبال کپ کو مغربی ممالک سے منسوب کرنے کی روایت کاخاتمہ ہوا ہے اور قطر نے دنیا کے سب سے بڑے ایونٹ کا انعقاد کرکے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ کھیلوں میں نسلی اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں۔بشکریہ جنگ نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …