ہفتہ , 20 اپریل 2024

منجمد نہیں، کشمیر دفن ہے

(نعیمہ احمد مہجور)

جموں و کشمیر کے مسئلے کو اگلے 20 برس تک منجمد کرنے کی خبر پر کشمیریوں کا غصہ اور مجروح جذبات دیکھ کر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ شاید وہ اب تک اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ پاکستانی قیادت کشمیر پر کبھی سودے بازی نہیں کرے گی، لیکن پاکستان کی اندرونی سیاسی افراتفری اور دوسری جانب کشمیر کے معاملے پر اداروں کی جملہ حقوق محفوظ پالیسی کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

بھٹو سے لے کر عمران خان تک سبھی سیاست دانوں نے موثر طریقے سے مسئلے کو اجاگر کرنے کی جب جب کوشش کی، تب تب انہیں اپنے اداروں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انڈیا اور پاکستان کے مابین جب بھی کشمیر پر بات چیت ہوئی، سمجھوتہ ہوا یا پھر لین دین پر اتفاق ہوا تو وہ زیادہ تر انڈیا کی سول قیادت اور پاکستان کے اداروں کے درمیان طے پایا ہے۔ پاکستان کی سول قیادت کو کبھی اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ وہ مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔

انڈیا کے ہندوتوا والے جس پروگرام پر گامزن ہیں اس کو دیکھتے ہوئے اگلے دو دہائیوں میں شاید نہ کشمیر رہے گا اور نہ کشمیری۔ پھر یہ مسئلہ خود بخود زمین بوس ہو جائے گا۔

جنرل باجوہ پس پردہ اس مسئلے کو سرد خانے میں رکھ کر انڈیا سے تعلقات بحال کرنے کی سفارت کاری پر کافی عرصے سے مصروف نظر آ رہے تھے، جس کی بھنک بھی عمران خان کی سول حکومت کو نہیں لگنے دی گئی تھی۔

پس پردہ اس سفارت کاری کی سرگوشی مجھے اس وقت ایک عالمی کانفرنس کے دوران سنائی دی، جہاں دونوں ملکوں کے معزز مبصرین کے علاوہ یورپی تھنک ٹینکس کے ماہرین کے درمیان مسئلہ کشمیر پر تبادلہ خیال ہو رہا تھا۔

کشمیریوں کو احساس ہے کہ دونوں ملکوں نے 70 برس سے کشمیر اور کشمیریوں پر کئی تجربے کیے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انڈیا نے اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بے شمار کامیاب تجربے کیے اور پاکستانی اداروں نے اپنی گرفت کمزور کرنے کے تجربے کیے۔

سب سے خطرناک تجربہ کشمیری نوجوانوں کو اسلحہ اور تربیت سے لیس کرنا تھا تاکہ وہ آزادی حاصل کر کے پورے خطے کو پاکستان کی جھولی میں ڈال سکیں۔ اس تجربے نے کشمیر پر ایسا شب خون مارا کہ کوئی گھر نہیں بچا جو تباہی، ہلاکت، زیادتی یا قید کی زد میں نہ آیا ہو۔

کاش پاکستان کے اداروں نے بندوق دینے سے پہلے ہی مسئلہ کشمیر کو منجمد کیا ہوتا تو آج ہر گلی کوچے میں قبرستان نہ ہوتے اور نہ یہ قوم اتنی بکھری ہوئی ہوتی۔

جنرل ایوب کے زمانے سے ہی کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کی باتیں شروع ہوئی تھیں، جب انہوں نے چھ دریاؤں کی بندر بانٹ سے متعلق انڈیا کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال سے معاہدہ کیا، جن میں سے تین دریا کشمیر سے بہتے تھے۔

سندھ طاس معاہدے کے دوران گو بات چیت میں کشمیر کا ذکر رہا لیکن مشرقی پاکستان کے ساتھ مغربی بنگال کی سرحد کے متنازع علاقے بیرباری کو حل کرنے پر پہلے خاصی توجہ مرکوز کر دی گئی۔ انڈیا نے چند سو کلومیٹر پر محیط اس علاقے کو مشرقی پاکستان کے ساتھ ملانے پر فراخ دلی دکھائی تھی۔چند برسوں کے بعد ہی انڈیا نے بیرباری سمیت پورا مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل کر دیا۔

آبی تنازعے اور مشرقی پاکستان کی سرحد پر سمجھوتوں سے جنرل ایوب پنڈت نہرو کی مہربانیوں سے اتنے مرعوب ہو گئے تھے کہ انہوں نے پورے برصغیر بشمول کشمیر کا ’مشترکہ دفاعی نظام‘ تشکیل دینے کی صلاح اور اسے کنفیڈریشن میں منتقل کرنے کا پیغام شیخ عبداللہ کی وساطت سے نہرو کو پہنچایا تھا، جس کی تصدیق گوہر ایوب نے بی بی سی کے ساتھ ایک گفتگو میں کی تھی۔نہرو کا انتقال نہ ہوا ہوتا تو شاید آج مشرقی پاکستان کی طرح مغربی پاکستان کی ہیئت بھی تبدیل ہوئی ہوتی۔

بنگلہ دیش بننے کے بعد کشمیری اپنی تحریک سے دستبردار نہیں ہوئے، دل برداشتہ ضرور ہوئے تھے۔ خدشات تھے کہ شاید بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان نے کشمیر پر بھی ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

ایک دہائی تک خاموشی چھائی رہی۔ دل برداشتہ ہو کر کشمیریوں نے حالات سے سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا تھا۔ اسی بے بسی کے پس منظر میں شیخ محمد عبداللہ 14 برس جیل میں رہنے کے بعد اندرا – عبداللہ سمجھوتے پر مجبور ہو گئے تھے۔

دوسری طرف جنرل ضیا نے کشمیریوں کے بارے میں منصوبہ بندی مکمل کر لی تھی۔انہوں نے جہاں ’افغان جہاد‘ میں کود کر پاکستان کو اسلحہ اور بندوق برداروں سے لیس کرنے کی پالیسی مرتب کی تھی، وہیں کشمیر کے ہر نوجوان کو بندوق چلانے اور اسلحہ دینے پر تیار بھی کر رہے تھے۔

بندوق برداروں کے ہراول دستے کے محبوس رہنما یاسین ملک نے جو انڈیا اور پاکستان سے مکمل آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں، ایک ملاقات کے دوران مجھے کہا کہ ’ہمیں اگر پاکستان، چین یا کوئی تیسرا ملک بھی مدد کرتا ہم اس کے لیے تیار تھے لیکن ہم نے آزاد کشمیر میں بیٹھ کر اپنی مہم چلائی جو ہمارا حصہ ہے، پاکستان نے ہمیں غلط سمجھا یا شاید ہم نے اس کا ارادہ ٹھیک سے بھانپا نہیں تھا۔‘

جنرل ضیا کی بندوق پالیسی کے تقریباً دو دہائی بعد جنرل مشرف نے نہ صرف اسلحے کی منڈیاں بند کر دیں بلکہ جن ہزاروں نوجوانوں کو تربیت کے لیے پاکستان بلایا گیا تھا، ان کو ہتھیار چھوڑنے کا الٹی میٹم بھی دیا گیا۔

بیشتر ایسے ہزاروں نوجوان نہ گھر کے رہے اور نہ گھاٹ کے۔ وہ اپنی شناخت، اپنی زمین اور اپنا نام تک بھول گئے ہیں۔

جنرل باجوہ نے کوئی نیا تجربہ نہیں کیا۔ پرانے تجربے کو ایک بار پھر نئے لبادے میں پیش کرنا چاہا۔ انہوں نے ماضی کو بھول جانے کی ہدایت دی تھی، یعنی جو ہو گیا وہ ہو گیا، حالات سے سمجھوتہ کرنا سیکھ لیں۔ جذباتی کشمیری قوم کو اس وقت بات سمجھ میں آئی جب میڈیا نے کشمیر کو منجمد کرنے کا ڈھنڈورا پیٹا۔

چند روز پہلے انڈین وزیراعظم کو مسئلۂ کشمیر سمیت تمام باہمی مسائل حل کرنے کی دعوت سے متعلق شہباز شریف کے حالیہ بیان سے جس عاجزی کا اظہار ہوتا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ بیان دیتے وقت باجوہ صاحب شہبازشریف کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہے تھے۔

پھر جب وزارت خارجہ کے ترجمان نے شہباز شریف کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قرارداد پر زور دیا تو عوام بالخصوص پاکستانی عوام کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ ادارے بھی اپنی ساکھ بحال کرنے میں لگے ہیں، جو بڑی حد تک مجروح ہو چکی ہے۔

ساکھ بحال کرنے میں ادارے کے پاس شاید کشمیر سے بڑی کوئی شے نہیں جو خود پاکستان کی طرح آج اپنے وجود کو بچانے کی جدوجہد میں تنہا کھڑا ہے۔بشکریہ دی انڈیپینڈنٹ

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …