بدھ , 24 اپریل 2024

2023 میں پاکستانی معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ کیا ہو گا؟

(میاں عمران احمد)

عمر صفدر کئی سالوں سے برطانیہ میں مقیم تھے۔ وہ برطانوی شہریت رکھتے ہیں لیکن 2019 سے پاکستان میں رہ رہے ہیں اور کاروبار کر رہے ہیں۔تین سال تک ان کا کاروبار خوب چلا لیکن سال 2022 بھاری ثابت ہوا اور کاروبار بند ہونے کے قریب آ گیا۔

انہوں نے اس امید پر سارا سال کاروبار مکمل بند نہیں کیا کہ ممکن ہے کہ چند ماہ بعد بہتری آ جائے، لیکن امید نظر نہیں آرہی۔ حالات کے پیش نظر وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سال 2023 میں بھی پاکستان کے معاشی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ حکمران شاید نہیں جانتے کہ ملک کو کیا مسائل درپیش ہیں یا پھر وہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ کاروبار مکمل بند کر کے برطانیہ منتقل ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ سینکڑوں فیکٹری مالکان ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

ان حالات کے پیش نظر یہ جاننا ضروری ہے کہ سال 2023 میں پاکستانی معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ کیا ہو گا؟ اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہو گا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو کس طرح بچایا جائے۔

انہوں نے بتایا: ’اس وقت پاکستان میں 5.8 ارب ڈالرز کے ذخائر رہ گئے ہیں جو ایک ماہ کی درآمدات کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ چار دسمبر کو ایک ارب ڈالرز سکوک کی ادائیگی کی گئی ہے اور نئے سال کے پہلے مہینے کے پہلے ہفتے میں ہی متحدہ عرب امارات کے دو کمرشل بینکوں کو تقریبا ایک ارب ڈالرز کی مزید ادائیگی کرنی ہے۔

’اگلے تین ماہ میں پاکستان نے تقریباً ساڑھے آٹھ ارب ڈالرز قرض ادا کرنا ہے اور اگلے پورے سال میں تقریباً 26 ارب ڈالرز مزید درکار ہوں گے۔ حکومت یہ فنڈز کیسے مینج کرے گی یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔‘

بقول حفیظ پاشا: ’نئے سال کے پہلے ہفتے میں کمرشل بینکوں کو ہونے والی ادائیگی میں ایک سال کی توسیع کی بات کی جاری ہے۔ میرے مطابق یہ مشکل ہے۔ کمرشل بینک اگر قرض رول اوور کریں تو ان کی کریڈیبلٹی پر فرق پڑتا ہے۔

’اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے ہدف کا حصول بھی اگلے سال میں ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئے گا۔ حکومت اگلے دس پندرہ دنوں میں 50 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے گی لیکن وہ ناکافی ہوں گے۔ آئی ایم ایف آٹھ سو ارب روپوں کے ٹیکسز کی بات کر رہی ہے۔‘

اس حوالے سے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرنسی کرنچ اگلے سال میں پہلے سے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئے گا، ڈالر مزید تگڑا ہو گا اور روپیہ مزید کمزور ہو گا۔

انہوں نے کہا: ’ڈالر، پاؤنڈ سمیت انٹرنیشنل کرنسیز 30 روپے اون پر مل رہی ہیں۔ اگر انٹربینک میں ڈالر ریٹ نہ بڑھایا گیا تو اگلے سال کے پہلے ماہ میں ہی کرنسی اون 50 روپے تک بڑھ سکتا ہے۔ افغان ٹریڈ، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور ایران ٹریڈ پر اگر پالیسی تبدیل نہ کی گئی تو مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ امیگریشن پروٹوکول بین الاقوامی معیار کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اگلے سال میں بھی ڈالر ذخائر میں اضافہ ہونا مشکل ہے۔‘

بقول ظفر پراچہ: ’2022 کے آخر میں سامان اور ڈالر کی سمگلنگ عروج پر رہی اور خدشہ ہے کہ اگلے سال جون تک صورت حال ایسی ہی رہے گی۔ تقریبا 30 سے 40 لاکھ ڈالر روز افغانستان سمگل ہو رہے ہیں۔ اگر قابو نہ پایا گیا تو اگلے سال کے وسط میں ہی ایک کروڑ ڈالرز روزانہ سمگل ہوں گے۔‘

ظفر پراچہ نے بتایا: ’پاکستان ڈالرز میں درآمدات کرتا ہے اور افغانستان کو برآمد کرتا ہے جہاں سے سامان کے عوض روپے ملتے ہیں ڈالرز نہیں۔ اس کے علاوہ منی ایکسچینجرز پر ضرورت سے زیادہ چیک اینڈ بیلنس کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔‘

سابق مشیر وزارت خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نئے سال کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہو گا۔ جب تک پانچ سال کے لیے کوئی ایک نئی حکومت نہیں بنے گی تب تک معاشی استحکام نہیں آئے گا۔

’میں نے جون میں بجٹ منظور ہونے کے بعد الیکشنز کا مشورہ دیا تھا۔ اگر اس وقت الیکشن ہو جاتے تو معاشی حالت اتنی خراب نہ ہوتی۔ اگلے سال کے پہلے مہینے میں ہی الیکشن کا اعلان کر دینا چاہیے۔‘

اشفاق حسن نے مزید کہا: ’حکومتی اخراجات میں مسلسل اضافہ نئے مالی سال میں ایک سنگین مسئلہ بن کر سامنے آ سکتا ہے۔ آدھے سے زیادہ وزرا کے پاس کوئی قلم دان نہیں ہے لیکن تنخواہیں اور مراعات انہیں مل رہی ہیں۔ مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو اپنے اخراجات چالیس فیصد تک کم کرنے چاہییں۔‘

اس معاملے پر ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ نئے سال میں عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہو گی اور حکومت کے لیے ملک میں ڈالرز لانا اور توانائی بحران کو ختم کرنا ایک چیلنج ہو گا۔

بقول ڈاکٹر فرخ سلیم: ’توانائی کے شعبے کا خسارہ بڑا مسئلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو اگلے سال صرف یہ ایک شعبہ ہی پاکستان کو دیوالیہ کرنے کے لیے کافی ہو گا۔ اس شعبے کے گردشی قرضے 2500 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ اگلے سال چینی کمپنیوں کے ساتھ کپیسٹی پیمنٹ کے ایشوز کو بروقت حل کرنا ضروری ہے۔

’اگر جنوری کے پہلے ہفتے آئی ایم ایف نے گرین سگنل نہ دیا تو کمرشل بینکوں کو ایک ارب ڈالر قرض کی ادائیگی مشکل ہو جائے گی۔ پاکستان زیادہ شرح سود پر قرض کو رول اوور کروا سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک مشکل کام ہے۔‘

حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ نئے سال میں پاکستان کو کئی خطرات کا سامنا ہے، جن میں سر فہرست بیرونی ادائیگیاں ہیں۔ 2022 کا پورا سال ضائع ہو گیا۔ اب 2023 کا سال ضائع ہوتا ہے یا نہیں اس کا انحصار ملکی سیاسی استحکام پر ہے۔بشکریہ دی انڈیپینڈنٹ نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …