جمعہ , 19 اپریل 2024

زوال پذیر امریکہ پر ایران اور عراق کا مشترکہ تھپڑ

(ترجمہ: فرحت حسین مہدوی)

عراقی وزیر ا‏عظم محمد شیاع السودانی چند روز قبل دورہ کویت کے بعد، تہران پہنچے۔ اس دورے کو جس نظر سے بھی دیکھا جائے، "اہم” ہے۔ علاقائی طور پر یہ دورہ ایران اور عراق دونوں کے لئے اہم کامیابی اور امریکہ سمیت علاقائی محور مقاومت (مزاحمتی محاذ) کے دشمنوں کے لئے تزویراتی شکست ہے۔ واضح رہے کہ السودانی یعنی "عراقی وزیر اعظم” ایک بنی بنائی مگر طویل اور گہرے بحران کے بطن سے – اسی بحران سے عبور کرنے کے لئے – باہر آئے ہیں۔ یہ بحران درحقیقت ایک بے سربراہ ریاست کی شکل میں ابھرا تھا، وہی بحران جس پر ایران اور عراق کے دشمنوں نے خصوصی سرمایہ کاری کی تھی، وہی بحران جو لبنان میں ابھی حل کا منتظر ہے اور اس ملک کو ایک فرسودہ کر دینے والے پیچیدہ عمل میں بدل گیا ہے۔ ایران کی سابقہ حکومت کے دوران میں بھی، صدر کو خود ہی منتخب کرنے والے اور بحرانوں سے مستفید ہونے والے افراد نے "بحران سازی” کے لئے صدر کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ ایران بھی ایک بے سر ریاست بن جائے۔ مختصر یہ کہ جناب السودانی کا دورہ ایران، ان بحران سازیوں پر عراق کی فتح کا عملی مظاہرہ تھا اور عراقیوں کی یہ فتح و کامیابی لبنانی قوم کے لئے فتح کی تمہید ہو سکتی ہے اور ان کو بھی اسی طرح کے بحران سے نکالنے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ کیونکہ بحران کا حال عراقی سیاسی صورت حال سے زیادہ پیچیدہ نہیں ہے۔

معاشی اعتبار سے بھی یہ دورہ بہت لائق اعتنا اور اہم ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے کچھ زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن جو کچھ ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آیا ہے، وہ خود لائق توجہ ہے۔ عراق نے ایران کے گیس اور بجلی کے سات ارب ڈالر کے بقایہ جات کا حساب بے باک کردیا ہے اور فریقین نے تجارتی تبادلوں کو 10 ارب ڈالر سالانہ سے 20 ارب ڈالر سالانہ، تک اضافہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، جو اہم معاشی نکات میں شمار ہوتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ عراقی وزیر اعظم کے دورے کا مقصد صرف یہی تھا، تو بھی یہ دورہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ صرف یہی اقتصادی کوششوں کو اگر عملی جامہ پہنایا جائے، تو یہ امریکہ اور اس کی پابندیوں پر ایک بڑا تھپڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔

عراقی پارلیمان نے دو سال قبل، امریکیوں کے ہاتھ جنرل قاسم سلیمانی اور الحاج مہدی المہندس کی شہادت کے بعد، عراق سے امریکیوں کے مکمل انخلاء کا قانون منظور کیا، اور اس قانون کا نفاذ اس انتخاب اور اس دورے کا ایک اہم ثمرہ ہو سکتا ہے۔ امریکہ جناب السودانی کے انتخاب سے بہت زیادہ غضبناک ہے، اور اس کے غیظ و غضب کا سب سے بڑا سبب، شاید نکتہ ہے! الکاظمی کی مشکوک حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد محمد الشیاع السودانی کی حکومت قائم ہوئی تو بائیڈن نے ایک جملے میں اپنے غصے کا اظہار کیا: "ہم السودانی کی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے”۔ عراقی پارلیمان نے امریکی انخلاء کا قانون بھاری اکثریت سے منظور کیا ہے جس کا نفاذ امریکہ سے "شدید انتقام” کا حصہ ہی ہوگا۔ اور امکان قریب بہ یقین ہے کہ اس دورے میں اس موضوع پر بھی بات چیت ہوئی ہوگی۔ ایران کا کہنا ہے کہ عین الاسد میں امریکی اڈوں پر ایرانی میزائلوں کی بارش امریکہ کے منہ پر صرف ایک طمانچہ تھا، اور علاقے سے امریکی انخلاء، دو عظیم شہیدوں "جنرل الحاج قاسم سلیمانی اور الحاج مہدی المہندس” کے خون کے بدلے کا ایک بڑا حصہ ہوگا، جو بہرحال لیا جائے گا۔ امریکہ افغانستان سے انتہائی خفت اور خواری و ذلت کے ساتھ، نکال باہر کیا گیا؛ چنانچہ عراق سے بھی امریکیوں کا ویسا ہی فرار، خطے میں امریکی موجودگی کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ شام میں بھی امریکیوں پر جو میزائل اور ڈرون حملے ہو رہے ہیں، جلدی یا بدیر امریکیوں کو شام سے بھاگ جانے پر مجبور کریں گے۔ تاکہ دو متوازی مقاصد بیک وقت حاصل ہوجائیں: "خطے سے امریکیوں کا مکمل انخلاء، اور محور مقاومت کی مکمل فتح”۔ سوال: مقاومت کی فتح کیوں؟ اس لئے کہ السودانی عراق کی عوامی رضاکار فوج "الحشد الشعبی” کے زبردست حامی ہیں۔

بلا شبہ اس دورے کے دوران ہونے والی بات چیت کا اہم پہلو فوجی امور اور سیکورٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس حقیقت کو علاقائی – بالخصوص عراقی ذرائع – کی رپورٹوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ محمد شیاع السودانی کے دورہ ایران سے پہلے بعض عراقی ذرائع اور مبصرین کہتے ہیں کہ "السودانی اعلیٰ حکام کا ایک وفد لے کر بعض سمجھوتوں اور مفاہمت کی بعض یادداشتوں پر دستخط کرنے کے لئے ایران کے دورے پر جا رہے ہیں حالانکہ بعض تجزیہ کار اس دورے میں، عراقی کردستان کے حالیہ واقعات نیز اس علاقے میں علیحدگی پسند کردوں کے ٹھکانوں پر ایران کے حملوں کے حوالے سے، اور عراق سے علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کی دراندازی روکنے کے لئے ایران اور عراق کی مشترکہ سرحدوں پر عراق کی سرکاری افواج کی تعیناتی کے مسئلے پر ہم آہنگی کو زیادہ نمایاں سمجھتے ہیں۔

محمد شیاع السودانی نے تہران میں رہبر انقلاب امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالیٰ) سے بھی ملاقات کی اور اس ملاقات میں بھی اسی نوعیت کے مسائل کو زیر بحث لایا گیا۔ چنانچہ یہ دورہ ان علیحدگی پسند دہشت گردوں کی قلع قمع کرنے کی طرف ایک بڑا قدم ہے جنہوں نے عراق میں گھونسلے بنا لئے ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ اب عراقی حکومت بھی ان موذی اور موقع پرستوں ٹولوں سے اسلحہ چھیننے اور سزا دینے میں ایران کا پورا پورا ساتھ دے گی۔

مذکورہ خونخوار اور مسلح دہشت گرد کی سرکوبی امریکہ اور یہودی ریاست کے منہ پر ایک زبردست طمانچے کی حیثیت رکھت ہے جنہوں نے ان کو پالا ہے، مسلح کیا ہے اور ان کی حمایت کر رہے ہیں۔۔۔ اگر عراقی وزیر اعظم کا دورہ اسی ایک حصولیابی پر منتج ہو جائے تو یہ بجائے خود امریکہ، اسرائیل اور ان کے عرب کٹھ پتلیوں کے منہ پر ایران اور عراق کا مشترکہ تھپڑ ثابت ہوگا۔ واضح رہے کہ عراقیبھی اسرائیل، امریکہ اور آل سعود کے حمایت یافتہ مسلح علیحدگی پسندوں سے مسلسل نقصان اٹھاتا رہا ہے، اور یہ جو ایران کے خلاف علیحدگی پسندی کی تحریک چلا رہے ہیں، عراق کے خلاف کی اسی طرح کی تحریک چلا رہے ہیں۔

یہ سب ایسے حال میں ہو رہا ہے کہ تمام شیطانی طاقتیں اور ان کے بے معنی پیروکار اسلامی جمہوریہ ایران اور محور مقاومت کے خلاف مختلف قسم کی سازشوں اور ہائی برڈ وارفیئر میں مصروف ہیں؛ اور ان کی سازشیں یکے بعد دیگرے ناکام ہو رہی ہیں، اور وزیر اعظم محمد شیاع السودانی کا دورہ ایران ان شیطانی سازشوں کی ناکامی پر مہر تصدیق ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: "وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ؛ انھوں نے مکر و فریب سے کام لیا اور اللہ نے اپنی ترکیب کی اور اللہ سب سے بہتر ترکیبیں کرنے والا ہے”۔ (آل عمران – 54)۔

ہمیں یقین ہے کہ کفر و شر کی قوتیں عیاں ہو کر سامنے آئی ہیں، اور آج دنیا کے بیدار مسلمان انہیں ہمیشہ سے بہتر پہچانتے اور ان کی مکاریوں کو بہتر سمجھتے ہیں، چنانچہ امت اسلام بہتر انداز سے اپنا تحفظ کرنے کی تدبیر کرے گی اور "خیر مطلق اور شر مطلق کے اس معرکے میں” اپنے اتحاد اور یکجہتی کا تحفظ کرے گی۔بشکریہ ابنا نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …