بدھ , 24 اپریل 2024

عمران خان ایک جذبانی لیڈر

(تحریر: سید منیر حسین گیلانی)

عمران خان نے واقعی تاریخ رقم کی ہے۔ کرکٹ اور شوکت خانم ہسپتال سے شہرت حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف بنائی۔ کافی جدوجہد کے بعد جب کچھ نہ بنا اور ریاستی اداروں کو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے خلاف تیسری سیاسی قوت کی ضرورت تھی تو ان کی سرپرستی کرکے حکومت دلائی گئی، تاکہ اسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد حاصل کرسکے۔ پھر پی ٹی آئی کے بانی کے ساتھ وہی کچھ ہوا، جو عموماً دوسروں کے سہارے اقتدار میں آکر کوئی مقام حاصل کرکے پھر ہضم نہیں کرسکتے اور اپنے محسنوں کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔ لیکن جذباتیت عمران خان کی طبیعت کا خاصا رہی ہے۔ سیاست میں آنا اور دوسرے نقطہ نظر کو تسلیم نہ کرنا۔ جمہوری معاشروں میں ایسے نہیں ہوتا۔ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد سیاسی میدان میں تماشا بہت ہوچکا ہے اور مزید ہونیوالا ہے۔ لیکن دونوں اطراف عوام کی کسی کو فکر نہیں، صرف اقتدار کی جنگ میں تقریباً دس سال ضائع ہوچکے ہیں۔

راقم کو وہ وقت یاد ہے جب کوئٹہ اسٹیڈیم میں جنرل پرویز مشرف آمریت کے دور میں اپوزیشن جماعتوں کا جلسہ جاری تھا۔ جلسے میں محمود خان اچکزئی کی ملی عوامی پارٹی سمیت بلوچستان کی دیگر جماعتوں نے بھرپور شرکت کی۔ مسلم لیگ نون کی سینیئر رہنما تہمینہ دولتانہ کے نعروں کے جواب میں جلسے میں کچھ بدمزدگی پیدا ہوئی۔ جلسے کے اندر سے ایک پتھر بھی سٹیج کی طرف آیا، جو پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ آج کے وزیر مال پنجاب نوابزادہ منصور احمد خان کی ٹانگ پر آکر لگا۔ محمود خان اچکزئی سنگین صورتحال کا اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ مہمانوں کی عزت کریں۔ اس جلسے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت شامل نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی صوبہ بلوچستان کے صدر لشکری رئیسانی کی رہائش گاہ پر آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں بلوچستان کی دیگر جماعتوں کیساتھ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی چیئرمین مسلم لیگ نون راجہ ظفر الحق کی زیر صدارت ہونیوالے اجلاس میں ان کی بائیں جانب تشریف رکھتے تھے۔

صدر مجلس کی ابتدائی گفتگو کے بعد عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی تجویز دی کہ عوام سے کہا جائے کہ حکومت کو یوٹیلیٹی بل جمع نہ کروائیں، ٹیکس ادا نہ کریں۔ بلوچ رہنماء ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے بھی عمران خان کی تجویز کی تائید کر دی اور زور دیا کہ اے پی سی، سول نافرمانی کی تجویز کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کرے اور اس کی تاریخ کا اعلان کرکے اٹھے۔ بہرحال کچھ لوگوں نے تجویز کی حمایت اور زیادہ تر لوگوں نے سول نافرمانی تحریک کی مخالفت کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس وقت زمینی حقائق اور ماحول ایسا نہیں کہ سول نافرمانی کی کال دی جائے۔ ہمارے عوامی رابطے ایسے بھرپور نہیں ہیں کہ حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرسکیں۔ ایسی کوئی بھی کال خود اے آر ڈی کے لئے باعث شرمندگی ہونے کیساتھ ساتھ عوام کیلئے بھی مشکلات پیدا کرے گی۔ تجویز کو کامیاب کروانے کے لیے بھرپور عوامی رابطہ مہم کی ضرورت ہے۔

اسلامک ڈیموکریٹک فرنٹ کے چیئرمین کے طور پر راقم کی باری آئی تو میں نے سوال اٹھایا کہ جب ہم یوٹیلیٹی بل ادا نہیں کریں گے تو واپڈا، سوئی گیس، واسا، پی ٹی سی ایل اور شہری سہولیات فراہم کرنیوالے دیگر اداے کنکشن کاٹ دیں گے۔ تو کیا ہم عوام کو اس حد تک تیار کرچکے ہیں کہ حالات سول نافرمانی کی طرف لے جا کر حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر دیں۔ ہمیں عوام کو کوئی حل دینا ہے۔ بہرحال عمران خان کے اصرار کے باوجود اجلاس میں سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان نہ ہوسکا۔ پھر وقت گزرتا گیا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ نون نے حکومت تشکیل دی۔ کچھ حلقوں میں دھاندلی کے نام پر عمران خان نے اسلام آباد ڈی چوک میں تقریباً چار ماہ کا دھرنا دیا۔ جس میں بھی اس نے متعدد بار ایسے ہی جذباتی رویئے اختیار کئے۔ لوگوں کو سول نافرمانی کی طرف بڑھنے اور بڑے شہروں کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا جبکہ مختلف تقاریب میں بھی عمران خان نے اسی طرح کے جذباتی اعلانات کیے، جن کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا اور شرمندگی اٹھانا پڑی۔

ظاہر ہے اس کی پھر آپ کو سیاسی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ پھر اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں جب حکومت ہٹائی گئی تو عمران خان نے ایک جلسے کے دوران کاغذ لہرا کر خفیہ دستاویز کو امریکی سازش اور اپنی حکومت گرانے کا الزام عائد کیا۔ لیکن حکومت ختم ہونے کے الزامات کو عمران خان نے خود ہی ایک ایک کرکے واپس لے لیا۔ مجھ جیسا ایک سیاسی کارکن اپنے تجربئے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہے کہ عمران خان اپنی ناتجربہ کاری، لااُبالی پن، ضد، ہٹ دھرمی، دوسروں کو احترام نہ دینے اور جذباتیت کی وجہ سے حکومت سے نکالے گئے ہیں۔ اپنی حکومت کے دوران معیشت کی بحالی کے جو دعوے کئے گئے اور جو تجاویز دیں، آج بھی مضحکہ خیز ہیں۔ عوام کو تسلیاں دینے اور بلند بانگ دعوے کرنے کے علاوہ انہوں نے کچھ نہیں کیا جبکہ مسلم لیگ نون کی حکومت کے بڑے منصوبے اورنج لائن ٹرین اور سی پیک میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ قومی اہمیت کے یہ منصوبے ان کی ضد اور جذباتیت کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے۔ مسلم لیگ نون سے دشمنی اپنی جگہ، اس تاخیر سے ملک کو نقصان ہوا۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران طوطا فال اور جنتر منتر سے بھی بھرپور کام لیا گیا۔ وزیراعظم ہوتے ہوئے عمران خان نے سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے بارے جلسوں میں بڑھکیں ماریں کہ تم میرے نشانے پر ہو، جبکہ شریف فیملی کو ڈاکو چور لٹیرے کے خطابات اور القابات سے سیاسی فضا کو مکدر کیا گیا۔ اسی طرح اپوزیشن کیخلاف کرپشن کیس بنائے گئے، جو عدالتوں میں ثابت ہی نہ ہوسکے۔ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، خواجہ سعد رفیق، سلمان رفیق اور دیگر افراد کو بھی گرفتار بھی کیا گیا۔ کافی وقت گزر چکا، بہت کچھ بے نقاب بھی ہوچکا ہے۔ دراصل ریاستی ادارے بھٹو اور شریف خاندانوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی ٹھان چکے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ نئی جماعت پڑھے لکھے طبقات پر مشتمل ہو، وہ سیاست میں حصہ لیں، اس مقصد کیلئے ریاستی اداروں نے بھرپور کوشش کیساتھ عمران خان کو انتخابات میں جتوایا اور پھر حکومت بھی بنوائی، جس کا اظہار سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی کیا ہے کہ ملکی بقا اور سلامتی کیلئے عمران خان کی پارٹی کو سیاست میں لایا گیا۔

ریاستی اداروں کی سرپرستی میں اقتدار عمران خان کے حوالے کیا گیا۔ پی ٹی آئی حکومت کو لے کر چلے تو آخر میں یہ احساس پیدا ہوا کہ جس حوالے سے عمران خان کو وہ اقتدار میں لائے تھے، کچھ بھی نہیں کرسکے۔ ان کی توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔ خارجہ پالیسی اور ملکی اقتصادیات کو نقصان پہنچا کر ملک کو بحران میں ڈال دیا گیا۔ یہ بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ عمران خان اپنی ذات کے گرد ہی طواف کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا میں متقی اور پرہیزگار شخص صرف وہ ہیں، باقی سب سیاستدان کرپٹ ہیں۔ عمران خان کی جذباتیت اور غیر سیاستی رویئے نے انہیں بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کرکے عمران خان پشیمان ہیں، جبکہ چودھری پرویز الہیٰ ایوان تحلیل نہ کرنے کا مشورہ دے کر پی ٹی آئی کیلئے ناپسندیدہ شخصیت بن چکے ہیں۔ عمران خان کو خود پارٹی کے اندر سی سے بھی ان ارکان اسمبلی کی مخالفت کا سامنا ہے، جو انتحابات پر کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلی پہنچتے ہیں، مگر اب ضد اور انا کی خاطر انہیں مستعفی ہونے کا کہا جا رہا ہے تو پریشانی تو بنتی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ پہلے بھی کئی جذباتی فیصلے کرکے واپس لے چکے ہیں۔ عوام پُرامید ہیں کہ شاید ایک یو ٹرن لے عمران خان یہ فیصلے بھی واپس لے لیں گے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …