جمعرات , 25 اپریل 2024

پاک افغان تعلقات پر ٹی ٹی پی کے سائے

(تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس)

افغانستان میں جس کی مرضی حکومت رہی ہو، پاکستان کے لیے وہاں سے خیر کی خبریں بہت ہی کم آئی ہیں۔ اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو بڑے بڑے مسائل کی بنیادی وجہ افغانستان میں مسلسل خانہ جنگی کے اثرات ہیں۔ افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد پاکستان کا رخ کر رہی ہے۔ پہلے پاکستان کے بڑے شہر تھے اور اب بات تو دیہات تک پہنچ چکی ہے۔ ہم مسلسل افغانستان کے لیے اپنی معاشرت قربان کرتے آئے ہیں، انڈیا ہمارا دشمن ملک ہے، مگر وہاں سے جتھے پاکستان آکر حملہ آور نہیں ہوتے۔ یہ افغانستان ہے، جہاں سے جتھے ہمارے جوانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یقینی طور پر افغانستان کے اپنے مسائل ہیں اور کچھ ان جتھوں کو ہماری ریاستی پالیسی سے بھی بنیاد ملتی ہے۔ طالبان کی حکومت میں باقاعدہ فوج کا نہ ہونا بھی ان کے لیے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان موجودہ تعلقات انتہائی افسوسناک ہیں۔ اس کی وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا کہ جن کے لیے ہم نے امریکہ اور پوری نیٹو سے پنگا لیے رکھا، جب انہیں اقتدار ملا تو وہ یوں ہمارے خلاف کیسے ہوگئے۔؟ اتنے حملے تو اشرف غنی کے دور میں نہیں ہوتے تھے، جتنے اس دور میں شروع ہوچکے ہیں۔ ایک دوست نے، درست لکھا کہ ساٹھ سال سے پاکستان دشمنی پر مبنی نصاب تعلیم افغانستان میں پڑھایا جا رہا ہے۔ اس میں پاکستان دشمنی افغان حب الوطنی کی علامت ہے۔ اس صورتحال میں افغانستان میں جس کی مرضی حکومت آجائے، پاک افغان تعلقات یونہی رہیں گے۔ یہ فالٹ لائن ہے، اسے درست کرنا ہوگا، تبھی جا کر نارمل تعلقات کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔

طالبان کو قطر معاہدے کے ذریعے حکومت دی گئی ہے۔ اس معاہدے میں وہ دوسری کئی باتوں کے علاوہ اس کا بھی وعدہ کرچکے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ مگر اس کے برعکس ہو رہا ہے، جس شدت سے ٹی ٹی پی نے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر حملے کیے ہیں، یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ امریکہ ہمارا مخالف رہا کہ ہم ڈبل گیم کر رہے ہیں، مگر اس کے باوجود ہم نے طالبان کی مدد جاری رکھی۔ لگ یہ رہا ہے ٹی ٹی پی کے معاملے میں افغان طالبان یہی کر رہے ہیں، پاکستان کے باخبر صحافی بار بار اسی امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ طالبان کو امید تھی کہ پاکستان انہیں تسلیم کر لے گا، مگر پاکستان نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔

بچیوں کی تعلیم اور دیگر معاملات جس سمت بڑھ رہے ہیں، اس سے نہیں لگتا کہ پاکستان یا کوئی بھی دوسرا ملک افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے گا۔ یقیناً امن و امان کا مسئلہ جس میں ریاست کے شہریوں اور اس کے کارکنان کی جانیں جا رہی ہوں، کسی بھی ریاست کے لیے سرخ لکیر ہوتا ہے۔ طالبان لاکھ کہیں کہ ان کے ٹی ٹی پی سے تعلقات نہیں یا یہ ان کی سرپرستی میں نہیں چل رہی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں موجود ہیں اور وہیں سے آپریٹ کرتے ہیں۔ اگر ٹی ٹی پی کے ٹھکانے افغانستان میں نہیں ہیں اور ان کی قیادت پاکستان میں ہے تو پھر افغان طالبان کی سرپرستی میں کابل میں مذاکرات کیسے ہوتے رہے۔؟

معروف سکیورٹی تجزیہ نگار جناب عامر رانا صاحب کی یہ بات بالکل ٹھیک لگی کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرکے غلطی کی تھی۔ پاکستان کو افغانستان سے ان لوگوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنا چاہیئے تھا۔ اسی طرح ان کے خلاف کارروائی پر افغان طالبان پر دباو رکھنا چاہیئے تھا۔ ٹی ٹی پی کو فریق بنا کر بہت بڑی سکیورٹی غلطی کی گئی۔ اس کا نتیجہ ہمیں بھگتنا پڑے گا۔ افغان طالبان کی کامیابی سے یہ گروہ بھی شہ پا رہے ہیں کہ پاکستان میں بھی کوئی افراتفری پیدا کرکے کسی علاقے پر قبضہ کر لیں گے۔ یہ کچھ امن و امان کے مسائل ضرور پیدا کریں گے، جیسا کہ وہ کر رہے ہیں، مگر ریاستی ادارے اب پہلے سے کہیں زیادہ تیار ہیں۔

طالبان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ریاست پاکستان کو اگر اس دہشت گرد گروہ سے دباو میں لانے کا یہ طریقہ کار جاری رہا تو بہت جلد ریاست متبادل طریقہ ہائے کار پر غور کرے گی۔ اس حوالے سے پاکستان کے وزیر داخلہ کا بیان بالکل واضح ہے، جس میں انہوں نے ان عناصر کے خلاف جہاں یہ ہوں، وہاں کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔اسی کا اعادہ قومی سلامتی کی کمیٹی نے بھی کیا ہے، جس میں دہشتگردوں کے خلاف صفر برداشت پالیسی پر عمل ہوگا۔ بنوں میں ہونے والا آپریشن اور وہاں کے شہداء کے جنازوں میں آرمی چیف کی شرکت بہت بڑے اشارے ہیں کہ ریاست اب مذاکرات نہیں کرے گی بلکہ انہیں جڑ سے اکھاڑا جائے گا۔ اس کے ساتھ افغانستان میں بہت سی سکیورٹی فالٹ لائنز ہیں، پاکستان بھی کسی ایک پر پاوں رکھ دے گا۔

ابھی ریاستی ادارے افغان طالبان سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں اور ان کی بات سن رہے ہیں اور انہیں موقع بھی دے رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے لوگ پارلیمنٹ کو نشانے کی ویڈیو جاری کرتے ہیں اور اسی دن اسلام آباد میں خودکش حملہ کو ناکام بنا دیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ ملکی وقار کی علامت ہے، اس کی طرف یوں حملے کی کوشش سنجیدہ ردعمل لائے گی، جو کہ آرہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچ انتہاء پسندوں اور ٹی ٹی پی میں تعاون کی خبریں آرہی ہیں۔ یہ بڑا سکیورٹی تھریٹ ہے، جس کو بڑی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔

میرے خیال میں خود فریبی میں مبتلا کر دینے والے نعروں سے بلند ہو کر حقیقت پسندانہ تعلقات کی طرف بڑھنا ہوگا۔ دو نارمل ملکوں کے تعلقات جو بین الاقوامی دائرہ کار میں ہوں۔ پاکستان کو افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑنا ہوگا، وہاں کے اثرات سے بچنے کے لیے بڑے پیمانے پر بارڈر کو فول پروف بنانا ہوگا۔ افغان طالبان کو بھی دیکھنا ہوگا کہ کبھی وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بارڈر پر تنازع پیدا کرتے ہیں اور کبھی پاکستان کے بارڈ پر حملے ہوتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ان ممالک میں طالبان کے خیر خواہوں میں کمی آئے گی اور بات تنازع سے بڑھ کر لڑائی کی شکل اختیار کرے گی، جو یقیناً طالبان، پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …