جمعرات , 25 اپریل 2024

برازیل میں اسلام کا بڑھتا بول بالا

دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کا زور و شور ہے، حتی لاطینی امریکی ممالک بھی سے محفوظ نہيں رہے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والی 28 سالہ پولییانا ویگا ڈی سوزا، دو مہینے پہلے مسجد سے نکلنے کے بعد جب اپنی ایک سہیلی کے ساتھ بس اسٹاپ پر پہنچی تو وہاں ایک نامعلوم شخص آیا اور اس نے انہیں دیکھتے ہی چیخنا چلانا شروع کر دیا، ڈی سوزا اور ان کی سہیلی نے حجاب پہن رکھا تھا۔

ڈی سوزا کا کہنا تھا کہ وہ ہماری طرف آیا اور اس نے ہمیں برا بھلا کہنا شروع کر دیا، اس نے چلا کر کہا کہ ہمارے شوہر اپنے ممالک میں لوگوں کے سر کاٹنے کے عادی ہیں، اور یہاں برازیل میں بھی ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2017 میں اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں پہلی بار مذہب کے نام پر نفرت کا احساس ہوا اور خطرہ بھی محسوس ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت ہی خونخوار لگ رہا تھا اور غصے میں چیخ رہا تھا۔ اس حادثے کے بعد مسجد سے جب بھی ہم نکلتے ہیں تو ہمیں کوئی آدمی بس تک پہنچانے آتا ہے۔

برازیل میں اسلاموفوبیا کے تازہ مطالعے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ برازیل سمیت لاطینی امریکی ممالک میں مسلم خواتین میں ڈی سوزا جیسے معاملے عام بات ہیں۔

انتھروپولوجی ان اسلامک اینڈ عرب کانٹریکٹس گروپ کی جانب سے تازہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ 73 فیصد مسلم خواتین سڑکوں پر اس طرح کی جارحیت کا سامنا کر چکی ہیں۔
زیادہ تر حملے زبانی ہوئے لیکن 10 فیصد مسئلے میں متاثرہ خواتین پر حملے بھی کئے گئے۔

ریبور او پریٹو میں ساؤپاولو یونیورسٹی میں علم نفسیات شعبے کی ایک پروفیسر باربوسا جنہوں نے خود بھی اسلام قبول کر رکھا ہے اس کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں ملک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔

برازیل کو عام طور پر ایک دوست ملک کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جہاں ہر مذہب اور ہر مکتب فکر کے افراد پوری آزادی سے ایک ساتھ رہتے ہیں لیکن جب اسلاموفوبیا کی بات آتی ہے تو سب کچھ بدل جاتا ہے اور لوگ منفی ذہنیت سے مسلمانوں کو دیکھنے لگتے ہيں۔

غریب علاقوں میں رہنے والی اور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والی مسلم خواتین کے لئے سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ پولییانا ڈی سوزا جیسے افراد کا کہنا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہمیں سڑکوں سے زیادہ خاندان میں پریشانی ہوتی ہے کیونکہ ہمارے اہل خانہ کو اسلام کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ پتہ نہیں ہوتا جتنا میڈیا کے ذریعے بتایا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں بہت زیادہ غصے کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی بھی تنازع سے گریز کے لئے انہوں نے صبر کا دامن تھامے رکھا۔

42 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ مذہب کی تبدیلی کے بعد خاندان نے ان کے نئے مذہب کو مسترد کر دیا یا ان سے رشتہ ہی ختم کر دیا۔ اس کی اصل وجہ میڈیا کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پروپیگینڈا ہے۔بشکریہ سحر نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …