بدھ , 24 اپریل 2024

متحدہ پھر متحد، مگر جاؤ بیٹا پہلے بھائی کو بلاؤ!

(عفت حسن رضوی)

یو پی کی خواتین جب روز روز کے وہی ایک سوال سے تنگ آ جاتی ہیں کہ کھانے میں آج کیا پکائیں تو ایک ترکیب اکثر کارگر رہتی ہے۔ اسے باولی ہنڈیا کہتے ہیں۔باولی ہنڈیا میں جو ہاتھ آئے ڈالتے جائیں، آخر میں کچھ نہ کچھ تیار ہو ہی جاتا ہے۔ کبھی باولی ہنڈیا کا تجربہ کامیاب رہتا ہے اور کبھی نوالہ حلق میں اٹک جاتا ہے۔

ایم کیو ایم کی بھی ایک باولی ہنڈیا ایک بار پھر تیار کی گئی ہے۔ ناکامی کے امکانات شاید اس لیے بھی زیادہ ہیں کیونکہ یہ ہنڈیا کم از کم یو پی کی خواتین نے نہیں بنائی۔

متحدہ پھر متحد ہو گئی، 2016 کے بعد الگ ہونے والے تین دھڑے ایم کیو ایم پاکستان، پاک سر زمین پارٹی اور تنظیم بحالی کمیٹی پھر ایک ہو گئے ہیں۔ یہ اعلان ان تمام چھوٹے چھوٹے دھڑوں کے رہنماؤں نے کراچی میں ایک میڈیا بریفنگ کے دوران کیا جہاں جھینپے جھینپے مرے سرکار نظر آئے۔

ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ کی کوشش 90 کی دہائی سے شروع ہو گئی تھی جب ایم کیو ایم کے ہی ایک رہنما آفاق احمد نے الطاف حسین کی طرز سیاست سے انکار کرتے ہوئے ایم کیو ایم حقیقی گروپ بنایا تھا۔ آج تک اس دھڑے کو ملکی سیاست میں کسی بھی مرکزی کیا ثانوی کردار میں بھی نہیں دیکھا گیا۔

ایم کیو ایم کی کمر توڑنے کی اگلی کوشش کے لیے طاقتور حلقوں کو جس کمزور لمحے کا انتظار تھا وہ موقع الطاف حسین نے 2016 میں خود فراہم کیا، جب ایک تقریر کے دوران انہوں نے ریاست پاکستان کو للکار دیا۔ اس کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا اور تنظیم کا شیرازہ بکھر گیا۔

لگتا یہ تھا کہ اب ایم کیو ایم کراچی کی گلی گلی میں پھیلے اپنے سیکٹر آفس نیٹ ورک کی طرح ہر محلے کی اپنی ہو گی۔ ہم انتظار میں تھے کہ کہیں ایم کیو ایم کیماڑی سے ایم کیو ایم ملیر تک دھڑوں کا اعلان نہ ہو جائے۔

ایم کیو ایم اس جھٹکے میں زیادہ نہیں بس چار دھڑوں تک تقسیم ہوئی۔ ان دھڑوں کے سروں پہ دست شفقت ہونے کے باوجود یہ کچھ نہیں کر پائے یہاں تک کہ کراچی کو تحریک انصاف کے سامنے گنوا کر بس اتنا ہی کہہ سکے کہ ’کہاں لے آیا یہ شخص ہمیں۔‘

بہرحال جو بچے الگ ہوئے تھے اب وہ دوبارہ ساتھ ساتھ کھیلیں گے، مگر اب مسئلہ یہ نہیں کہ یہ سب ساتھ ہیں، اب مسئلہ یہ ہے کہ بڑے بھائی ساتھ نہیں۔ وہی جن کے کندھے پہ بندوق رکھ کر سارے نشانے تانے جاتے تھے۔ وہی بڑے بھیا جن کی غیر موجودگی میں یہ چھوٹے گُل کھلاتے تھے اور ابو نے جو کان مروڑے تو الزام بڑے بھیا پہ دھر دیتے تھے۔

اب ان بچوں کی وہی کیفیت ہے کہ میچ کھیلنے والے تجربہ کار لڑکے گھر کا دروازہ بجاتے ہیں۔ یہ بیچارے ابھی موکھلے سے منہ ہی باہر نکال لیتے ہیں کہ باہر سے بیزار سی آواز آتی ہے، ’جاؤ بیٹا یہ بڑوں کا کھیل ہے، بڑے بھائی کو بلاؤ۔‘

ایم کیو ایم کے بغیر کراچی کی سیاست ادھوری ہے، لیکن خود ایم کیو ایم الطاف حسین کے بغیر ادھوری ہے۔ اگر فطرت کے قانون کے تحت، جیسے ہر انسان کو اس دنیا سے جانا ہے، ایسے ہی ایم کیو ایم میں اگر الطاف حسین نہ رہتے تو شاید منظر نامہ مختلف ہوتا، مگر جس انکیوبیٹر میں رکھ کر مائنس الطاف والی ایم کیو ایم کو بنایا گیا وہ طریقہ کار نہایت بھونڈا تھا۔

مائنس الطاف والی چھوٹی چھوٹی ایم کیو ایموں سے بنی نئی نویلی ایم کیو ایم پاکستان خود اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ اس تنظیم میں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ خود تنظیم کا نہ ہونا ہے۔ باسی کڑہی کو ابال دے کر جس ذائقے کی توقع ہے وہ نہیں ملنے والا۔

ایم کیو ایم کے اس انتہائی فطری انضمام کے بعد فاروق ستار یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ تمام دھڑوں میں پارٹی کی لیڈری کا کوئی جھگڑا نہیں۔ ہمیں تو لگتا ہے یہ جھگڑا کبھی ہونا بھی نہیں کیونکہ اس پارٹی کے پاس شاید سب کچھ ہے، بس ایک لیڈر کی کمی ہے جو پارٹی کو فرنٹ سے لیڈ کرے۔

الطاف حسین بلاشبہ وہ لیڈر رہے جس نے اپنی پارٹی کو سیاسی نظریہ دیا، لیکن یہ کہنا کہ الطاف حسین کا کوئی توڑ نہیں، یا کوئی بدل نہیں سراسر غلط ہے۔ ایم کیو ایم کو آرگینک طریقے سے اگر نیا رہنما نصیب ہو جاتا تو بات اور تھی، پھر پبلک بھی انہیں سنتی لیکن متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو لیبارٹری میں رکھ کر اس میں پرانے ایسڈ شامل کرنے سے نیا فارمولا نہیں بنا، یہ وہی کھچڑی پھر تیار ہو گئی ہے جو کئی بار ناکام ہوئی ہے۔

امید ہے کہ اب جبکہ حلالہ فرما ہی لیا ہے، ناراض دھڑوں نے ایک دوسرے سے رجوع کر ہی لیا ہے تو کیوں نہ بڑے بھائی کو بھی بلا لیں کیونکہ گیم ابھی اور گندا ہونا ہے اور بڑے بھائی اس گیم میں گھاگ ہیں۔بشکریہ دی انڈیپینڈںٹ

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …