ہفتہ , 20 اپریل 2024

عالمی بحران اور مکتب سلیمانی

(تحریر: سید راشد عباس نقوی)

بحران کے لفظی معانی ایک ناگہانی صورت حال کے پیش آنے کے ہیں۔ بعض ڈکشنریوں میں بحران کا لفظی مطلب بیماری کے عروج کے بھی ہیں۔ البتہ لفظی بحث سے نکل کر مفہوم کی طرف توجہ دیں تو بحران سے مراد ایک ایسی خطرناک اور غیر مطلوب صورت حال کا وجود میں آنا ہے، جسے دور کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس کیفیت سے باہر نکلنے کے لیے بنیادی و اساسی اقدامات کی انجام دہی ضروری ہوتی ہو۔ بحران کو انگلش میں Crises کہتے ہیں اور اس کی اتنی ہی قسمیں ہوسکتی ہیں، جتنے انسان زندگی کے شعبہ ہائے حیات ہوسکتے ہیں۔ عام طور پر جن بحرانوں کا کثرت سے ذکر ملتا ہے، وہ سماجی، سیاسی، ثقافتی، اقتصادی اور فوجی بحران ہیں، البتہ ان میں سے ہر ایک پر اگر سرسری نگاہ بھی دوڑائی جائے تو بحرانوں کی لاتعداد اقسام سامنے آسکتی ہیں۔

بحران سے جڑی ایک اصطلاح مرد بحران ہے، جسے انگریزی میں (Man of Crises) کہتے ہیں۔ مرد بحران اس فرد کو کہتے ہیں، جو ذات، تنظیم، قوم، ملت، ملک یا دنیا کو ایک بحران سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مرد بحران بعض اوقات اپنے خون اور قربانی سے بحران کو چیر پھاڑ کر مطلوبہ کیفیت تک پہنچنے کا راستہ نکال لیتا ہے اور اس غیر مطلوبہ کیفیت کو عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ہمارا موضوع چونکہ عالمی بحران اور مکتب قاسم سلیمانی ہے، لہذا ہم پہلے مرحلے میں عالمی بحران کے بارے میں مختصر گفتگو کرینگے۔ عالمی بحرانوں کے حوالے سے بھی مختلف زاویئے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے جس انداز سے سوچتے ہیں، ان کے سامنے عالمی بحران بھی اسی سوچ کے مطابق ہیں۔ مثال کے طور پر 2022میں پانچ بحرانوں کو عالمی سطح پر اہم ترین بحران قرار دیا گیا۔
۱۔ بھوک و افلاس Hunger
۲۔ جنگیں Conflict
۳۔ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیاں Climate Change
۴۔ بچوں سے بدسلوکی Abuse Child
۵۔ کرونا وبا Covid 19

عالمی اداروں کے پیش کردہ ان عالمی بحرانوں کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اگر ان پانچ عالمی بحرانوں (Global Crises) کی بنیادوں پر غور و غوض کیا جائے تو یہ بحران بعض دوسرے بنیادی بحرانوں کے نتائج ہیں۔ ان بحرانوں کے پیچھے اصل وجوہات کچھ اور ہیں۔ مثال کے طور پر بھوک اور جنگوں کے پیچھے اصل قوتیں کون ہیں؟ ان بحرانوں کو خلق کرنے والے وہ گروہ، حکومتیں یا تھنک ٹینکس ہیں، جو دنیا پر نظام سرمایہ داری نافذ کرنے کے لیے اور دنیا کی اقتصاد پر کنٹرول کے لیے ایسی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں، جس سے طبقاتی فاصلے پیدا ہوتے ہیں اور اس کا آخری نتیجہ انسانوں کی بھوک و افلاس پر منتج ہوتا ہے۔

اسی طرح اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرنا چاہیئے کہ عالمی بحرانوں میں سے ایک بحران جنگیں، کس کی وجہ سے اور کیوں شروع ہوتی ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ عالمی اداروں کا نقطہ نظر ہے کہ بھوک، جنگیں، موسمیاتی تبدیلیاں، بچوں سے بدسلوکی اور کوڈ ۱۹، 2022ء کے عالمی بحران ہیں۔ ہماری نگاہ میں اس وقت دنیا کو تین بڑے بحرانوں کا سامنا ہے اور ان بحرانوں کا مقابلہ مکتب قاسم سلیمانی میں واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مکتب سلیمانی میں تین عالمی بحران عالمی سیاسی تسلط، نسلی و قومی بنیادوں پر دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا صہیونی مںصوبہ اور مذہبی انتہاء پسندی یا دینی دہشت گردی ہے۔

عالمی سیاسی تسلط کے لیے یونی پولر سسٹم (یک قطبی نظام) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، یونی پولر سسٹم کے نفاذ کا نعرہ بش سینیئر نے نوے کے عشرے میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے آغاز میں لگایا تھا۔ یونی پولر نظام سے مراد پوری دنیا پر لبرل ڈیموکریسی اور سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط ہے۔ لبرل ڈیموکریسی اور سرمایہ دارانہ نظام کا داعی امریکہ ہے، گویا ہم آسان الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت سب سے بڑا عالمی بحران امریکہ کا یونی پولر نظام نافذ کرنے کا منصوبہ ہے۔ اگر دنیا پر لبرل ڈیموکریسی اور سرمایہ دارانہ سوچ مکمل طور پر غالب آجاتی ہے تو اس کا نتیجہ انسانی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں۔ البتہ یہاں پر عرض کرتے چلیں کہ جن عالمی بحرانوں کا عالمی ادارے نام لیتے ہیں، وہ اسی نظام سرمایہ داری کی دین ہیں۔ آج تمام غیر جانبدارانہ تجزیہ کار اور عالمی تھنک ٹینکس اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر بھوک و افلاس، ماحولیاتی تبدیلیوں اور جنگوں کا اصل بانی امریکہ ہے۔ گویا اصل بحران امریکہ کا حالیہ وجود ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …