ہفتہ , 20 اپریل 2024

روداد سیمینار: حرمت سود، عملی اقدامات

(تحریر: سید ثاقب اکبر)

جماعت اسلامی پاکستان کے زیراہتمام 26 دسمبر2022ء کو اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک قومی سیمینار منعقد کیا گیا، جس کا عنوان تھا ’’حرمت سود، عملی اقدامات۔‘‘ اس کی صدارت امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے کی۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نائب امیر جماعت اسلامی نے انجام دیے۔ مفتی ولی اللہ صاحب کی تلاوت سے سیمینار کا آغاز ہوا۔ افتتاحی کلمات جناب سراج الحق نے ادا کیے۔ انھوں نے حاضرین کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ ہم سب ایک عظیم مشترکہ مشن یعنی سودی نظام کے خاتمے اور قرآن کے معاشی نظام کے نفاذ کے لیے اکٹھے ہیں۔ ملک میں 75 سال سے سودی نظام نافذ ہے، لیکن اس نظام سے ملک معاشی لحاظ سے دن بدن کمزور ہوتاچلا گیا ہے۔

اس وقت حالات بہت خراب ہیں، سب کہہ رہے ہیں کہ معیشت بہت کمزور ہوچکی ہے۔ اس نظام معیشت کے ساتھ پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس حوالے سے 1848ء میں برطانوی دور سے جو ایکٹ نافذ ہوا، وہی آج تک نافذ ہے۔ حاضرین نے اس مسئلے میں جدوجہد کی ہے۔ اسی جدوجہد کے نتیجے میں آخرکار وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے کے لیے ایک تاریخی فیصلہ دیا، لیکن حکومت نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ شاید حکومت وقت گزار رہی ہے۔ ابھی بھی سپریم کورٹ میں بینکوں کی طرف سے اپیلیں موجود ہیں۔ ہم نے پارلیمنٹ میں سود کے خاتمے کے حوالے سے جو بل پیش کیا تھا، وہ پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں اتفاق رائے سے منظور ہوا ہے۔ آج جو اقدامات تجویز کیے جائیں گے، ہم انھیں آگے بڑھائیں گے۔

سیمینار میں امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ بھی موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر اس سلسلے میں جدوجہد کی ہے، لہٰذا آج کے سیمینار میں ہم بھی میزبان ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سود کے خاتمے اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے عوامی پریشر بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے دینی جماعتوں کو مزید کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اپیلیں ابھی تک سپریم کورٹ میں باقی ہیں، انھیں واپس لینے کی ضرورت ہے۔ تاجر راہنما مسرت اعجاز خان نے اس موقع پر کہا کہ زمین کے کرائے کے نام پر پراپرٹی بلڈرز کے ہاتھوں لوگ لٹ رہے ہیں، کرائے کے نام پر یہ سود لیا جاتا ہے، اس سودی نظام کے خاتمے کے لیے آپ جو بھی قدم اٹھائیں گے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

تاجر راہنما ظفر بختاوری نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جو اعلان کیا ہے کہ وہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کریں گے، درست نہیں ہے۔ اس اعلان پر عمل نہیں ہوگا۔ دنیا کا ایک مخصوص اقتصادی نظام ہے، ہم اس کا ایک پرزہ ہیں۔ ہمیں پہلے خود کفالت تک پہنچنا ہے۔ پہلے قدم کے طور پر ملک غیر ملکی قرضے نہ لینے کا فیصلہ کرے۔ ورنہ معیشت دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ لوگ دیوالیہ ہونے سے ڈراتے ہیں، لیکن ہم دیوالیہ ہو بھی گئے تو کیا ہوگا۔ اگر اس طرح ہم عالمی معاشی نظام سے نکل سکتے ہیں تو پھر کیا ہے۔؟ دنیا میں اس وقت اٹھائیس ایسے ممالک ہیں، جو دیوالیہ ہیں۔ انھوں نے ہمیں آئی سی یو پر رکھا ہوا ہے۔ ہم نے انقلابی فیصلے نہ کیے تو ہم گویا ملکی سالمیت کو دائو پر لگا رہے ہیں، اس پر ہمیں سوچنا ہوگا۔

مولانا زاہد الراشدی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عالمی معاشی نظام کے چنگل سے نجات حاصل کرنا چاہیے۔ آج اس موضوع پر تمام مذہبی جماعتیں اور تمام مسالک اکٹھے ہیں۔ پہلے بھی جب ہم اکٹھے ہوئے تو مقتدر قوتوں کو ہماری بات ماننا پڑی۔ آج تاجر اور تمام مسالک متفق ہیں۔ تحریک نظام مصطفیٰ اور تحریک ختم نبوت ماضی میں ہمارے اتحاد کی مثالیں ہیں، جو نتیجہ بخش ثابت ہوا، آج بھی ویسی ہی تحریک برپا کرنا ہوگی۔ اسلامی نظام معیشت کے ماہر ڈاکٹر ایوب نے علمی اعتبار سے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وفاقی شرعی عدالت کے حرمتِ سود کے فیصلے کے خلاف تمام اپیلیں واپس لینے کے لیے اقدام کرے۔ انھوں نے کہا کہ ربا کے ساتھ سود کے حرام ہونے کی شق آئین میں شامل کی جانا چاہیے۔

پروفیسر ڈاکٹر طاہر منصوری نے سیمینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم مالیاتی نظام کی بات کر رہے ہیں، معاشی نظام کی نہیں۔ اس طرح سٹہ بازی اور جوئے پر ہم بات نہیں کر رہے۔ ظلم و استحصال کا خاتمہ ہماری منزل ہونی چاہیے۔ اس کے لیے قانونی اصلاحات ضروری ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی بینکنگ کے بجائے ہمیں غیر سودی بینکاری کی اصطلاح استعمال کرنا چاہیے۔ سوڈان اور ملائیشیا وغیرہ میں یہ قوانین موجود ہیں۔ اسلامی بینکنگ دیگر کمرشل بینکوں سے زیادہ استحصالی ہے۔ لہٰذا غیر سودی بینکاری کا نظام متعارف کروانا چاہیے۔ حافظ عاطف وحید نے اس موقع پر کہا کہ یہ درست ہے کہ معاشی نظام کے دیگر پہلو بھی اہم ہیں، لیکن قرآن حکیم میں ربا کے بارے میں جو تعبیرات آئی ہیں، وہ بہت سخت ہیں۔ مسائل بہت سے ہیں، ہمیں ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔

ڈاکٹر عتیق ظفر کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتوں کی طرف سے اپیل میں جانے والے بینکوں سے اکائونٹس ختم کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ اس کا بھی کچھ نہ کچھ اثر ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی بینکوں سے شکایات ہیں، لیکن اس کی وجہ دوہرا معاشی نظام ہے۔ بعض اوقات کمپیٹیشن کی وجہ سے اسلامی بینکوں کو کچھ فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ میاں محمد اکرم نے کہا کہ بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ سود کا نظام ختم کر دیا جائے تو ہمارے پاس متبادل کیا ہے، متبادل اللہ نے بیع کو قرار دیا ہے۔ قرآن میں ہے: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ انھوں نے تجویز پیش کی کہ اسلامی معاشی مشاورتی بورڈ بنایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری قانونی کمیٹی سود کے بارے میں تمام قوانین کا جائزہ لے اور ان کی نشاندہی کرے۔

سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان انور مقصود خان بھی سیمینار میں شریک ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ یہ مشکل سبجیکٹ ہے، اس کا حل آسان نہیں۔ نظام تعلیم ہمیں پیسہ کمانے کی طرف لے جا رہا ہے۔ نارمل مانیٹرنگ سسٹم پیسے کو ڈیل کرتا ہے۔ پیسہ اور کموڈیٹی میں فرق ہے۔ پیسے سے خرید و فروخت ہوتی ہے، کموڈیٹی سے نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اہم سوال یہ ہے کہ قرض پر کیا آپ کاروبار کرسکتے ہیں؟ کیا اس سسٹم پر بینکاری کی جاسکتی ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس فیصل اسلامی بینک والے آئے تھے، انھوں نے کہا کہ ہم موجودہ سسٹم کو اسلامی بینکنگ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے یہ کام ڈیڑھ سال میں مکمل کر لیا۔ انھوں نے مشارکہ سے کام شروع کیا پھر اجارہ پر کام شروع کیا اور اس طرح آہستہ آہستہ سارا نظام اسلامی بینکنگ پر منتقل کر دیا۔

خورشید ندیم کی بات باقی سب سے جدا اور مختلف تھی۔ انھوں نے کہا کہ سود کے باب میں ایک عام آدمی احساس گناہ میں مبتلا ہے۔ اس سے نکالنے کے لیے مفتی تقی عثمانی بینکوں کی ایڈوائزری قبول کر لیتے ہیں، جبکہ عام آدمی بینک سے پچاس ساٹھ ہزار نہیں لے سکتا۔ ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ مفتی تقی عثمانی ایڈوائزری کی مد میں بڑی رقوم بینکوں سے حاصل کر لیتے ہیں، لیکن عام آدمی حرمت کے فتووں کی وجہ سے بینکوں کی پچاس ساٹھ ہزار کی نوکری بھی نہیں کرسکتا۔ انھوں نے کہا کہ جب تک پورا نظام نہ بدلے، صرف سودی اور غیر سودی کی بحث کا کیا فائدہ۔ رکن قومی اسلامی مولانا عبدالاکبر چترالی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو قومی اسمبلی میں سراہا گیا اور مبارکباد پیش کی گئی۔ مولانا فضل الرحمان کے دبائو پر دو بینکوں نے اپیلیں واپس لیں۔ میں نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا ہے، جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ آئین میں 29 مقامات پر سود کو تحفظ دیا گیا ہے۔

پروفیسر محمد ابراہیم خان نائب امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ حکومت اگر چاہے تو اپیلوں کے باوجود وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل کرسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر بابر اعوان نے اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل آئین کے خلاف ہے۔ اصولی طور پر ان اپیلوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے اختتامی کلمات کہے۔ انھوں نے کہا کہ سودی نظام کی تباہ کاریوں کے خلاف یورپی اور امریکی عوام بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کا اجلاس جہاں ہو رہا تھا، اس عمارت کے باہر لوگوں نے گوبر کے ڈھیر بنائے، جو اس طرف اشارہ تھا کہ دنیا کا موجودہ معاشی نظام اس گوبر کے ڈھیر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک میں دو اقتصادی نظام نہیں چل سکتے۔ سودی نظام پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کے 99 فیصد عوام یہی چاہتے ہیں کہ سودی نظام کا خاتمہ ہو۔ آج سب کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل کرے۔ آئندہ بجٹ سود فری بجٹ ہو۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو ویلکم کیا تھا، لیکن فیصلے کے بعد سٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود میں اضافہ ناقابل فہم ہے۔ آج کی مجلس کا مطالبہ ہے کہ سٹیٹ بینک کو اس ملک کا بینک بنایا جائے۔ اسے جوابدہ ہونا چاہیے، اسے چاہیے کہ یہ فیصلہ کرے کہ ملک میں مزید سودی برانچیں قائم نہیں کی جائیں گی۔ بینکوں کے لیے سودی نظام کی ایک مدت مقرر کی جائے، جو بینک اس پر عمل نہ کرے، اس کا لائسنس منسوخ کیا جائے۔ حکومت مخلص ہے تو زرعی اور نجی قرضوں پر سود ختم کرے، اس سے برکت آئے گی۔ اسمبلی میں چترالی صاحب کا اور سینیٹ میں مشتاق صاحب کا بل منظور کیا جائے۔ اسلامی بانڈز کے علاوہ باقی بانڈز منسوخ کیے جائیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ حکومتوں نے جو قرض لیے ہیں، وہ کہاں خرچ ہوئے، کیونکہ عوام سمجھتے ہیں کہ یہ پیسہ ان پر خرچ نہیں کیا گیا۔ جنھوں نے یہ قرض لے کر اسے عوام پر استعمال نہیں کیا، ان کا مال ضبط کیا جائے۔ 1931ء میں علامہ اقبال نے سودی نظام کے بارے میں کہا تھا:
این بنوک این فکر چالاک یہود
نور حق از سینۂ آدم ربود
تا تہ و بالا نگردد این نظام
دانش و تہذیب و دین، سودای خام

جناب سراج الحق نے کہا کہ اسی سال کے خاتمے سے پہلے حکومت سود کے خاتمے کے لیے عوام کے سامنے اپنا لائحہ عمل رکھے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کو ختم کرے، ورنہ ہم سپریم کورٹ کے سامنے اور چوکوں اور چوراہوں میں نکلیں گے، جس کا ہمیں پاکستان کے آئین اور قانون نے حق دیا ہے۔ ہم سودی نظام کے خلاف تحریک برپا کریں گے۔ راقم نے بھی اس دوران میں مختصر گفتگو کی۔ راقم نے عرض کیا کہ عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے اور انھیں بتانا چاہیے کہ سودی نظام کس طرح سے ان کے لیے ظالمانہ ہے اور اسلامی نظام ان کے لیے کیا بہتری لے کر آئے گا۔ پاکستان کے اوپر اس وقت جو عالمی قرضے ہیں، ان کا اصل زر ہم سود کے عنوان سے واپس کرچکے ہیں۔ یہ استعماری اور سامراجی قرضے ہیں، انھیں ضبط کیا جانا چاہیے۔ اس استعماری نظام کے خلاف تو امریکی عوام بھی بلبلا اٹھے ہیں۔ یورپی عوام نے بھی اس کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ یہ بے رحم سرمایہ داری نظام ہے، سود جس کا ناگزیر حصہ ہے۔ ہمیں اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ بھی ہم آہنگی قائم رکھنا چاہیے اور اس کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل کے لیے ایک سیشن کا اہتمام کرنا چاہیے۔

مجموعی طور پر یہ ایک مفید، معلوماتی اور فقر انگیز محفل تھی۔ موضوع پر وسیع تجربہ رکھنے والے اور وسعت مطالعہ کے حامل افراد اس سیمینار میں شریک تھے۔زندگی کے مختلف شعبوں کے افراد نے اس میں کھل کر اظہار خیال کیا۔ یہ بات بڑے واضح انداز سے کہی گئی کہ عوام کو متحرک کیے بغیر ہم اس سودی نظام سے گلو خلاصی نہیں پا سکتے۔ اس پر بھی ایک عمومی اتفاق رائے تھا کہ حکومت پر دبائو تو ضرور برقرار رکھنا چاہیے، لیکن حکومت کی نیت اس سلسلے میں خیر پر مبنی نہیں ہے۔ اہل نظر یہ بھی سمجھتے تھے کہ جن لوگوں کے اپنے مفادات اس سودی نظام سے وابستہ ہیں، یہی لوگ عالمی اقتصادی نظام کے آلہ کار ہیں، ان سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

محفل میں کچھ دیر کے لیے معروف قانون دان ڈاکٹر بابر اعوان بھی شریک رہے، لیکن شاید کسی اہم مصروفیت کی وجہ سے انھیں واپس جانا پڑا۔ جناب ڈاکٹر فرید پراچہ نے نظامت کے مشکل فرائض خوبصورتی سے ادا کیے۔ نماز کے بعد ہائی ٹی کا انتظام تھا، جس میں بہت سے شرفاء کو ہنگامۂ ہا ئو ہو کا حیرت کی نگاہوں سے نظارہ کرتے ہوئے دیکھا گیا اور بعض جیالوں کے دونوں ہاتھوں میں ایسی بھری ہوئی سود مند پلیٹیں تھیں، جو چھلک رہی تھیں، بہرحال سودی نظام کے خاتمے کی آرزو سب میں موجود تھی۔ جیالوں کو علامہ اقبال کی یہ نصیحت یاد تھی:
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …