ہفتہ , 20 اپریل 2024

کیا بحران کا حل ٹیکنو کریٹ حکومت ہے؟

(نسیم شاہد)

اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کا جو انجر پنجر ہل گیا ہے اُس کی ٹھوکا ٹھاکی کے لئے ٹیکنوکریٹس آئیں گے۔ اِس افواہ میں کتنی صداقت ہے؟اِس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اِس وقت جو حالات ہیں اُنہیں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ہم ایک ایسی صورتِ حال کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ٹیکنو کریٹ حکومت کے سب سے بڑے راوی عمران خان ہیں تاہم جس طرح موجودہ حکومت حالات کو سنبھالنے میں بے بس نظر آ رہی ہے اور آئے روز وزیرخزانہ کو ٹی وی پر آکر یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ ملک دیوالیہ نہیں ہو رہا اور خود وزیراعظم بھی یہ کہتے ہیںکہ صورتِ حال بہت مشکل ہے، اُس میں اب آگے بڑھنے کا راستہ کیا رہ گیا ہے؟ حکومتی وزراءنے ٹیکنوکریٹ حکومت کے خےال کو رد کر دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ایسا ہوا تو یہ شہبازشریف کے ساتھ زیادتی ہو گی مگر یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ ملک کو اِس حال میں زیادہ عرصے تک چلایا نہیں جا سکتا۔ معیشت روز بروز خراب ہو رہی ہے اور دنیا میں کہیں سے بھی امداد ملنے کی اُمید نظر نہیں آ رہی۔ ایک آئی ایم ایف کا پروگرام ہے جو مل سکتا ہے تاہم اُس کے لئے کڑی شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے۔یہ شرائط موجودہ حکومت اِس لئے ماننا نہیں چاہتی کہ اِس سے مہنگائی کا ایک ناقابل بیان طوفان آ جائے گا اور رہی سہی سیاسی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی۔ حالت یہ ہے کہ دونوں طرف سے ایک کھائی نے موجودہ حکومتی سیٹ اَپ کو گھیرا ہوا ہے۔ ایک طرف کڑے فیصلے درکار ہیں تو دوسری طرف ٹیکنوکریٹ حکومت یا نئے انتخابات کا راستہ ہے۔ ایسے میں آگے بڑھنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ آگے صرف اُسی صورت میں بڑھا جا سکتا ہے جب ملک میں سیاسی استحکام آئے مگر سیاسی استحکام کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آ رہے کیونکہ عمران خان ایسے سیٹ اپ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور اُن کا ہر بیان، ہر لمحہ اِسے کمزور کرنے پر صرف ہو رہا ہے۔

ہمارے ایک کرم فرما ٹیکنوکریٹ حکومت کو ٹھیکے پر دی گئی حکومت قرار دیتے ہیں۔ جب کام بگڑ جائے اور حالات قابو میں نہ آ رہے ہوں تو ٹھیکے پر دینے کا خیال ذہن میں آتا ہے۔ ابھی تک سوائے عمران خان کے کسی سنجیدہ طبقے کی طرف سے ٹیکنوکریٹ حکومت کی تجویز پیش نہیں کی گئی۔ عمران خان نے بھی تجویز تو پیش نہیں کی البتہ انکشاف کیا ہے کہ ٹیکنوکریٹ حکومت لانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ حکومت کے پیچھے بیٹھی ہوئی طاقتیں انتخابات نہیں کرانا چاہتیں۔ عمران خان کا اول و آخر مطالبہ چونکہ یہی ہے کہ فوری انتخابات کرائے جائیں اِس لئے اُنہیں ہر روز یہ شک پڑ جاتا ہے کہ انتخابات نہ کرانے کے لئے کوئی نہ کوئی منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک سنجیدہ سوال یہ ہے کہ ملک کو موجودہ بحرانی صورتِ حال سے نکالنے کے لئے فوری انتخابات ضروری ہیں یا ٹیکنوکریٹ حکومت بنا کر اُسے ایک دو سال دیئے جائیں کہ وہ ملکی معیشت اور حالات کو بہتر بنا کر نئے انتخابات کے لئے سازگار ماحول پیدا کرے۔ کیا ٹیکنوکریٹ حکومت کے پاس جادو کی چھڑی ہو گی جسے استعمال کرکے وہ سب کچھ ٹھیک کر دے گی؟ٹیکنوکریٹ حکومت سیاسی حمایت سے محروم ہو گی البتہ اُسے اسٹیبلشمنٹ کیمکمل سپورٹ حاصل ہو گی۔دیکھا تو یہی گیا ہے کہ جن حکمرانوں کو آئین سے ماوراءاقتدار سنبھالنا پڑا اُنہوں نے قدم قدم پر مصلحت سے کام لیا اور سیاسی حمایت کے لئے نئی جماعتیں بنوائیں، سیاسی وفاداریاں تبدیل کروائیں،اِس بار تو معاملہ اِس لئے بھی زیادہ گھمبیر ہے کہ تحریک انصاف فوری انتخابات کے لئے کمربستہ ہے اور اِس مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہہ دیا ہے کہ ٹیکنوکریٹ حکومت کو قبول نہیں کریں گے، ملک کو بحران سے نکالنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ فوری انتخابات کرائے جائیں۔

ایسے حالات میں تحریک انصاف کی رضا مندی کے بعد ٹیکنوکریٹ حکومت بنائی گئی اور اُسے غیر معینہ مدت تک کام کرنے کو کہا گیا تو کیا ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا؟ کیا یہی صورتِ حال برقرار نہیں رہے گی بلکہ اُلٹا اسمبلیوں کی عدم موجودگی کے باعث ٹیکنوکریٹ حکومت پر دباﺅ بڑھ نہیں جائے گا؟ جہاں تک پی ڈی ایم کی جماعتوں کا تعلق ہے اُن کے لئے ٹیکنوکریٹ حکومت بننے کی صورت میں ایک ریلیف موجود ہے۔ موجودہ اقتصادی حالات میں جب بہتری کی کوئی اُمید نظر نہیں آ رہی اور اگلے آٹھ ماہ بھی اگر حکومت کرنے کا موقع مل جائے تو اتحادی سیٹ اَپ کوئی بڑا معرکہ سر نہیں کر سکتا تو اِس صورتِ حال میں انتخابات کا غیر معینہ عرصے کے لئے التواءایک مناسب راستہ ہے جو نگران حکومت کی وجہ سے نہیں مل سکتا البتہ ٹیکنوکریٹ حکومت کی صورت میں ضرور مل سکتا ہے جس کے لئے سپریم کورٹ سے اجازت لی جا سکتی ہے۔ عمران خان کے پچھلے کچھ عرصے میں دیئے گئے انٹرویوز اور بیانات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ انتخابات کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت چاہتے ہیں۔باوجود اِس کے کہ وہ اِس وقت سیاست سے خاصی دوری پر نظر آ رہی ہے۔ اَب وہ کچھ مایوس نظر آ رہے ہیں اور اُنہوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ حکومت کے پیچھے بیٹھی ہوئی قوتیں انتخابات نہیں چاہتیں اِس لئے ٹیکنوکریٹ حکومت کے بارے میں سوچا جا رہا ہے، جمہوری ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں مڈٹرم انتخابات کا آپشن استعمال کیا جاتا ہے یا قبل از وقت انتخابات کرا دیئے جاتے ہیں۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کے ذریعے ٹاٹ میں مخمل کے پیوند لگانے کا کام نہیں کیا جاتا۔ وہاں ایسا بھی نہیں ہوتا کہ کسی خاص جماعت کی مقبولیت کو دیکھ کر انتخابات نہ کرائے جائیں۔ حکومت سازی کے عمل کو عوام کے فیصلے پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ہم چونکہ اپنی جمہوری روایات کو مستحکم نہیں کر سکے اِس لئے ٹیکنوکریٹ یا جمہوری حکومتوں کے قیام کا آپشن بھی ہمارے زیرغور رہتا ہے حالانکہ آئین میں اِس کی گنجائش موجود نہیں اور ایک خاص مدت کے بعد یا اسمبلیاں تحلیل ہونے پر متعینہ عرصے میں انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔

بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اِس وقت جتنی سیاسی پولرائزیشن ہے کیا اِس کی موجودگی میں انتخابات ہوئے تو اُن کے نتائج کو تسلیم کر لیا جائے گا؟ ہمارے ہاں تو ماضی میں یہ روایت رہی ہے کہ انتخابی نتائج کو پہلے روز سے ہی قبول نہ کرکے تحریک شروع کر دی جاتی ہے۔ عمران خان اِس وقت اپنی مقبولیت کے مکمل زعم میں مبتلا ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ وہ دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے اگر اُن کے اندازے غلط ثابت ہوئے تو کیا وہ نتائج کو تسلیم کریں گے یا پھر نئی تحریک شروع کر دیں گے۔ یہی سب کچھ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ہار کو تسلیم کریں گی یا پھر 2018ءکے انتخابات کی طرح دھاندلی کا الزام لگا کر تحریک شروع کر دیں گی؟ ایسا ہو کر رہے گا کیونکہ جب ایک دوسرے کو تسلیم نہ کرنے کی ضد جڑ پکڑ لے تو نتائج کتنے ہی شفاف کیوں نہ ہوں اُنہیں تسلیم نہیں کیاجاتا۔ ٹیکنوکریٹ حکومت بن بھی جائے تو چار چھ مہینے کے لئے ایک مصنوعی استحکام آ جائے گا تاہم اصل سیاسی استحکام صرف اُسی صورت میں آ سکتا ہے جب تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں، شفاف انتخابات کے لئے اصلاحات کریں اگر ناگزیر حالات کی وجہ سے عبوری دور کو لانا بھی ہے تو ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے کی بجائے قومی حکومت بنائیں جس میں تمام سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف کی نمائندگی ہو۔ یہ قومی حکومت ایک طرف معاشی بہتری کے لئے بڑے فیصلے کرے اور دوسرے انتخابات کے لئے فضا سازگار بنائے تاکہ شفاف اور سب کے لئے قابل قبول انتخابات ہوں جس کے بعد ایک مضبوط جمہوری سیٹ اَپ سامنے آئے۔ اِس سارے عمل میں عمران خان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ فوری انتخابات کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیں۔ اِس ضمن میں حکومت کو ایک سنجیدہ ایجنڈے کے ساتھ سامنے آنا چاہیے اور عمران خان کو مذاکرات کی باضابطہ دعوت دینی چاہیے۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …