جمعہ , 19 اپریل 2024

ایران اور عراق، مستقل خطرے سے، اسٹریٹجک تعلقات تک

(سعدالله زارعی کے تجزیئے سے اقتباس)

اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے "عراق” کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے اور شاید ایران کے پڑوس میں کسی دوسرے ملک کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ ملک ایران کا مغربی دروازہ ہے اور اسلامی جمہوریہ کا عرب خطے سے واحد علاقائی رابطہ ہے۔ دوسری طرف ایران کے پڑوسیوں میں سے عراق اور ایران ایک دوسرے کے تہذیبی تسلسل شمار ہوتے ہیں۔ "ہرات” سے "انبار” تک یہ کئی سالوں سے ایران اور عراق کا تہذیبی ڈومین رہا ہے۔ امریکہ اور انگلستان کی فوجی قوتوں کے عراق پر فوجی قبضے کے بعد جہاں ایران کو عراق کے مظلوم عوام کی حالت پر تشویش لاحق تھی، وہیں اسے مغرب کی طرف سے ایک حقیقی، شدید اور قریب آنے والے خطرے کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔ اسی لیے غیر ملکی قبضے کے خاتمے کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے ایران اپنی پوری طاقت سے میدان میں آگیا۔ اس دوران اسلامی جمہوریہ نے عراق اور ایران کے عوام کے درمیان تاریخی اور ثقافتی تعلقات پر بھروسہ کیا۔

اس بنا پر ایران نے ایک پیچیدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی پالیسیوں کو امریکہ اور انگلستان کو عراق سے نکالنے پر مرکوز کیا اور ان دونوں ممالک کے فوجیوں کو جو عراق پر کئی دہائیوں سے تسلط کے لیے آئے ہوئے تھے، جلد باہر نکل جانے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد 7 جولائی 2003ء کو پہلی عراقی حکومت نے اقتدار سنبھالا، جس کے ارکان کی اکثریت کے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور اس کے بعد آج تک یکے بعد دیگرے منتخب حکومتوں کے اسلامی جمہوریہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے اور وہ اسٹریٹجک سطح کے قریب رہے۔ جو کچھ کہا گیا ہے، اس کی بنیاد پر اور تقریباً 500 سال کی تاریخ کا جائزہ لینے اور مغربی حکومتوں کی پالیسی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عراق کی موجودہ صورتحال اسلامی جمہوریہ کے لیے سازگار ہے۔ ایک ایسے ملک کی جس کی ماضی کی پالیسی تنازعات اور ایران کی طاقت کے خاتمے پر مبنی تھی، اس کا ایران کے ساتھ بہترین تعلقات رکھنے والے ملک میں تبدیل ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

اس بنا پر رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عراق کے نئے وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی سے ملاقات میں فرمایا: عراق کی سلامتی کے بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اگر کوئی فریق عراق کی سلامتی میں خلل ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے تو ہم اس کے خلاف سینہ سپر رہیں گے اور عراق کی حفاظت کریں گے۔ عراق عرب خطے میں ایک خاص مقام رکھتا ہے، اس کی ثقافت اور تہذیب کی 7000 سال سے زیادہ کی تاریخ ہے اور کئی صدیوں سے اسلامی اور عرب دنیا میں اس کی ایک اسٹریٹجک سیاسی حیثیت رہی ہے۔ اسی وجہ سے اس کے عوام ایران کے لوگوں کی طرح ایک طاقتور تہذیب کی تعمیر میں خود کو حقدار و اہل سمجھتے ہیں۔ "تہذیبی تسلسل” کے عنصر کی بنیاد پر ایران یقینی طور پر عراق کے تہذیبی احیاء سے فائدہ اٹھائے گا اور اس کی مدد کرے گا اور عراق اور ایران کی تاریخی طاقت کو زندہ کرنے میں عراقیوں کی طرف سے اس تعاون کا یقیناً خیر مقدم کیا جائے گا، کیونکہ یہ عراق کے بھی مفاد میں ہے۔

عراق اور ایران توانائی کے لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ان دونوں ممالک کے امتزاج نے ایران اور عراق کو ایک خاص مقام دیا ہے۔ ان دونوں ممالک کو ان کے علاقائی ہم عصروں پر برتری حاصل ہے۔ ایران اور عراق کا کل تیل خلیج فارس کے باقی تمام ممالک کے کل تیل سے زیادہ ہے اور ایران خطے میں گیس کے معاملے میں پہلے نمبر پر ہے۔ لہٰذا دونوں ممالک کے تیل اور گیس کا مجموعہ تہران اور بغداد کو خطے کا ایک بہت بڑا کھلاڑی ہونے کا میدان فراہم کرتا ہے۔ مذہبی اور نسلی اعتبار سے شمالی عراق اور شمالی ایران کے درمیان، جنوبی عراق اور جنوبی ایران کے درمیان اور درحقیقت پورے ایران کے ساتھ ایک تسلسل ہے۔ عراق کو شیعہ آبادی کے لحاظ سے دوسرا شیعہ ملک سمجھا جاتا ہے، جس میں شیعہ اکثریت تقریباً 60 فیصد ہے۔ نسلی تعلقات کے لحاظ سے ایران اور عراق کے کرد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ایران کو "مادر وطن” تصور کیا جاتا ہے۔ سرحد کے اطراف میں یہ مذہبی اور نسلی توسیع ایران اور عراق کے درمیان جامع اسٹریٹجک تعلقات کے قیام کا باعث بن سکتی ہے۔

دوسرا پہلو عراق کی نوجوان آبادی ہے۔ عراق کی آبادی اس وقت تقریباً 40 ملین افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے 80 فیصد سے زیادہ نوجوان ہیں۔ جیسا کہ رہبر انقلاب نے نے اپنے مہمان، عراق کے وزیراعظم کو حالیہ دورے کے دوران ہونے والی میٹنگ میں یاد دلایا کہ عراق کے پاس ایک بہت بڑی نوجوان آبادی ہے، جو تہذیبی ترقی کا بہترین موقع ہے اور عراق مالی وسائل اور سہولتیں فراہم کرکے اس آبادی کو عراق کی بہتری کے لئے استعمال کرسکتا ہے اور ان کی زندگیوں میں تبدیلی لاسکتا ہے۔ مزید برآں، عراق کی کثیر جہتی صلاحیتیں اور دونوں ممالک کے درمیان وابستگی، ایران کی اقتصادی ترقی کی رفتار اور اس کے موجودہ اقتصادی مسائل کو حل کرنے میں بہت زیادہ معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب عراقی اور ایرانی جوانوں کا خون آپس میں ملا تو ایک بڑی عالمی سازش یعنی تکفیری دہشت گردی شکست پر مجبور ہوگئی۔ دشمن کے مقابلے میں مشترکہ خون کی قربانی دونوں ممالک کے معاشی اور سیاسی تعلقات کو ایک ممتاز اور مثالی مقام تک پہنچا سکتی ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …