ہفتہ , 20 اپریل 2024

مل جل کر عوام کی آواز سنیں

(مسرت قیوم)

لمحہ موجود میں کوئی بھی تجزیہ کار۔ فاضل لکھاری اِس پوزیشن میں نہیں کہ لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات کا درست طور سے یا گہرائی سے تجزیہ کر سکے ۔ صرف ممکنہ واقعات کو بیان کرنے تک آگئے ہیں ۔ جمہوریت نام ہی سیاسی حرکیات کا ہے ۔ سیاست میں فریقین کی بھرپور موجودگی مستقبل ۔ حال کا تعین کرتی ہے۔ عصرحاضر کے حالات ایک دم اچھی خبر کی طرف لیجاتے ہیں مگر پھر زیادہ تیزی سے بُری خبروں پر رُک جاتے ہیں۔ آمدنی بڑھانے اور اخراجات گھٹانے کی شرائط بُری نہیں ۔ آئی ایم ایف کا وعدہ سیاسی طور پر تو اچھی خبر تھی مگر عوامی نقطہ نظر سے قرض در قرض میں ڈوبی قوم کے لیے زیادہ سخت پھندہ ۔ متذکرہ بالا شرائط بھی پہلی مرتبہ عائد نہیں کی گئیں ۔ حقیقت ہے اور تاریخ شاہد کہ کِسی بھی حکومت نے اخراجات گھٹانے کی شرط پر عمل نہیں کیا۔ آمدن بڑھانے کی صورت ہر مرتبہ یہ نکالی کہ گیس ۔ بجلی ۔ پٹرول مہنگا کر دیا۔ اب کی مرتبہ بھی یہی ہونے جا رہا ہے حالانکہ اگر صرف ’’پروٹوکول‘‘ نصف کر دیں تو مزید ٹیکس لگانے کی کبھی نوبت نہ آئے۔

’’مارکیٹ‘‘ عجیب طرح کے حالات سے دوچار ہے۔ واقعی اشیائے ضروریہ کی کمی ہونے جارہی ہے۔ مہنگائی کا تو اب ذکر ہی بند کردیں پچھلا سب لکھا ’’زیرو‘‘ ۔ مہنگائی کا لفظ صرف دل خوش کرنے واسطے زندہ رکھا جارہا ہے ۔ جس طرف بھی نظر دوڑائیں خوفناک قسم کی بے حسی ۔ لاپروائی ہے ۔’’حق حلال‘‘ تو دہائیاں پہلے ختم ہو چکا تھا۔ اب تو لوگ رشوت، کرپشن کو بُرا نہیں سمجھتے ۔ نجی اداروں سے لیکر قومی تنظیموں تک شخصی راج اور کرپٹ ٹولہ مسلط ہے۔ ایسے میں ’’مڈل کلاس‘‘ کی کون سُنے گا ؟ بدقسمتی سے ہم ساری امیدیں ، توقعات شخصیات سے باندھ لیتے ہیں جو کہ فیصلہ سازی کی صلاحیت سے عاری ہونے کا بہت بڑا ثبوت ہے جبکہ واقعات سے نمٹنے اور حالات کوسدھارنے کا مکمل دارومدار بر وقت ، صحیح فیصلوں پر ہے۔ نہ بات مایوسی کی ہے اور نہ ہی ’’لیڈر شپ‘‘ کی کمزوری کی۔ اصل بات ’’نیت‘‘ کی ہے۔ آج ہمارے جو حالات ہیں وہ سب نیت کی بد خرابی کے نتائج ہیں۔ اگر قوم بھی صاف نیت ہوتی تو نہ کبھی دھوکہ کھاتی اور نہ یوں خوار، دکھی ہوتی۔ اداروں سے لیکر گھروں تک ہم سب قوم ہی ہیں ۔ جو مُرغی میز کے اُس طرف حلال ہے وہ اِس طرف حرام کیوں ؟’’ معیشت ‘‘ کہاں سے کہاں پہنچ گئی کوئی پرواہ نہیں ۔ ساری توانائیاں ۔ صلاحیتیں محض ذاتی اقتدار کے بچاؤ ۔ حصول پر صرف ہونے کی تاریخ ہماری اپنی مرتب کردہ ہے۔ خاندانی اقتدار ہمارا اصل ہدف ہے۔

’’ن لیگ‘‘ ایک وقت میں ترقیاتی کاموں اور عوامی مقبولیت کا ریکارڈ رکھنے والی ملک گیر جماعت کا بلدیاتی الیکشن میں (سندھ) اتنا بُرا حال ۔ ایک پر تمام فریقین کا دھاندلی کا الزام خیر یہ الزامات تو ہماری سیاسی ۔ تنظیمی منشور کا خاصہ بن چُکے ہیں۔ سابقہ سے بھی پہلے یہی اطلاعات تھیں کہ ’’پیپلز پارٹی‘‘ اقتدار میں آئے گی ۔ اب بھی ایسا ہی سُن رہے ہیں شاید یہ نتائج ثبوت کے طور پر ہوں۔ اقتدار کِسی کے بھی پاس آئے وہ عہد کرلے کہ اب کی مرتبہ ’’عوام کی آوازوں‘‘ پر کان دھرنا ہے۔ شعور ۔ حقوق بابت آگاہی میں قوم انتہائی حد تک با خبر اور حساس ہو چکی ہے۔ اِس حد تک کہ پڑھا لکھا طبقہ کِسی کو بھی معاف نہیں کرتا ۔ ہر خبر تک رسائی نے منظر نامہ یکسر بدل دیا ہے ۔ لمحوں میں بات دوسرے ’’براعظم ‘‘ تک پہنچ جاتی ہے۔ اِس مرتبہ پھر لکھوں گی کہ واحد حل صاف الیکشن ہیں مداخلت فری شفاف چُناو ۔ درجنوں مرتبہ پہلے بھی لکھا ۔ یہی حل ہے ہمارے تمام مسائل کا ۔ مزید براں ’’صومالیہ ۔ سری لنکا ‘‘ والی تکرار چھوڑ دیں ۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا ۔ ’’آپ‘‘ کیوں خواہش پال رہے ہیں ۔ اِس طرح کے بیانات خوف و ہراس کا باعث بنتے ہیں۔ اِس لیے ہماری معیشت ڈوبنے تک جا پہنچی ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش ختم ہونی چاہیے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ’’مریم نواز‘‘ کے آنے سے صورتحال اُن کے حق میں جائے گی ۔ یہاں تک کہ ’’ نواز شریف ‘‘ بھی آگئے تو تب بھی ووٹ بینک میں فرق نہیں پڑنے والا۔

اچھا لگتا ہے ؟ ہاں بچے کا جواب تھا کیوں اچھا لگتا ہے ؟ یہ لوگوں کی آوازیں نکالتا ہے کیا نام ہے اِس کا ؟ ’’عمران خان‘‘ ۔ یہ وہ شعور ہے جو آج انتہائی غریب ترین علاقوں کی مفلوک الحال اکثریتی آبادی تک پہنچ چکا ہے۔ اچھا بتاؤ کیا ملطب ہے کہ ’’آوازیں نکالتا ہے‘‘۔ جواب تھا کہ ’’عمران خان‘‘ نے لوگوں کی مدد کی ۔ہماری مصیبتوں کا ترجمان بنا ۔ ہمارے مسائل کو پہلی مرتبہ کِسی نے لگا تار اپنی تقاریر کا حصہ بنایا اس طرح کہ پہلی مرتبہ ہمیں احساس ہوا کہ کوئی ایسا ’’لیڈر‘‘ ہے جو غریب کی زندگی کو گہرائی تک جانتا ہے پورا گاؤں ’’حکمرانوں‘‘ کو پیٹتا ہے جب زیادہ ’’بلز‘‘ آتے ہیں تو گاؤں والے اور زیادہ پیٹتے ہیں۔

چھوٹا سا بچہ جس نے پیدائش کے بعد صرف نرسری کلاس کا منہ دیکھا ۔ اب لوگوں کے گھروں میں صفائی ۔ برتن ۔ کپڑے دھوتا ہے جس نے اپنے ہم عمر بچوں ۔ دوستوں ۔ بھائیوں کے ساتھ چلتے ہوئے تجربات نہیں سیکھے بلکہ اپنے گھر کی غربت مٹانے کے لیے خود مشقت بن گیا۔ اُس کے منہ سے اتنا پختہ ذہن کا جواب سُن کر ذرا بھی حیرانگی نہیں ہوئی ۔ یہ الگ کہانی ہے کہ ’’خان صاحب‘‘ نے کیا کیا ؟ زیادہ دُور کا زمانہ نہیں دیہات ۔ غریب گھرانے دونوں بڑی جماعتوں کے پکے ووٹ تھے ۔ یہ تبدیلی نہیں تو کیا ہے کہ جس ’’ووٹ بینک‘‘ کو امیر گھرانوں کے ماہانہ راشن ۔ سالانہ زکوۃ بھی نہ توڑ پائی وہ ایک ’’26سال‘‘ سے تنہا کھڑے’’ شخص‘‘ نے ممکن کر دکھایا ۔ مسلسل حقائق کے ذریعے قوم کو جھنجھوڑتا رہا کہ آج صرف نرسری کا منہ دیکھنے والا ہماری قومی سیاست پر اتنی موثر بات کرتا ہے کہ میرے کالم کا عنوان بن گئی ۔ تقاضا ہے کہ اب عوام کی آوازیں سنی جائیں ۔ مسائل بڑھانے پر وسائل ۔طاقت ضائع نہ کریں۔ حل کرنے کی طرف آئیں ۔ سب مل جل کر صرف قوم ۔ ملک کا سوچیں ۔ اکٹھا ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ بیٹھ کر متفقہ لائحہ عمل بنائیں ۔ مل جُل کر کام کریں یہی ’’عوام کی آواز ‘‘ ہے۔بشکریہ نوائے وقت

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …