جمعرات , 25 اپریل 2024

کیا روس کے متعلق انڈیا کے خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں؟

(رجنیش کمار)

رواں سال 24 فروری کو جب روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین پر حملے کا حکم دیا تو انڈیا کے بارے میں بہت سی باتیں کہی جا رہی تھیں۔ کئی ماہرین کا خیال تھا کہ یوکرین کے بحران کی وجہ سے روس اور چین کی قربتیں بڑھیں گی جو انڈیا کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہوگا۔

یوکرین اور روس کے درمیان گزشتہ 300 سے زیادہ دنوں سے جنگ جاری ہے اور ماہرین کے مطابق روس چین دوستی ان دنوں ایک نئی سطح پر پہنچتی نظر آرہی ہے۔

جے این یو میں سینٹر فار رشیا اینڈ سینٹرل ایشیا سٹڈیز کے پروفیسر سنجے کمار پانڈے کہتے ہیں کہ انڈیا کا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ یوکرین کا بحران روس کو چین کے قریب لے جائے گا۔

پروفیسر پانڈے کا خیال ہے کہ یہ خدشہ بالکل درست ثابت ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کا روس پر بڑھتا انحصار اور روس میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری انڈیا کے لیے کسی بھی طرح اچھی نہیں ہے۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی 21 دسمبر کو اچانک امریکہ پہنچ گئے۔ زیلنسکی نے امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی اور امریکی کانگریس سے خطاب بھی کیا۔

اسی دن روس کے سابق صدر اور روسی سلامتی کونسل میں پوتن کے نائب دمتری میدویدف چین پہنچ گئے۔ میدویدف نے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ اس بار میدویدف پوتن کے ذاتی ایلچی کے طور پر گئے۔ چین کے سرکاری بیان کے مطابق میدویدف نے پوتن کا دستخط شدہ ایک خط بھی شی جن پنگ کے حوالے کیا۔

یوکرین کے بحران پر چین کا موقف روس مخالف نہیں ہے۔ چین شروع سے ہی دونوں ممالک سے مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کی اپیل کرتا رہا ہے۔ چین یہ بھی کہتا رہا ہے کہ روس کے سکیورٹی خدشات کا بھی خیال رکھا جائے۔

یوکرین کا بحران انڈیا کے لیے بھی ایک بحران
عالمی تھنک ٹینک کارنیگی انڈومنٹ کے سینیئر فیلو الیگزینڈر گابیو نے لکھا ہے کہ شی جن پنگ نے اب تک یوکرین پر روس کے حملے کے بارے میں صرف وہی باتیں کہی ہیں، جنھیں کہنے میں کوئی خطرہ نہیں ہے جیسے جوہری ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ ایسا ہی کہ کوئی کہے کہ ’آسمان نیلا ہے‘ اور ’گھاس سبز ہے‘۔

الیگزینڈر گابیو نے کہا ہے کہ ’روس کے معاملے میں چین ایک طویل عرصے سے انھی خطوط پر گامزن ہے کہ یوکرین جیسے حساس معاملات میں روس کو روکنا آسان نہیں ہے‘۔

چینی سفارت کار پوتن کی خارجہ پالیسی کو ایک طوفان کے طور پر دیکھتے ہیں۔ چین کو لگتا ہے کہ اس طوفان پر قابو نہیں پایا جا سکتا لیکن اس کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے اور بعض اوقات اسے مناسب موقعے پر استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

ان کے ٹیلی گرام چینل پر پوسٹ کی گئی میدویدف کے دورہ چین کی ویڈیو کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان بات چیت تجارت اور معیشت پر ہوئی۔ اس میں صنعتی تعاون کے بارے میں بھی بات ہوئی۔

دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دوستی ایک نئی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ چائنا جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمرز کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے 11 مہینوں یعنی 2022 میں روس اور چین کے درمیان باہمی تجارت 172.4 بلین ڈالر تک پہنچ گئی جو کہ اس سے قبل والے سال سے 32 فیصد زیادہ ہے۔

ان 11 مہینوں میں روس کی برآمدات 105.07 ارب ڈالر رہی اور اس میں 47.5 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس عرصے کے دوران چین کی روس کو برآمدات 67.33 ارب ڈالر رہی اور اس میں بھی 13.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

2021 میں دونوں ممالک کی باہمی تجارت 146.89 ارب ڈالر تھی اور یہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ تھا۔ 2014 میں چین اور روس کے درمیان دو طرفہ تجارت صرف 95.3 ارب ڈالر تھی۔

روس اور چین کے درمیان تجارت
روس سے چین کی کل درآمدات کا نصف تیل ہے۔ دوسری جانب روس الیکٹرانکس، نشریاتی آلات اور کمپیوٹرز کے لیے چین پر انحصار کرتا جا رہا ہے۔ چین روس کے آرکٹک زون میں تیل اور گیس سے متعلق منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔

جب امریکہ اور یورپی ممالک نے کریمیا کے کنٹرول پر مغربی فنڈز روکے تو چینی سرکاری کمپنیوں نے آرکٹک میں روس کے گیس منصوبوں کو دوبارہ پٹری پر لانے میں مدد کی۔ عالمی بینکاری نظام سوئفٹ (SWIFT) کے مطابق اس سال جولائی میں روس چینی سرزمین سے باہر یوآن میں ادائیگیوں کے لیے تیسری بڑی مارکیٹ بن کر ابھرا۔

امریکی کاروباری اخبار وال سٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’چین کی جانب سے روس سے تیل، گیس اور زرعی مصنوعات کی درآمد میں آنے والے وقتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔’ آرکٹک میں دونوں ممالک کے درمیان توانائی کی مشترکہ شراکت داری بڑھ رہی ہے اور روسی انفراسٹرکچر میں چینی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔

روسی ریلوے اور بندرگاہوں میں چینی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ روس اور چین اب تیزی سے اپنی کرنسیوں کی تجارت روبل اور یوآن میں کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک ڈالر اور یورو میں کم سے کم تجارت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس قدم سے دونوں ممالک کو مستقبل میں مغربی ممالک کی پابندیوں کو بے اثر کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ چینی کرنسی کی گردش کا دائرہ بھی بڑھے گا۔

سرحدوں کے پار شراکت داری
یوکرین پر حملے سے قبل دونوں ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا اور اپنی شراکت داری کو ‘کوئی سرحد نہیں’ کا نام دیا تھا۔ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک سٹیمسن سینٹر میں چائنا پروگرام کے ڈائریکٹر یون سن نے ڈبلیو ایس جے کو بتایا: ‘ہم وسیع پیمانے پر شی جن پنگ کے روس کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کو یوکرین میں روسی حملے سے نہیں جوڑ سکتے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایسی گرمجوشی کسی وقت بھی آ سکتی تھی۔’

چین کی وزارت خارجہ نے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ ’چین اور روس ایک دوسرے کے اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات عدم صف بندی، عدم تصادم اور کسی تیسرے فریق کو نقصان نہ پہنچانے کے اصولوں پر مبنی ہیں۔’

چین کے ساتھ گہرے تعلقات نے روس کو مغربی ممالک کی پابندیوں سے لڑنے میں مدد فراہم کی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر چین تعاون نہ کرتا تو پوتن اتنی دیر تک جنگ نہیں کر سکتے تھے۔

تجارت کے معاملے میں بہت سے ترقی پذیر ممالک کے چین پر بڑھتے ہوئے انحصار کی وجہ سے ایک قسم کی عالمی تقسیم بھی بڑھ گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کھل کر یہ کہنے سے گریز کر رہے ہیں کہ یوکرین پر روسی حملے میں کس کا ہاتھ ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ روس اور چین ایک عرصے سے پوری دنیا میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس ایجنڈے کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک بین الاقوامی نظام کو ایک نئی شکل دینا چاہتے ہیں۔

چین میں روس کے سفیر ایگور مورگلوف نے حال ہی میں صحافیوں کو بتایا کہ شی جن پنگ اگلے سال مارچ میں چین کے قانون ساز اجلاس کے بعد روس کا دورہ کر سکتے ہیں۔ اگر شی جن پنگ کا یہ دورہ ہوتا ہے تو یہ پوتن کے ساتھ ان کی 40ویں براہ راست بالمشافہ ملاقات ہوگی۔

لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے چین کو بھی سفارتی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ چین کو اب بھی مغربی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے دیگر غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ قریبی تعلقات ضروری ہیں۔

چین کا اصل ہدف امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننا ہے اور یہ صرف روس کے ساتھ اچھے تعلقات سے ممکن نہیں۔

شی جن پنگ کی روس سے محبت
شی جن پنگ کا روس کی طرف جھکاؤ ان کے خاندان اور پرورش سے بھی جڑا ہوا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل نے شی جن پنگ کی سوانح پر مبنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ‘1953 میں جب شی جن پنگ کی ولادت ہوئی تو اسی سال ماؤزئے تنگ نے سوویت یونین کو چین کے سیاسی، اقتصادی اور فوجی نظام کے لیے ایک ماڈل مان کر اس کے مطالعہ کے لیے ایک مہم شروع کرائی۔

شی جن پنگ کے والد شی چونک شن ایک انقلابی تھے اور ماؤ کی لڑائی سے وابستہ تھے۔ 1950 کی دہائی کے آخر میں شی چونگ شن بھاری صنعت کا مطالعہ کرنے کے لیے سوویت یونین گئے۔ ماؤ نے سوویت یونین کو پڑھنے اور سمجھنے کی جو مہم شروع کی اس کے اثرات نوجوان شی جن پنگ پر خاصے پڑے۔مؤرخین کے مطابق شی جن پنگ کے ذہن میں سوویت اقدار، تاریخ اور ثقافت جگہ بنا چکی تھی۔

1991 میں جب سوویت یونین ٹوٹ کر روس بنا اس وقت دونوں ممالک کے تعلقات مزید بہتر ہوئے۔ دونوں نے امریکہ کو ایک مدمقابل کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔

2013 میں شی جن پنگ نے صدر بننے کے بعد روس کا اپنا پہلا غیر ملکی دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران شی جن پنگ نے روس کے ساتھ چین کے خصوصی تعلقات کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کی شخصیت پوتن جیسی ہے۔ اس کے بعد سے دونوں رہنما ایک دوسرے کو ان کی سالگرہ پر مبارکباد دیتے رہے ہیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد شی جن پنگ نے چین کی قیادت کے ڈھانچے کو بھی اپنے مطابق تبدیل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے قیادت کے معاملے میں پوتن ماڈل کو اپنایا۔ اس کے تحت انھوں نے طاقتور پولٹ بیورو کو کمزور کیا اور خود کو مزید طاقتور بنایا۔

دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات 2014 کے بعد سے گہرے ہوئے ہیں، جب روس نے یوکرین سے کریمیا کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ چین نے اس وقت بھی روس کے خلاف مغربی پابندیوں کی مخالفت کی تھی۔

اس بار بھی جتنی بار امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے خلاف قراردادیں پیش کیں چین نے ان کی حمایت نہیں کی۔

کیا چین اور روس کی دوستی انڈیا کے لیے خطرہ ہے؟
کیا چین اور روس کے درمیان بڑھتی قربت انڈیا کے لیے خطرہ ہے؟ روس میں انڈیا کے سفیر اور اٹل بہاری واجپائی حکومت میں خارجہ سکریٹری کنول سبل کہتے ہیں کہ ’چین اور روس کی قربت ہندوستان کے خلاف نہیں بلکہ امریکہ کے خلاف ہے۔

‘مجھے نہیں لگتا کہ انڈیا کو ڈرنے کی کوئی بات ہے۔ چین اور روس دونوں ہی عالمی نظام کو امریکہ کے مطابق چلنے نہیں دینا چاہتے یا امریکی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ امریکہ نے روس کے خلاف پراکسی وار چھیڑ رکھا ہے اور چین پہلے ہی امریکی اجارہ داری کو چیلنج کر رہا ہے۔ ایسے میں دونوں ممالک کا امریکہ کے خلاف قریب آنا فطری امر ہے۔

کنول سبل کہتے ہیں: ‘چین دنیا کا سب سے بڑا برآمد کرنے والا ملک ہے۔ آنے والے وقت میں چین معاشی محاذ پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ ایسے میں اس کی توانائی کی بھوک بڑھ رہی ہے اور صرف روس ہی اس بھوک کو مٹا سکتا ہے۔ چین اور روس کی قربت کو اسی شکل میں دیکھا جانا چاہیے۔

‘مجھے نہیں لگتا کہ چین سے دوستی کی وجہ سے روس انڈیا کے خلاف جائے گا۔ اتنا ضرور ہے کہ آنے والا وقت انڈیا کے لیے مشکلات سے بھرا ہو گا۔

‘یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کو 300 سے زیادہ دن ہو چکے ہیں۔ کوئی نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ دونوں طرف سے ‘احمقانہ لڑائی’ جاری ہے۔ میرے خیال میں پوتن اور مغرب دونوں خود کو اس لڑائی میں پھنسا ہوا پا رہے ہیں۔’

اگرچہ کنول سبل کو لگتا ہے کہ انڈیا کو روس اور چین کی بڑھتی ہوئی قربتوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوکرین کے بحران کے بعد روس اور چین کے درمیان گہرے ہوتے تعلقات انڈیا کی قومی سلامتی کے لیے اچھے نہیں ہیں۔

واشنگٹن میں قائم بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں انڈیا پراجیکٹ کی ڈائریکٹر تنوی مدن کا خیال ہے کہ روس کا چین کا حد سے زیادہ مشکور ہونا انڈیا کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین ایل اے سی پر مسلسل جارحیت اختیار کر رہا ہے اور انڈیا فوجی سپلائی کے لیے روس پر انحصار کر رہا ہے۔

تنوی مدن نے رواں سال جنوری میں انڈین ایکسپریس میں لکھا تھا کہ ‘اگر روس کا چین پر انحصار بڑھتا رہا اور اس صورت حال میں چین بحران کے دوران روس سے انڈیا کو فوجی رسد روکنے کے لیے کہے گا، تو پھر کیا ہوگا؟’

1962 کی چین-انڈیا جنگ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ماؤزے تنگ کی ہندوستان کے خلاف جنگ میں سوویت یونین کی حمایت کتنی اہم تھی۔

رواں سال مارچ میں انڈیا کے جسٹس بلبیر بھنڈاری نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں یوکرین پر روسی حملے کے خلاف ووٹ دیا۔ یوکرین کا بحران انڈیا کے لیے کئی لحاظ سے مشکل ہے۔ اگر ایک جانب انڈیا پر مغربی ممالک کا روس کے خلاف آگے آنے کا دباؤ ہے تو دوسری جانب روس کے ساتھ پرانی شراکت داری کی وجہ سے اسے چھوڑنا آسان بھی نہیں۔’

انڈیا اور روس کے خدشات
بہت سے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ انڈیا اور روس کی دوستی کی طاقت اور اس کی وسعت کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا کسی تیسرے ملک سے کیا تعلق ہے۔ انڈیا کی ہمیشہ سے یہ تشویش رہی ہے کہ روس چین کے سٹریٹیجک عزائم کا مکمل طور پر حصہ نہ بن جائے، بصورت دیگر اس کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔

پاکستان کے ساتھ روس کی بڑھتی ہوئی فوجی شراکت داری بھی انڈیا کے لیے باعث تشویش ہے۔ دوسری طرف روس بھی انڈیا کی مغرب کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت سے بے چین ہے۔ مثال کے طور پر، روس نے امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل کواڈ میں انڈیا کی شمولیت کو کبھی پسند نہیں کیا۔

کواڈ کے بارے میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ مغرب کے ممالک انڈیا کو چین مخالف پیادہ بنانے میں مصروف ہیں۔ اس کے باوجود انڈیا اور روس کسی دوسرے دھڑے یا شراکت داری کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات کو پٹری سے اترنے نہیں دیتے۔

کنول سبل کا خیال ہے روس چین کے کہنے پر انڈیا کو فوجی سپلائی نہیں روکے گا۔ کارنیگی ماسکو تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر دمتری ٹرینن کہتے ہیں: ‘یہ ظاہر ہے کہ ہمارا پڑوسی چین، روس کی طرف سے انڈیا کو فوجی سپلائی کرنے سے خوش نہیں ہے۔

‘لیکن اپنی ناخوشی کا کھلے عام اظہار نہیں کرتا اور نہ ہی روس پر ایسا کوئی دباؤ ڈالتا ہے۔ چین جانتا ہے کہ روس پر اس قسم کا دباؤ کا الٹا اثر ہوسکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ اس قسم کا دباؤ ایک بار پیدا کریں لیکن یہ آخری بار ہوگا۔’

کنول سبل کا کہنا ہے کہ ‘انڈیا اور روس اپنے تعلقات کو کسی تیسرے ملک سے متاثر نہیں ہونے دیتے۔ ماضی میں دونوں ممالک نے ایسے مشکل حالات کا سامنا کیا ہے اور اس دوستی کو محفوظ رکھا ہے۔

‘ایسا نہیں ہے کہ انڈیا کو فوجی سپلائی کے حوالے سے روس کا موقف کبھی نہیں بدلے گا بلکہ چین اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے ایسا ہو گا، یہ کہنا بھی درست نہیں۔ دونوں ممالک اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کریں گے۔’

ہمیں اس بات کو بھی سرسری نہیں لینا چاہیے کہ انڈیا روسی برآمدات کے لیے ایک بہت بڑی منڈی ہے۔ 2017 اور 2021 کے درمیان روس کی کل ہتھیاروں کی برآمدات میں ہندوستان کا حصہ 27.9 فیصد تھا۔

انڈیا اب بھی روس کی برآمدات کے لیے ایک اہم مقام ہے۔ روس یہ بھی چاہتا ہے کہ مغربی ممالک کی پابندی کے بعد انڈیا خلیجی ممالک سے توانائی کی درآمدات کم کرے اور ان کے یہاں سے درآمد میں اضافہ کرے۔

یوکرین کے بحران کے دوران بھی ایسا ہی ہوا۔ اس سوال کا جواب اب زیادہ مشکل نہیں کہ روس انڈیا میں اپنے مفادات کے لیے کس حد تک جائے گا۔ 1962 میں چین کے حملے کے حوالے سے سوویت یونین کا موقف کسی سے پوشیدہ نہیں۔

اگرچہ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت کے سوویت رہنما نکیتا خروشیف چاہتے تھے کہ ماؤ حملہ کرنے کے بجائے انڈیا کے ساتھ معاہدہ کریں لیکن اسی دوران کیوبا کا میزائل بحران ہوا اور سوویت یونین کی ساری توجہ اس طرف چلی گئی۔

دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار سینٹرل ایشیا اینڈ رشین اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر راجن کمار کا کہنا ہے کہ نکیتا خروشیف کا موقف کشمیر کے بارے میں بہت واضح تھا اور انھوں نے کھل کر کہا کہ کشمیر انڈیا کا حصہ ہے لیکن انھوں نے اس میں چین کے بارے میں کبھی کھل کر بات نہیں کی۔

راجن کمار کا کہنا ہے کہ اگر کیوبا کا میزائل بحران نہ ہوا ہوتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی۔ان کا کہنا ہے کہ جس طرح روس چین کے کہنے پر انڈیا کو ہتھیاروں کی سپلائی نہیں روکے گا اسی طرح انڈیا کے کہنے پر روس بھی چین کے خلاف نہیں جائے گا۔بشکریہ بی بی سی

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …