منگل , 23 اپریل 2024

بلاول کے عمران خان پر وار۔۔۔

(نسیم شاہد)

اِس بار بلاول بھٹو زرداری شہید بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر باقی سب کچھ بھول گئے اور صرف عمران خان کو یاد رکھا،اُن کی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف تھا وہ عمران خان کو پارلیمینٹ میں واپسی کا اَیسے کہہ رہے تھے جیسے کسی نا خلف اور گھر سے بھاگے ہوئے بچے کو واپسی کا کہہ رہے ہوں۔اِس قسم کی ڈکٹیشن کا اختیار اُنہیں کس نے دیا؟ عمران خان اپنے سیاسی فیصلے کرنے میں آزاد ہیں، آپ اُنہیں قائل کریں، تجاویز دیں مگر دھمکی نہ دیں کہ سیاست میں اَیسا کہاں ہوتا ہے، پھر یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کس حیثیت میں ایسی باتیں کر رہے ہیں؟ وہ ملک کے وزیر خارجہ ضرور ہیں تاہم چیف ایگزیکٹو نہیں۔وہ ایک حکومت میں شامل ایک اتحادی جماعت کے چیئرمین ہیں مگر چیئرمین نیب نہیں جو یہ کہیں کہ ابھی تو ہم نے آپ کے خلاف نیب کو استعمال نہیں کیا جیسا کہ آپ (عمران خان ) کرتے رہے ہیں۔شہید بےنظیر بھٹو کی برسی کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال کرنا میرے نزدیک اُن کے ساتھ زیادتی ہے۔ بلاول بھٹو نے جو لب و لہجہ اختیار کیا ہوا ہے وہ کبھی بھی بے نظیر بھٹو کا لہجہ نہیں رہا۔ وہ انتقامی سیاست کے سخت خلاف تھیں اور ایسی بات بھی زبان پر نہیں لاتی تھیں جس سے انتقام کا شائبہ بھی اُبھرتا ہو۔ اِدھر بلاول بھٹو ہیں کہ کھلم کھلا دھمکیاں دے رہے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے لیڈر کو جو اس وقت ملک کا مقبول ترین رہنما ہے۔ ایسی دھمکیوں سے بلاول بھٹو شاید اپنے جیالوں کا لہو گرمانا چاہتے ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسی باتوں سے اُن کے بارے میں ایک منفی تاثر اُبھرتا ہے۔ سیاست میں بردباری اور تحمل بڑی اچھی صفات ہیں یہ دونوں اُن کی والدہ میں موجود تھیں اُنہیں بھول کر وہ جس راہ پر چل نکلے ہیں وہ اُن کی شخصیت کو غیر سنجیدہ بنا رہی ہے جبکہ اُن کی جماعت یہ پراپیگنڈہ کرتے نہیں تھکتی کہ بلاول بھٹو زرداری مستقبل کے وزیراعظم ہیں۔وزیراعظم کا امیج اگر یہ بن جائے کہ وہ سیاست کو بھی ڈکٹیشن دینے کا عمل سمجھتا ہے تو پھر سیاسی رواداری ایک خواب بن جاتی ہے۔.

اب سوال یہ ہے کہ بلاول بھٹو نے اِس بار برسی کی تقریب میں عمران خان کو نشانے پر کیوں لیا ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے اِس وقت ایک عمران خان ہی تو ہیں جو وفاقی حکومت میں بیٹھے ہوئے ہر شخص کے حواس پر سوار ہو چکے ہیں۔ویسے بھی اِس وقت بلاول بھٹو زرداری ایک ایسے اتحاد کا حصہ ہیں جس میں مسلم لیگ(ن) سمیت ملک کی تمام جماعتیں شامل ہیں۔ظاہر ہے ماضی میں مسلم لیگ (ن) کے بارے میں بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر وہ جو کچھ کہتے رہے ہیں،اب نہیں کہہ سکتے۔ ابھی کل ہی چودھری اعتزاز احسن کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر وہ جو کچھ کہتے رہے ہیں، آپ نہیں کہہ سکتے۔ ابھی کل ہی چودھری اعتزز احسن کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مفاہمانہ پالیسی پیپلزپارٹی کو بہت مہنگی پڑے گی،2018ءکے انتخابات میں تو پنجاب سے پیپلزپارٹی کو چھ نشستیں مل گئی تھیں اگر مسلم لیگ (ن) سے اتحاد جاری رہا تو اِس بار وہ بھی نہیں ملیں گی۔ اعتزاز احسن چونکہ لگی لپٹی رکھے بغیر بات کر جاتے ہیں اِس لئے اُنہوں نے موجودہ سیاسی حالات کا درست نقشہ کھینچا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ اِس وقت عمران خان کا خوف پوری طرح حاوی ہے اور کوئی سیاسی جماعت بھی ایسی نہیں جو اُن کا مقبولیت میں مقابلہ کر سکے ۔اتحادی جماعتوں کا ہر قسم کے انتخابات سے گریز بھی اِسی لئے ہے کہ اُنہیں اپنی شکست کا خوف ہے۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات بھی اِسی لئے نہیں ہونے دیئے جا رہے کہ شکست سامنے نظر آ رہی ہے۔ اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات جو 31 دسمبر کو ہونے تھے۔اِسی لئے ملتوی کرائے گئے کہ تحریک انصاف کے امیدواروں نے جیت جانا تھا۔ عمران خان کے فوری انتخابات کے مطالبے کو بھی اِس لئے نہیں مانا جا رہا کہ عوام کا موڈ بدلا ہوا ہے۔اِن ساری باتوں کے علاوہ ایک اور بات جو عمران خان پر بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی غصے کا باعث بنی ہوئی ہے وہ اُن کا بار بار یہ کہنا ہے کہ سندھ کو آصف علی زرداری کے قبضے سے چھڑائیں گے، سندھی عوام کو آزاد کرائیں گے۔ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ اِس بار اپنی الیکشن مہم زیادہ تر سندھ میں بیٹھ کر چلائیں گے اور سندھ کے عوام کو پیپلز پارٹی کے چنگل سے نکال کر ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند کریں گے۔

بہتر ہوتا کہ بلاول بھٹو شہید بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر سندھ کے عوام کو یہ بتاتے کہ اُنہوں نے محترمہ کے افکار اور روایات کی روشنی میں سندھ کے لوگوں کی ترقی و خوشحالی کے لئے کیا قدم اٹھایا ہے؟ سندھ میں گزشتہ نو سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت چلی آ رہی ہے، اربوں روپے کے خرچ ہونے سے کچھ تو تبدیلی نظر آنی چاہئے؟اندرون سندھ کا حال تو ہے ہی بُرا، لیکن کراچی، حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ، شکار پور کی حالت بھی سب کے سامنے ہے۔ کراچی جیسا ملک کا سب سے بڑا شہر مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔پاکستانی سیاست کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ اِس میں اپنے گریبان کو بھول کر مخالف کے گریبان کو پھاڑنے کی روایت جاری رہی ہے۔ بلاول بھٹو عمران خان کو تعمیری سیاست کا مشورہ نہیں بلکہ ہدایت دے رہے ہیں حالانکہ اِس کی بجائے اُنہیں عوام کی مشکلات کو کم کرنے پر توجہ دینی چاہئے کہ وہ اِس وقت ایک بڑی جماعت کی صورت میں حکومت کے اتحادی ہیں اور اُن کے پاس سندھ کی حکومت بھی ہے۔ ایسی جذباتی باتوں کا کیا فائدہ کہ عمران خان کے خلاف سازش وائٹ ہاﺅس میں نہیں بلاول ہاﺅس میں ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ اِس ملک میں کیا ہوتا ہے اور کہاں ہوتا ہے؟ شاید بلاول نے عمران خان کے اس بیانئے کا جواب دینے کی کوشش کی ہے جو وہ اپنی حکومت کے خاتمے میں امریکہ اور اب جنرل (ر) باجوہ کے کردار کے حوالے سے اختیار کئے ہوئے ہیں۔ایک منتخب جمہوری حکومت کو نکالنے کے لئے سازش کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے انہیں کہنا تویہ چاہئے تھا کہ عمران خان کے خلاف امریکہ نے سازش نہیں کی بلکہ انہیں سیاسی طور پر آئینی عمل کے ذریعے حکومت سے نکالا گیا۔

اِس وقت سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو کوئی بھی جلتی پر پانی ڈالنے کو تیار نہیں، عمران خان اگرچہ زمان پارک تک محدود ہو گئے ہیں مگر اِس کے باوجود وہ سیاسی طور پر پورے منظر پر چھائے ہوئے ہیں۔ اُنہیں ایک تو اُن کے ساتھیوں نے زندہ رکھا ہوا ہے اور دوسرا خود حکومتی اتحادی جماعتوں کے لیڈروں نے صبح و شام اُن کے نام کی گردان کر کے ان کا ایک ایسا ہوا کھڑا کر دیا ہے جیسے وہ حکومت کو چلنے نہیں دے رہے جبکہ ضرورت اِس وقت مفاہمت کی ہے۔ جب بلاول بھٹو زرداری جیسے نوجوان رہنما بھی اِسی لہر میں بہہ جائیں گے تو صورتِ حال میں بہتری کیسے آئے گی؟ بے نظیر بھٹو کی برسی پر بلاول بھٹو نے اگرچہ عمران خان کو اسمبلی میں واپس آنے کا کہا ہے مگر انداز ایسا ہے جیسے انہیں حکم دے رہے ہوں کہ ایسا نہ کیا تو آخری بار یہ موقع دیا جا رہا ہے وگرنہ پھر نتائج بھگتنا ہوں گے:

” ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسمان کیوں ہو“

بلاول بھٹو زرداری نے وہ حالات نہیں دیکھے جو شہید بے نظیر بھٹو نے دیکھئے تھے۔ اُنہوں نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کا مقدمہ بھگتتے، پھر پھانسی چڑھتے دیکھا تھا، خود قید و بند میں رہی تھیں۔ اِن سب باتوں نے اُن کے اندر ایک بردباری اور سیاسی بلوغت پیدا کر دی تھی جبکہ بلاول بھٹو کو چھوٹی عمر میں پارٹی کی چیئرمین شپ سونپ مل گئی جس سے پارٹی کے بڑے بڑے جغادری لیڈر بھی اُن کے تابع فرمان ہو گئے۔ آج وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں جو ملک کے لئے فائدہ مند نہیں نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں،اُنہیں مفاہمت کی سیاست کو اپنانا چاہئے۔ عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے وہ اگر سیاسی ایشوز تک محدود رہیں تو اِس سے اُن کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوگا لیکن اگر وہ مولا جٹ کی طرح بڑھکیں ماریں گے تو اِس سے اُن کے سیاسی امیج کو فائدہ نہیں نقصان ہی پہنچے گا۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …