منگل , 23 اپریل 2024

سوچ عالمی، عمل مقامی

(محمود شام)

نیا سال شروع ہوچکا ہے۔ اپنی مٹھی میں بے شُمار خطرات اور بے کراں خدشات لئے۔

یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہ گزر میں گزراں

نہ ہوا کہ مر مٹیں ہم ،نہ ہوا کہ جی اٹھیں ہم

ایک طرف تو ہمارا یہ افتخار کہ 22کروڑ کی آبادی۔ انتہائی اہم اور حساس جغرافیائی حیثیت۔ ریکوڈک کئی ملین اونس سونا اور کئی ٹن تانبا، قیمتی پتھر، تیل، گیس، میٹھے پانی کے دریا، 200 میل سمندر، زر اگلتی زمین۔ دوسری طرف بے بسی کہ ہزاروں ارب روپے قرضے نہ اتارنے کی سکت۔ سود کی ادائیگی کیلئے مزید قرضہ لینے کی حاجت۔ 26ارب ڈالر جون 2023میں ختم ہونے والے سال میں ادائیگی کا بوجھ۔

اور قوم سیاسی وفاداریوں میں بری طرح تقسیم۔ آج تک ہم پاکستانی وہ حد طے نہیں کرپائے جہاں ہمیں اپنے سیاسی اختلافات ختم کرکے ملکی سلامتی کے لئے اپنے اقتصادی اور جغرافیائی دشمنوں کے مقابلے میں ایک آواز ہوجانا چاہئے۔ غیر ملکی خطرات کے معاملے میں بھی ہم ایک نہیں ہوتے۔ یا غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتے ہیں۔ یا ملک سے وابستگی میں بھی تناسب کا تعین کرتے ہیں۔ عالمی ماہرین اس سلسلے میں ایک ہی تجزیہ کررہے ہیں کہ ان اقتصادی قیامتوں کو ٹالنے کےلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ ابھی ہماری فوجی قیادت کی طرف سے بھی کہا گیا ہے کہ ملک کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس صورت حال میں قومی اتفاق رائے ناگزیر ہے۔ لیکن اس ہم خیالی کےلئے کوئی کوشش نظر نہیں آرہی۔ ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے یہ ذمہ داری ادا کی جاتی رہی ہے۔ تاریخ کے بہت سے ہنگامہ خیز مواقع پر آرمی چیف یہ فرض انجام دیتے رہے ہیں۔ بعض سویلین بھی ایسے قابل قبول رہے ہیں جو آپس میں متصادم سیاسی سربراہوں کی براہ راست ملاقات کے لئے راستے ہموار کرتے رہے ہیں۔ بعض ریٹائرڈ جنرل اور بریگیڈیئر بھی ماضی میں یہ نتیجہ خیز سلسلہ جنبانی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے پیش نظر کوئی ذاتی لالچ نہیں ہوتا تھا۔ صرف ملکی مفاد مقصودِ خاطر ہوتا تھا۔ اب حالات نے ایسا رُخ اختیار کرلیا ہے معمولی شخصیت بھی سب کے نزدیک محترم نہیں ہے۔ امریکہ کی بھی خواہش یہی ہے کہ پاکستانی آپس میں لڑتے رہیں۔ پھر سوشل میڈیا ایک قبائلی معاشرہ تخلیق کررہا ہے۔ جس میں قبائلی سردار کی خوشنودی پیش نظر ہے۔ اور ودسرے قبیلے کے سردار کو سیاسی۔ اخلاقی۔ سماجی ہر اعتبار سے عریاں کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔

آسماں دونوں طرف سے سونتی ہوئی تلواریں دیکھ کر کانپ رہا ہے ۔سیانے کہتے رہے ہیں۔ بیلوں کی لڑائی میں مینڈک مارے جاتے ہیں۔ اس وقت جو چومکھی لڑی جارہی ہے۔ اس میں پاکستانی اکثریت کچلی جارہی ہے۔ افراطِ زر کی شرح میں جیسے اضافہ ہورہا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ایسے میں مطلوب قوت خرید نہ رکھنے والے لاکھوں پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے اتارے جارہے ہیں۔ امیر کا امیر تر ہونا معیشت کے لئے اتنا خطرناک نہیں ہوتا۔ جتنا غریب کا مزید غریب ہونا۔ معاشرے کو اس سے بہت زیادہ خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ مایوسیاں بڑھ رہی ہیں۔ اپنے آپ پر۔ ملت پر اعتماد پاش پاش ہوتا ہے۔ ریاست کے بارے میں بے یقینی تیز ہوتی ہے۔ حکومت سے بیزاری نفرت میں بدلتی ہے۔ یوں کروڑوں انسان قدرت کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں کو بھی استعمال میں نہیں لاتے۔ کسی سپر مین۔ اسپائیڈر مین کے منتظر رہتے ہیں۔ ماضی میں ایسے حالات میں مارشل لاء وقتی طور پر لوگوں کو مطمئن کردیتا تھا۔ اب بین الاقوامی پابندیوں نے اس کا نفاذ بھی کسی حد تک ناممکن بنادیا ہے۔ اب زمینی نقشہ یوں ہے کہ عوام میں مقبول۔ 16کروڑ پر حکمرانی کرنے والے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ان کے پُر جوش حامی۔ اسلام آباد میں بر سر اقتدار 13سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو خود غرض اور چور قرار دیتے ہیں۔ انہیں وطن کیلئے درد مند سیاستدان ہی نہیں سمجھتے۔ یہی حال وفاقی حکمرانوں کا ہے۔ کہ یہ مختلف الخیال سیاسی سربراہ عمران خان کو سیاستدان نہیں مانتے اسے نا اہل کروانے پر تلے ہوئے ہیں۔ طاقت ور اسٹیبلشمنٹ یہ عندیہ ظاہر کررہی ہے کہ سیاستدان خود اتفاق رائے پیدا کریں۔اس صورت حال سے عوام پریشان ہیں۔ پاکستان جس خطّے میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ عالمی کساد بازاری نے اس علاقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ علاقائی سطح پر پہلے سے یہاں تعاون نہیں ہے۔سارک دنیا کا سب سے غیر فعال علاقائی تعاون ہے ۔ اس کا اجلاس ہی نہیں ہونے پاتا۔سب ایک دوسرے کی مجبوریوں اور مشکلات سے فائدہ اٹھانے کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔ بھارت خطّے کا سب سے بڑا ملک ہونے کا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ صرف پاکستان سے نہیں وہ بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا سے بھی الجھ رہا ہے۔ افغانستان میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے پاکستان کے خلاف تخریب کاری میں مصروف ہے۔ افغانستان خطّے میں کوئی مثبت حصّہ لینے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔ اپنی داخلی کمزوریوں سے نبرد آزما ہے۔

میں نے عالمی ماہرین کے تجزیے بھی دیکھے ہیں۔ تاریخ میں ایسے نازک ادوار میں جفاکش عوام نے اپنے اتحاد کے ذریعے اپنی اپنی ریاست کو بحرانوں سے نکالا ہے۔ گزشتہ کالموں میں ہم نے اپنے ہم وطنوں کو آپس میں مفاہمت کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اسے پڑھنے والوں کی اکثریت نے پسند کیا ہے۔ ملک کے مختلف حصّوں سے مخلص اور درد مند بزرگ اور نوجوان اس نتیجہ خیز محلّے داری کے لئے تیار ہیں۔

حقیقت یہی ہے کہ ملک کے اصل مالک عوام ہیں۔ ان کی نسلیں۔ اسی زمین پر زندگی گزارتی اوریہیں دفن ہو تی رہی ہیں۔ ان کے آبائو اجداد یہاں پاکستان کے قیام سے پہلے سے آباد ہیں۔ ان میدانوں۔ پہاڑوں۔ دریائوں۔ ریگ زاروں کا اور یہاں سانس لینے والے انسانوں کا آپس میں گہرا رشتہ رہا ہے۔ ہمارے قائدین نے75 سال میں اس رشتے کو اور زیادہ قریبی بنانے کی بجائے ان میں دوریاں پیدا کی ہیں۔ کبھی زبان کی بنیاد پر کبھی۔ نسل کے حوالے سے۔ کبھی سیاسی وابستگی کی بنا پر۔ میری عرض یہ ہے کہ آپ اپنی سیاسی وابستگیاں اپنی جگہ برقرار رکھیں۔ لیکن اپنی بنیادی ضرورتیں آپ کو خود پوری کرنا ہیں۔ اس لئےآپ میں قربت ضروری ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی اپنے کارکنوں اور حامیوں کے لئےسستی روٹی، آٹا، چینی چاول فراہم کرنے کا انتظام نہیں کرتی۔ ایک دوسرے سے بیگانگی اور دوری آپ کے لئے نقصان دہ ہے۔ سیاسی سربراہوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب تو جدید ٹیکنالوجی آپ کو مزید قریب لاسکتی ہے۔ واٹس ایپ گروپ ہیں۔ فیس بک کے صفحات ہیں۔ اپنی اور اپنی اولادوں کی بقا اور خوشحالی کے لئے آپس میں مل بیٹھیں۔ مقامی طور پر مہنگائی ،ناانصافی اور محرومیوں کا متحد ہوکر مقابلہ کریں۔ چین ،یورپ امریکہ نے کمیونٹی بنیادوں پر حالات کو اسی طرح اپنے حق میں کیا ہے۔ جو دوسری قومیں کرسکتی ہیں۔ پاکستانی بھی کرسکتے ہیں۔ 2023کی ابتدا بیگانگی کی بجائے ہم خیالی سے کیجئے۔بشکریہ جنگ نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …