جمعہ , 19 اپریل 2024

جنگ یمن کا فیصلہ کن موڑ؟

(ترتیب و تنظیم: علی واحدی)

یمن کی جنگ کے سلسلے میں دو نئے واقعات رونما ہوئے ہیں، یہ دونوں اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ سب سے پہلے، انصار اللہ کی کوشش یہ ہے کہ نہ تو جنگ اور نہ ہی امن کی صورت حال کو ختم کیا جائے، جو تقریباً تین ماہ پہلے سے اس ملک پر مسلط ہے اور دو ماہ کی جنگ بندی میں کسی طرح کی توسیع نہیں کی گئی۔ اس صورت حال سے کوئی فائدہ اٹھا رہا ہو، لیکن یہ کسی بھی طرح سے یمن کی قومی سالویشن حکومت اور اس ملک کے عوام کے مفادات میں نہیں ہے۔ اسی وجہ سے حالیہ دنوں میں نیشنل سالویشن گورنمنٹ کی قیادت میں ایک واضح پالیسی کا اعلان کیا گیا۔انصار اللہ کی طرف سے نہ جنگ اور نہ ہی امن کی صورتحال کو ختم کرنے کے لیے ملک کے مختلف علاقوں میں یمنی عوام نے مظاہرے کرکے انصار اللہ کی پالیسی کی حمایت کی ہے اور ان مظاہروں کا سب سے اہم نعرہ "محاصرہ جنگ ہے” رہا ہے۔

یمن پر 8 سالہ جنگ کے مسلط ہونے سے ہونے والے انسانی جانی نقصان اور اس سے ہونے والے نقصانات کے شائع شدہ اعداد و شمار بھی بتاتے ہیں کہ محاصرے کی وجہ سے ہونے والے انسانی جانی نقصان کی تعداد فوجی تنازعے کے نتیجے میں ہونے والے براہ راست جانی نقصان سے کہیں زیادہ ہے، جبکہ جنگ میں براہ راست ہلاکتوں کے اعداد و شمار تقریباً 47,000 افراد ہیں، لیکن محاصرے کی وجہ سے بالواسطہ ہلاکتیں 300,000 سے زیادہ ہوئی ہیں، جن میں زیادہ تر بچے نشانہ بنیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی جامع رپورٹ کے مطابق، جو چند ماہ قبل شائع ہوئی تھی، ایک اندازے کے مطابق یمن پر فوجی جارحیت کے دوران 377 ہزار یمنی ہلاک ہوئے، جن میں سے تقریباً 70 فیصد متاثرین 5 سال سے کم عمر کے بچے تھے۔ اس کے علاوہ، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مطابق، یمن میں ان تخمینہ شدہ 226,000 اموات میں سے تقریباً 60% بالواسطہ وجوہات کی وجہ سے ہوئی ہیں۔

ان بالواسطہ وجوہات میں ادویات، خوراک، پانی اور صحت عامہ کی ضروریات تک عدم رسائی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کا اندازہ ہے کہ اگر جنگ یمن 2030ء تک جاری رہی تو یمن میں انسانی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور 13 لاکھ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یمن کی جنگ سے متعلق حالیہ اہم واقعہ انصاراللہ کی جانب سے حفاظتی ضمانتیں حاصل کرنے کے بدلے میں سعودی عرب اور خود بن سلمان کی یمن سے نکل جانے کے لیے آمادگی کا اعلان ہے۔ یہ واقعہ انصار اللہ کی قیادت میں یمن کی قومی سالویشن حکومت کی جانب سے نہ تو جنگ اور نہ ہی امن کی صورتحال کو ختم کرنے کے لیے ایک فوری اور مختصر مدت کی ڈیڈ لائن مقرر کرنے کے بعد پیش آیا۔

"الاخبار” اخبار کے مطابق، یا تو ایسا امن قائم ہونا چاہیئے جس میں صنعاء کی حکومت کی شرائط تسلیم کی جائیں یا پھر ایسی جنگ شروع کی جائے، جس میں انصار اللہ اپنی شرائط عائد کرسکے۔ یہ چار شرائط کچھ اسطرح ہیں: 1۔ناکہ بندی یا محاصرہ کا خاتمہ، 2۔ یمن کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنا، 3۔ جنگی تاوان کی ادائیگی، اور 4۔ بیرونی فورسز کا یمن کو ترک کرنا۔ الاخبار کے مطابق اب گیند سعودی عرب کی کورٹ میں ہے، کیونکہ صنعا کا خیال ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس وقت بہت سے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں۔ سعودی عرب کے سامنے اس وقت دو مثالیں ہیں، ایک چھوٹا پڑوسی قطر ہے، جس نے عالمی کپ کے انعقاد میں کامیابی کے بعد اہم سیاسی اور معاشی فوائد حاصل کئے ہیں اور دوسرا پڑوسی امارات ہے، جو یمن جنگ میں سعودی عرب کا اتحادی ہے۔ آج جبکہ "جنگ” دراصل "وسائل اور معیشت کی جنگ” ہے، اس میں کون فائدہ اٹھا رہا ہے۔

اس بنا پر ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب اور بن سلمان خود اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یمن میں جنگ کا جاری رہنا اس ملک کے لیے نقصان دہ ہے اور ایک ایرانی کہاوت کے مطابق آپ نقصان کو جب بھی روکیں گے تو یہ فائدہ ہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اور خاص طور پر صیہونی حکومت، جو بن سلمان اور بن زائد کو شروع سے ہی یمن پر فوجی حملے کے لیے اکسانے میں ملوث رہے ہیں، سعودی عرب اور بن سلمان کو اس نقصان سے روکنے کی اجازت دیں گے یا نہیں۔؟بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …