ہفتہ , 20 اپریل 2024

انڈین نیشنل کانگریس کی ’بھارت جوڑو ریلی‘ کے نقوش

(رپورٹ: جاوید عباس رضوی)

راہل گاندھی نے تقریباً تین ہزار چار سو کلومیٹر کا راستہ پیدل طے کرلیا ہے۔ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو ریلی‘ کنیا کماری سے شروع ہوکر سرینگر کے لال چوک میں اختتام ہوئی۔ ریلی کے دوران لگاتار راہل گاندھی نے بی جے پی اور مودی حکومت کو للکارتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ ملک میں خوف کی سیاست کر رہے ہیں لیکن کانگریس ان کی سیاست کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ بی جے پی کے نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے آئے ہیں۔ گزشتہ ایام جب ریلی لال قلعہ پہنچی تو وہاں راہل گاندھی نے زبردست تقریر کی اور بی جے پی حکومت پر یکے بعد دیگرے متعدد تیر چلائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مودی کی نہیں بلکہ امبانی اور اڈانی کی حکومت ہے۔

انہوں نے حکومت اور میڈیا کی جانب سے ہندو مسلم کرنے پر بھی سخت گرفت کی اور کہا کہ یہ لوگ ہندو مسلم اس لئے کرتے رہتے ہیں تاکہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال سکیں۔ دہلی میں انہوں نے کہا تھا کہ سامنے دیکھیئے یہاں مندر بھی ہے گرودوارہ بھی ہے اور مسجد بھی ہے، یہی ہندوستان ہے۔ خیال رہے کہ لال قلعہ کی جانب سے چاندنی چوک کے داخلی سڑک پر مندر ہے، چند قدم جائیں تو گرودوارہ ہے اور وہیں اسی سے متصل مسجد بھی ہے۔ راہل کے مطابق یہی ہندوستان کی تصویر ہے یعنی یہی فرقہ وارانہ میل ملاپ اور پیار محبت ہی ہندوستان کی شکل و صورت ہے۔ کشمیر پہونچ کر راہل گاندھی نے کہا کہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال ہونا چاہیئے۔

راہل گاندھی کی اس ’بھارت جوڑو یاترا‘ سے تین چار باتیں بہت واضح طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں، پہلی بات یہ کہ ریلی سے راہل گاندھی کا سیاسی قد بہت بلند ہوا ہے۔ مودی حکومت نے ان کی امیج خراب کرانے کے لئے کروڑوں روپے پھونکے تھے اور پوری مشینری لگا کر انہیں ’’پپو‘‘ کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ غیر سنجیدہ اور پارٹ ٹائم سیاستدان ہیں۔ وہ صرف تفریح کے لئے سیاست کے میدان میں آتے ہیں لیکن اب ان کے بارے میں حکومت کی بنائی ہوئی یہ امیج بالکل ختم ہوگئی۔ اب انہیں بھارت کے عوام ایک سنجیدہ سیاستدان کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ بی جے پی کی نفرت کی سیاست کے جواب میں صرف راہل گاندھی کی محبت کی سیاست ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔

دوسری بات یہ ثابت ہوئی ہے کہ کانگریس ایک بار پھر اپنی ان سیاسی جڑوں کی طرف لوٹ رہی ہے جو اس کے خمیر اور ضمیر کا حصہ تھی، جو اس کی سیاست کا بنیادی عنصر تھا، یعنی سیکولرزم اور سوشلزم۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اقتدار میں آتے ہی کانگریس کو ایک ایسے جال میں الجھا دیا تھا جس میں اس کی سیاست کی بنیاد گم ہو کر رہ گئی تھی لیکن راہل گاندھی نے اس جال کو توڑ دیا اور دنیا کو یہ دکھا دیا کہ دراصل کانگریس کی طاقت اس کے سیکولر نظریے میں پنہاں ہے۔ راہل گاندھی سمجھتے ہیں کہ ابھی سیکولرزم کے نام پر کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ بی جے پی نے جو ماحول بنا دیا ہے اس میں سچی بات سننے والے گم ہوگئے ہیں۔

راہل گاندھی جانتے ہیں کہ اگر کانگریس کو اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ واپس پانی ہے تو سیکورلزم ہی واحد راستہ ہے۔ تیسری بات یہ کہ بھارت میں ایسے لوگوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو نفرت اور تقسیم کرنے کی سیاست کو ناپسند کرتا ہے۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ اس سیاست نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بہت سے لوگ بھی ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں شامل ہو رہے ہیں۔ وہ غیر سیاسی لوگ بھی اس میں آرہے ہیں جو اب تک ایسے پروگراموں سے دور رہا کرتے تھے۔ وہ لوگ بھی آرہے ہیں جو اس سے قبل کانگریس پر تنقید کیا کرتے تھے۔ اب وہ بھی یہ بات سمجھنے لگے ہیں کہ آر ایس ایس کی سیاست کا مقابلہ صرف کانگریس ہی کر سکتی ہے۔

چوتھی بات یہ کہ اس ریلی نے حکومت کو خوف زدہ کر دیا ہے، اگر وہ خوف زدہ نہیں ہے تو کم از کم تشویش میں ضرور مبتلا ہوگئی ہے۔ راہل گاندھی کو جو عوامی مقبولیت مل رہی ہے اس نے حکومت کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے۔ اسی لئے وہ کوئی ایسا حربہ ڈھونڈ رہی تھی کہ جس سے ریلی کو روکا جا سکتا تھا۔ اسے کورونا وائرس کے نام پر وہ حربہ مل گیا ہے اور وہ راہل گاندھی سے کہہ رہی ہے کہ یا تو ریلی کے دوران کورونا پروٹوکول کی پابندی کی جائے یا پھر اسے ملتوی کردیا جائے کیونکہ اس کو اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ ریلی کے سرینگر تک جاتے جاتے کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک کی سیاست دوسری کروٹ لے لے۔

بھارتی وزیر صحت نے راہل گاندھی کے نام خط لکھ کر ’بھارت جوڑو یاترا‘ ملتوی کرنے کی بات کہی لیکن اس معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی دوہری سیاست بے نقاب ہوگئی۔ ریلی سے حکومت کی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا اندازہ اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ راہل گاندھی کے بیانات کا جواب دینے کے لئے موجودہ اور سابق وزراء کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ وہ لوگ راہل گاندھی کے سوالوں کے جواب دینے کے بجائے ان سے خود سوال کرنے لگے ہیں۔ مجموعی طور پر ’بھارت جوڑو یاترا‘ بھارت کی تاریخ کا ایک نادر الوجود واقعہ ہے اور ہر سیاسی مبصر اور تجزیہ کار یہ کہتا ہوا نظر آرہا ہے کہ راہل گاندھی نے ہندوستانی سیاست کے سمندر میں جو پتھر اچھالا ہے اس سے زبردست موجیں اٹھ رہی ہیں۔

یہ وہ موجیں ہیں جو مودی حکومت کے روکے نہیں رک رہیں۔ وہ ان کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر ناکام ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ موجیں ایسی طغیانی کی شکل اختیار کریں گی جو آنے والے دنوں میں ہندوستانی سیاست میں اتھل پتھل مچا دیں گی کیونکہ کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ دنوں ’ہاتھ سے ہاتھ جوڑو‘ ریلی کا آغاز کیا جائے گا۔ کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے کہا کہ 26 جنوری سے کانگریس پارٹی کی طرف سے ’ہاتھ سے ہاتھ جوڑو‘ مہم شروع کی جائے گی اور یہ مہم 26 مارچ تک دو ماہ کے لئے جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’ہاتھ جوڑو مہم‘ ’بھارت جوڑو ریلی‘ کا دوسرا مرحلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہاتھ سے ہاتھ جوڑو‘ مہم میں ہمارا ہدف مودی حکومت کی ناکامیوں پر رہے گا اور یہ مہم 100 فیصد سیاسی ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …