جمعرات , 18 اپریل 2024

تو پھر چار حرف ہیپی نیو ایئر پہ

(وسعت اللہ خان)

نئے برس میں کووڈ کی نئی لہر ہمالیہ سے بلند، سمندر سے بھی گہرے اور شہد سے زیادہ میٹھے دوست چین کی جانب سے پاکستان میں داخل نہیں ہو گی۔

بلکہ سی پیک کے نقطہِ آغاز گوادر میں میٹھے پانی کی فراہمی کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور وہاں کی مچھلیاں وہیں کے ماہی گیروں کی ملکیت تسلیم ہو جائیں گی اور وہاں کے نیلے سبز ساحلوں کو آبی ریکودک نہیں سمجھا جائے گا۔

اس برس طالبان اور جملہ دہشت گرد گروہ پہلے کی طرح قومی جغرافیے اور ازہان پر پنجے نہیں گاڑ پائیں گے اور ریاست ڈیڑھ ہوشیاری دکھانے کے بجائے یکسو ہو کے ان کو انہی کے خول میں بند کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

اس برس گذشتہ سال کے مقابلے میں بلوچ بچوں کی جبری گمشدگی نصف ہو جائے گی۔ جو لختِ جگر برسوں سے غائب ہیں ان میں سے کم ازکم نصف اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے یا ان پر یا انھیں غیر قانونی طور پر غائب کرنے والوں پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلنے کا چلن شروع ہوگا اور بلوچستان میں خونی وارداتوں اور جرائم میں 2022 کے مقابلے میں کم ازکم ایک چوتھائی کمی بھی دیکھنے میں آئے گی۔

اس برس اسحاق ڈارئیت کے باوجود پاکستان میں مالیاتی خسارے اور اشیا کے نرخوں کا رخ سوِ آسمان کے بجائے پھر سے زمین کی طرف مڑنا شروع ہو جائے گا اور نانِ جویں کی قیمت بیس روپے کی حد سے آگے نہیں بڑھے گی اور روپیہ ڈالر کے مقابلے میں کم ازکم اتنی توقیر ضرور پا لے گا جتنی اس وقت اس کشکولی ریاست کی عالمی برادری کی نگاہوں میں ہے۔

اس برس ایک تصویر ایسی ضرور شائع ہو گی جس میں سرکردہ حزبِ اختلافی رہنما عمران خان کسی نجی یا سرکاری تقریب یا اجلاس یا کانفرنس میں وزیرِ اعظم سے اتفاقاً یا اراداتاً یا جبراً مصافحہ کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں گے اور دونوں رہنماؤں کے مابین کم ازکم تیس سیکنڈ ایسی مہذب گفتگو ضرور ہو گی جس کی تفصیلات اور وضاحت وہ میڈیا کے آگے کم از کم تیس منٹ تک پیش کرنے کے قابل ہوں۔

اس برس سندھ میں صرف خوبرو غیر مسلم لڑکیاں ہی مسلمان نہیں ہوں گی بلکہ غیر مسلم لڑکے بھی درگاہ بھرچونڈی شریف کی برکت سے مذہب تبدیل کر کے بن داس ڈنکے کی چوٹ شادی کر پائیں گے۔

اس برس کے مون سون میں آنے والی ممکنہ سیلابی و بارانی آفات سے نمٹنے کے انتظامات متعلقہ حکومتیں اور محکمے مئی جون میں ہی مکمل کر لیں گے تاکہ کروڑوں شہریوں کو بارہ مہینے میں بارِ دگر اپنے گھر اور فصلیں اور مویشی پیچھے نہ چھوڑنے پڑ جائیں۔

اس برس اپریل مئی میں بننے والی اربوں روپے کی شاہراہیں کم ازکم اگلے چھ ماہ زندہ رہیں گی اور چھ ماہ بعد بھی ان پر سے گزرتے ہوئے ریڑھ کی ہڈی کو نقصان نہیں پہنچے گا۔

اس برس پولیس حراست میں اموات کی شرح گذشتہ برس کی نسبت آدھی ہو گی۔ ’پُلس مقابلے‘ تیس فیصد کم ہو جائیں گے۔ گینگ ریپ، قتل کی سفاکانہ وارداتوں، بچوں کے اغوا اور ان سے بہیمانہ جنسی سلوک کے بعد ان کی اموات کی شرح اگر کم نہ بھی ہو سکی تو کوئی بات نہیں۔ البتہ ایسے جرائم میں ملوث افراد کو قانونی طور پر کیفرِ کردار پہنچانے کی عدالتی شرح میں کم ازکم پچیس فیصد اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

اس برس سرکاری ہسپتالوں میں کم از کم اتنے بستر ضرور مہیا ہو جائیں گے کہ ایک ایک بستر پر دو دو بیمار نہ ڈالے جائیں یا ہسپتالی برآمدوں میں لیٹے کراہتے مریض بھی طبی بستر کا آنند پا سکیں۔

اس برس کوئی نئی سکولی عمارت بھلے تعمیر ہو نہ ہو البتہ موجودہ سکولی عمارتوں میں ڈبل شفٹ شروع کر کے شرحِ خواندگی میں اضافے کی سنجیدہ کوشش ضرور دیکھنے کو ملے گی۔

اس برس سرکاری اساتذہ پہلی تاریخ کو تنخواہ کا انتظار پورے مہینے کرنے کی بوریت کم کرنے کے لیے کم ازکم پانچ کلاسیں ضرور لیں گے اور بچوں کو ’اپنی مدد آپ‘ پر نہیں چھوڑیں گے اور بچوں کے امتحانی پرچوں کی جانچ نائب قاصدوں یا چوکیداروں یا اپنے ہی زیرِ تعلیم عزیزوں سے نہیں کروائیں گے بلکہ خود کریں گے۔

نیز اس سال بھوت اساتذہ ( گھوسٹ ٹیچرز) کی تعداد میں بھی سالِ گذشتہ کے مقابلے میں حقیقی کمی دیکھنے میں آئے گی اور کم ازکم ایک تہائی تنخواہ خوروں کی چھانٹی ضرور ہو جائے گی۔

اس برس آرمی ایکٹ میں بھی ایک اور ترمیم ہو گی جس کے نتیجے میں حاضر سروس فوجی و انٹیلیجینس افسر بھی دیگر سرکاری اہل کاروں کی طرح کسی بھی زیریں و اعلی عدالت اور ٹریبونل کے روبرو اپنی صفائی پیش کرنے یا گواہی دینے یا کسی فوجداری و دیوانی جرم میں ملوث ہونے کے شبہہ میں قانونی جرح کی خاطر خود کو عندالطلب پیش کر سکیں گے تاکہ سائل و قاضی کی نگاہ میں نوری و خاکی کا فرق کم از کم دیکھنے کی حد تک یا علامتی ہی سہی نظر ضرورضرور آوے اور ’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘ لکھنے والے شاعر کی تھوڑی بہت آبرو رہ جائے۔

اس سال واقعی ایسا نظر آئے گا کہ عسکری قیادت نے لڑتے جھگڑتے، دانت نکوستے اور پنجے جھاڑ کے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے سیاستدانوں کو واقعی اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔

عسکری قیادت پہلی بار وہ ترازو ایک طرف رکھنے کا دل کڑا کر کے تجربہ کر ہی لے گی جو ترازو لڑتی جھگڑتی بلیوں کی روٹی کا وزن دونوں پلڑوں میں برابر برابر کرنے کے لیے ستر برس سے استعمال ہو رہا ہے۔

جب سرپرستی کی کوکین کے عادی سیاست بازوں کے چہرے پر دوڑتی بشاشت کی جگہ یتیمی لے لے گی تب ہی ہم جیسے مالیخولیوں کو محسوس ہوگا کہ واقعی ان کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہے۔

اگر مندرجہ بالا خوابوں میں سے کوئی ایک خواب بھی اس نئے برس میں کم ازکم آدھی تعبیر پا لے تب ہی 2024 کا سال شایانِ شان استقبال کا مستحق ٹھہرے گا۔۔۔ وگرنہ پیشگی چار حرف اگلے ہیپی نیو ایر پر بھی اور اسے خودکار انداز میں کہنے اور سننے والوں پر بھی چار حرف۔بشکریہ بی بی سی نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …