جمعرات , 18 اپریل 2024

نیتن یاہو کی مذہبی صیہونیوں کے ساتھ واپسی

(تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس)

اسرائیل میں مسلسل سیاسی تنزل جاری ہے، بار بار کے ہونے والے نام نہاد انتخابات نے منقسم معاشرے کی نشاندہی کی ہے۔ اسرائیلی ریاست سے سیکولرزم کا نقاب اتر رہا ہے اور بڑی تیزی سے پہلے یہودی ریاست بنی اور صیہونی ریاست بننے کی جانب گامزن ہے۔ نیتن یاہو نے بڑی چالاکی سے پرتشدد اور انتہاء پسند صیہونی گروہ سے انتخابی اتحاد قائم کیا، جس کے نتیجے میں اسے انتخابات میں کامیابی ملی اور ایک سو بیس میں سے چونسٹھ نشستیں یہ اتحاد جیت گیا۔ اس اتحاد کا جیتنا فلسطینیوں کے لیے خیر کی خبر نہیں ہے۔ اب مشرق وسطیٰ میں پھر سے بڑے پیمانے پر خون بہایا جائے گا۔ نیتن یاہو چھ بار اسرائیل کے وزیراعظم بنے اور ان کے ہر دور میں فلسطینیوں کا قتل عام ہوا اور اس نے اپنی نااہلیوں کو چھپانے کے لیے فلسطینوں پر شب خون مارا۔

نیتن یاہو کا اتحادی مذہبی گروپ، جس کا نام مذہبی صیہونیت ہے، وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ اس گروپ کا انتخابی نعرہ عرب مردہ باد تھا۔ سات دہائیوں میں پہلی حکومت ہے، جو الٹرا آرتھوڈیکس یہودیوں کی حکومت ہوگی، جنہیں انتہائی بائیں بازو کی حامل قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا نظریہ صیہونی بالا دستی کا ہے۔ یہ ایک نسل پرست جماعت ہے، جس کے مرکزی دفتر میں الخلیل قتل عام کے ذمہ دار کی تصویر لگائے رکھی۔ یہ تشدد کے ذریعے فلسطینیوں کو کچلنے کے حامی ہیں اور موجودہ حکومت میں داخلہ اور قومی سلامتی کی وزارتیں اسی گروہ کے پاس ہیں۔

اسرائیل کے اندر پہلے سے اس قسم کی صورتحال کو محسوس کیا جا رہا تھا۔اسرائیل کے اخبار نے چند دن پہلے اپنے اداریئے میں لکھا تھا کہ اسرائیل اب دائیں بازو، مذہبی اور آمرانہ انقلاب کے قریب پہنچ رہا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ صیہونیت کو یہودیت کا لبادہ پہنا کر مذہب کا تڑکا لگایا گیا ہے۔ یہ یہودیت کا تڑکا اضافی ہی ہے، ورنہ فلاش مورا یہودی قبیلہ ہے، اسے نام نہاد اسرائیل واپسی کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ سیاہ فام ہیں اور ان کی اکثریت ایتھوپیا اور نائجیریا میں رہتی ہے۔ اسرائیلی وزارت داخلہ انہیں یہودی تسلیم ہی نہیں کرتی اور ان کے اسرائیل داخلے پر پابندی ہے۔

یہودیت چار ہزار سال پرانا مذہب ہے، جو اپنا تعلق حضرت ابراہیمؑ سے جوڑتے ہیں، جبکہ صیہونیت ایک سو چھبیس سال پہلے کالونیل دور کی پیدا وار ہے، یہ کوئی مذہبی نظریہ نہیں ہے بلکہ استعماریت پر مبنی انتہاء پسند سیاسی فکر ہے، جسے اس وقت برطانوی اور اب امریکی استعمار کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ صرف صہیونیوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، کیونکہ آرتھوڈوکس یہودیوں کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جاتا ہے۔ ابھی ایم پی این نیوز ایجنسی کے پیج پر ویڈیو آئی ہے کہ اسرائیلی فورسز بری طرح سے اس گروپ کی عبادت گاہ میں موجود ربائیوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ عبادت گاہ کا سامان بکھرا ہوا ہے اور بزرگ ربائی پولیس سے بحث کر رہے ہیں اور جواباً پولیس تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔

وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس بات کا عزم کیا ہے کہ وہ منظم اسرائیلی تسلط اور جبر سے پورا مغربی کنارہ اسرائیل کا حصہ بنائیں گے، حالانکہ یہ قبضے کے بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ علاقہ ہے۔ اسی طرح مشرقی بیت المقدس بھی مقبوضہ علاقہ ہے، مگر اسے بھی جبر اور امریکی آشیرباد سے اسرائیل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ نیتن یاہو کہہ رہے ہیں کہ ساری اسرائیلی سرزمین ان کی ہے تو وہ زمین ہے کہاں پر؟ اس کا حدود اربعہ کیا ہے؟ کیونکہ صیہونی تو ترکی، شام، لبنان، عراق، اردن اور مصر بھی اسرائیلی زمین قرار دیتے ہیں۔

نیتن یاہو کے خلاف پہلے بھی فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کی ایک تاریخ ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے 2014ء میں ہوئے جنگی جرائم کی تحقیقات کی باقاعدہ منظوری دی، جس میں فلسطینیوں کا اسرائیلی فورسز کی طرف سے منظم قتل عام کیا گیا۔ جب تک امریکہ بہادر موجود ہے، اس وقت تک کیا ہونا ہے، مگر پھر بھی بین الاقوامی طور پر بھی یہ سمجھا گیا کہ نیتن یاہو جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ اسرائیلی حملے پہلے بھی پوری شدت سے اہل فلسطین پر جاری ہیں اور ہر ماہ نئی حکمت عملی سے فلسطینیوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یہ سال 2005ء کے بعد فلسطینیوں کے لیے سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوگا۔ اس میں 2005ء کے بعد سب سے زیادہ فلسطینی شہید کیے گئے اور ان میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔

2019ء سے نیتن یاہو کے خلاف اسرائیل میں کرپشن کے الزامات چل رہے ہیں اور بڑے پیمانے پر تحقیقات ہو رہی تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ کہا جا رہا تھا کہ انہیں اس پر دس سال تک جیل کی سزا ہوسکتی ہے، مگر اب وہ اسرائیل کے وزیراعظم بن گئے ہیں۔ ان کے اتحادی کہہ رہے ہیں کہ ہم قانون سازی کرکے نیتن یاہو کو ان مقدمات سے بری کرائیں گے۔ مذہبی صیہونی اس تحریک کا ایک مقصد عدلیہ کو اپنے تابع بنانا ہے۔ فلسطین دشمنی پہلے سے موجود ہے اور کرپشن کے الزامات کا بھی سامنا ہے، ایسے میں یتین یاہو سافٹ ٹارگٹ کی وجہ سے اہل فلسطین پر حملہ آور ہوں گے، جس کے لیے کوئی بھی بہانہ بنایا جا سکتا ہے۔

نیتن یاہو کا نظریہ طاقت کے استعمال کا نظریہ ہے، تصادم اور خونریزی کا نظریہ ہے۔ اس نے 2018ء میں کہا تھا کمزور کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کمزور ڈھیر ہو جاتے ہیں، ذبح کر دیئے جاتے ہیں، اور تاریخ سے مٹا دیئے جاتے ہیں، جبکہ طاقتور، چاہے نتیجہ جو بھی ہو، باقی رہ جاتے ہیں۔ ویسے یہ سبق عربوں کو ضرور لینا چاہیئے کہ اگر انہیں امن چاہیئے تو وہ بھیک مانگ کر نہیں بلکہ فقط اور فقط طاقت سے ہی ملے گا۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

غزہ میں جنگ بندی اسرائیل کی نابودی کے مترادف ہے، انتہاپسند صہیونی وزیر

یروشلم:بن گویر نے حماس کے ساتھ ہونے والی عارضی جنگ بندی کو اسرائیل کی تاریخی …