جمعرات , 25 اپریل 2024

جینوا کانفرنس

(تحریر : ڈاکٹر صوفیہ یوسف)

باہمی تعاون‘ ہمدردی‘ خیرخواہی اور محبت کا جذبہ انسانی معاشرے کے نمایاں اوصاف ہیں۔ یہی وہ اوصاف ہیں جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتے ہیں۔ عالمی برادری کی جانب سے ان جذبات کا اظہار 9جنوری 2023ء کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں پاکستان اور اقوام متحدہ کی مشترکہ میزبانی میں منعقد کی جانے والی عالمی کانفرنس Climate Resilient Pakistan میں کیا گیا۔ یہ کانفرنس 2022ء میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے پس منظر میں منعقد کی گئی تھی۔ گزشتہ برس مون سون کی غیرمعمولی بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ 30ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا ہے جو پاکستان کے کل جی ڈی پی کا دسواں حصہ بنتا ہے۔ جینوا کانفرنس کے انعقاد کا مقصد تباہ کن سیلاب کے بعد تعمیر نو کے لیے عالمی معاونت کا حصول تھا۔ اس کانفرنس میں 40دیگر ممالک کے سرکاری وفود‘ نجی ڈونرز اور عالمی مالیاتی اداروں کے 250افراد نے شرکت کی۔ جون تا اگست ہونے والی غیرمعمولی بارشوں سے تقریباً 80لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور 1700سے زیادہ جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ پانی کم تو ہوا ہے لیکن مکمل نکاسیٔ آب ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی۔ صوبہ سندھ اور بلوچستان کا بڑا حصہ بدستور زیر آب ہے۔

40لاکھ بچے تاحال سیلاب کے ٹھہرے ہوئے آلودہ پانی کے قریب مقیم ہیں۔ 14ملین افراد غذائی عدم تحفظ شکار ہیں۔ گندم اور آٹے کی قلت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ نہ صرف متاثرہ علاقوں میں بلکہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں سستے آٹے کے حصول کے لیے غریب عوام لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنے کے باوجود ناامید گھروں کو لوٹنے پر مجبور ہیں۔ سبزیاں‘ گوشت‘ دالیں‘ انڈے‘ خوردنی تیل اور برائلر مرغی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ مہنگائی کے اس طوفان میں نچلا طبقہ تو دور کی بات ہے‘ لوئر مڈل اور مڈل کلاس گھرانے بھی اپنے گھر کا بجٹ متوازن رکھنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ بجلی اور گیس جو بنیادی ضروریاتِ زندگی میں شامل ہیں‘ ان کے بل ادا کرنے کے باوجود عوام کو کئی کئی گھنٹوں لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔

2022ء کے سیلاب سے سندھ‘ بلوچستان‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی زرعی زمین زیر آب آنے کی وجہ سے کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں جس سے مقامی معاش اور خوراک برباد ہوئی تو دوسری طرف رہائشی علاقوں میں سیلابی پانی کے داخلے سے لوگ بے گھر ہو کر دربدر ہیں۔ مڈل کلاس گھرانوں میں صاف ستھرے معیارِ زندگی کو برقرار رکھتے ہوئے ایک نسل صرف مشکل سے اپنا گھر بنا سکتی ہے‘ اس بنیادی ضرورت سے بے فکر دوسری نسل سماجی معاملات میں اپنا مقام بنانے کی قابل ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک خاندان کا گھر سے بے گھر ہو جانے کا مطلب اس خاندان کا سماجی ترقی میں 30سال پیچھے چلے جانا ہے۔ 90لاکھ اضافی افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں جس سے قومی غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

2023ء ہر حوالے سے ایک مشکل سال ہوگا کیونکہ بدترین اقتصادی حالت‘ سیاسی بحران‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات‘ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور امن و امان کی خراب صورت حال وغیرہ ایسے چیلنجز ہیں جو ملک کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کی اقتصادی صورتحال گزشتہ کئی دہائیوں سے خراب ہے مگر بین الاقوامی سطح پر کورونا وائرس کی وبا‘ روس یوکرین جنگ اور اقتصادی کساد بازاری نے پاکستان کی معیشت کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ ڈیفالٹ کی تلوار سر پر منڈلا رہی ہے۔ کراچی کی بندرگا ہ پر ہزاروں شپنگ کنٹینرز پڑے ہیں‘ ان کارگوز میں خراب ہونے والی کھانے کی اشیا اور لاکھوں ڈالر زمالیت کا طبی سامان بھی شامل ہے جو زرِمبادلہ کی کمی کی وجہ سے کلیئر نہیں ہو رہا۔ ملک میں جان بچانے والی ادویات کم ہوگئی ہیں۔ ملکی معیشت کا پہیہ تین طرح سے جام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اول ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے تاجروں کو ہرجانہ برداشت کرنا پڑے گا‘ دوم زیادہ دیر تک کنٹینر بندرگاہ پر کھڑا ہونے کی وجہ سے تاجر کو بندرگاہ کا اضافی کرایہ دینا ہوگا‘ سوم مقامی ہو یا عالمی تجارت‘ سب سے زیادہ اہمیت تاجروں کے درمیان اعتماد کی فضا ہوتی ہے‘ اس صورتحال میں وقت پر ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے دونوں اطراف کے تاجروں کے اعتماد کو سخت ٹھیس پہنچنے کے ساتھ مایوسی کی فضا جنم لے رہی ہے ۔

حکومت پاکستان نے ایشیائی ترقیاتی بینک‘ یورپی یونین‘ اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں اور ورلڈ بینک کے ماہرین پر مشتمل ایک پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز اسیسمنٹ گروپ کی مدد سے سیلاب سے ہونے والے نقصان اور بحالی کے لیے 16.3بلین امریکی ڈالر تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس رقم کا نصف پاکستان اپنے اندرونی وسائل سے ادا کرے گا اور باقی فنڈز کے حصول کے لیے مذکورہ بالا کانفرنس منعقد کی گئی جس میں عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے 9.7 ارب ڈالرز سے زیادہ کے فنڈز فراہم کرنے کے وعدے کیے ہیں۔

مجموعی طور پر موجودہ حکومت کی کامیاب سفارت کاری اور خاص طور پر نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی مسلسل کوششوںکی وجہ سے نہ صرف جنیوا کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوا اور اس میں تین درجن سے زائد ممالک کی شرکت کو ممکن بنانے میں کامیاب ہوئے بلکہ حکومت کی جانب سے اس کانفرنس میں بحالی اور تعمیر نو کا فریم ورک بھی پیش کیا گیا۔ اس سلسلے میں سعودی عرب نے ایک ارب ڈالرز‘ فرانس نے 408ملین ڈالرز‘ چین نے 100ملین ڈالرز‘ یورپی یونین نے 97ملین ڈالرز‘ جرمنی نے 90ملین ڈالرز‘ جاپان نے 77ملین ڈالرز‘ برطانیہ نے 43.5ملین ڈالرز جبکہ آذر بائیجان نے 2ملین ڈالرز کے فنڈز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ فریم ورک(The resilient, recovery, rehabilitation, reconstruction framework or 4RF) بنیادی طور پر دو طرح سے کام کرے گا۔ پہلا حصہ بحالی اور تعمیر نو کے فوری چیلنجز سے نمٹنے سے متعلق ہے۔ اس کے لیے تین سال کی مدت میں کم از کم 16.5ارب ڈالرز کی ضرورت ہے جبکہ فور آر فریم ورک کا دوسرا حصہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کو کم از کم کرنے کے لیے طویل المدتی منصوبوں سے متعلق ہے۔ اس کے لیے آئندہ 10سال کے عرصے میں 13.5 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ طویل المدتی منصوبوں میں آب پاشی کے موجودہ نظام کی بہتری اور مضبوطی‘ نکاسیٔ آب کے منصوبے‘ انفراسٹرکچر اور مواصلات کے منصوبے شامل ہیں۔

جنیوا کانفرنس میں دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں نے 9.7 ارب ڈالرز دینے کا جو عہد کیا‘ ان سے ساڑھے سات ارب ڈالرز تو عالمی مالیاتی اداروں مثلاً اسلامی ترقیاتی بینک نے 4.2ارب ڈالرز‘ ورلڈ بینک نے 2ارب ڈالرز اور 1.5ارب ڈالرز ایشیائی ترقیاتی بینک نے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس لیے یہ ساڑھے سات ارب ڈالرز آسان قرض ہے جو قوم کو ادا کرنا ہوگا۔ پہلے ہی ملک کے قرضوں کا حجم بہت بڑھ گیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان واجب الادا قرضوں کے اوپر سود کی ادائیگیوں کے لیے مزید قرض لینا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ جنیوا کانفرنس کے موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی آئی ایم ایف کے وفد سے ہونے والی میٹنگ کی خبریں تو مثبت آرہی ہیں لیکن پاکستان نقدی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ اس وقت زرِمبادلہ کے ذخائر آٹھ سال کی کم ترین سطح پر ہیں اور ڈیفالٹ کو روکنے کے لیے مالی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ وعدوں کے باوجود معاشی دباؤ ختم ہوتا نہیں دکھائی دے رہا البتہ مختصر مدت کے لیے اقتصادی دباؤ کم ضرور ہوا ہے جس کے مثبت اثرات سٹاک مارکیٹ پر نظر آرہے ہیں۔بشکریہ دنیا نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …