بدھ , 24 اپریل 2024

بحرینی قیدی اور آل خلیفہ

(ترتیب و تنظیم: علی واحدی)

یوں تو آل خلیفہ حکومت اپنی آمرانہ حکومت کو نمائشی انتخابات کے ذریعے جمہوری رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ ظاہر کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ بحرین کی سیاسی تقدیر کا تعین کرنے میں عوام اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن ہزاروں سیاسی قیدیوں کے نامساعد حالات نیز صحت اور علاج کی سہولیات کے فقدان نے آل خلیفہ حکومت کی ان کوششوں اور دعووں پر پانی پھیر دیا ہے۔ جمعیت الوفاق بحرین جو کہ بحرینی حکومت کی سب سے بڑی سیاسی مخالف ہے، اس نے سیاسی مخالفین کے خلاف آل خلیفہ کے جرائم کا ایک اور پردہ چاک کیا ہے، تاکہ شاید عالمی برادری اپنی نیند سے بیدار ہو اور اس پر ردعمل ظاہر کرے۔

جمعیت الوفاق نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ بحرین میں سیاسی قیدیوں کو گرفتار کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں طویل عرصے کی قید کی سزائیں دی گئیں، نیز ان کی شہریت چھین لی گئی اور انہیں سیاسی اور سماجی طور پر الگ تھلگ کر دیا گیا، کیونکہ وہ جمہوریت، انصاف، آزادی اور انسانی حقوق کا احترام چاہتے ہیں۔جمعیت الوفاق کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت بحرین میں سیاسی قیدیوں کو جن مسآئل کا سامنا ہے، وہ جرم ہے اور اس سے ان کی جانوں کو سخت خطرہ ہے۔ بحرینی حکومت کی جیلوں میں درجنوں سیاسی قیدیوں کی لیک ہونے والی آوازیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سیاسی قیدیوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ الوفاق نے حکومت کی جیلوں کی سخت اور خوفناک صورت حالت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پانی، علاج، حرارت، ادویات اور سورج کی روشنی سے محرومی نیز اہل خانہ سے رابطہ کی عدم اجازت اور دیگر غیر انسانی مظالم سیاسی قیدیوں کی زندگیوں پر منظم وحشیانہ حملہ ہے، حالانکہ یہ قیدی سیاسی ہیں اور انہیں انسانی حقوق اور سیاسی و انسانی مطالبات اور عوامی آزادیوں کے مطالبہ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔

جمعیت الوفاق نے آل خلیفہ حکومت کی طرف سے اس ملک کے عوام پر مسلط کردہ دباؤ اور گھٹن کو کھلا ظلم قرار دیا ہے۔ الوفاق نے یہ بھی کہا ہے کہ بحرین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر آنکھیں بند کرنا اور تمام مغربی ممالک کی طرف سے آل خلیفہ حکومت کی حمایت کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انسانی جرائم کے مترادف ہے اور اس کو نظر انداز کرنا ناقابل قبول ہے۔ عالمی اداروں کی خاموشی ان جرائم میں ملوث ہونے کے برابر ہے، اس بے حسی کو فراموش نہیں کیا جائیگا۔بلاشبہ انسانی حقوق اور آزادیوں کے مسائل میں بین الاقوامی فریقوں کا یہ موقف ناقابل قبول ہے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب چند روز قبل بحرین کی "جو” جیل کے 678 سیاسی قیدیوں نے "مظلوموں کی فریاد” کے عنوان سے اپنے دستخطوں سے ایک پیغام شائع کیا ہے۔ اس اعلانیہ میں قیدیوں سے انسانی سلوک روا رکھنے اور بنیادی انسانی سہولیات دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

بحرین میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے سرگرم ایک انسانی حقوق کی تنظیم نے حال ہی میں قید تنہائی میں موجود 14 سیاسی قیدیوں پر حملے کی مذمت کی ہے اور سیاسی قیدیوں کے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی اور ان جرائم کے مرتکب افراد کو معافی دینے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ الوفاق کی یہ رپورٹ پچھلی دہائی میں آل خلیفہ کے جرائم کی فہرست کا صرف ایک حصہ ہے۔ اس سے پہلے انسانی حقوق کے اداروں بشمول ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹوں میں نہ صرف سیاسی قیدیوں کے حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی پر بارہا تنقید کی ہے بلکہ اپوزیشن کو سزا دینے کے لیے منصفانہ ٹرائل کا مطالبہ کیا ہے۔

سیاسی قیدیوں کو ان کے بنیادی حقوق یعنی صحت عامہ اور پانی سے محروم رکھنا آج کی دنیا میں ایک ناقابل معافی جرم ہے، لیکن آل خلیفہ نے اپنے مخالفین کے لیے زندگی تنگ کر دی ہے۔ بحرین کے بہت سے سیاسی قیدی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے حق سے محروم ہیں اور "جو” جیل کے قیدی جیل میں ناکافی اور ناقص خوراک کی شکایت کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، 26 بحرینی سزائے موت کے منتظر ہیں، جن میں سے کم از کم 8 کو تشدد اور ناروا سلوک کے ذریعے جبری اعترافات کی بنیاد پر غیر منصفانہ ٹرائلز کے بعد مجرم ثابت کیا گیا اور اتنی بڑی سزا سنائی گئی۔

کرونا وائرس کی وبا کے دوران جب قیدیوں کو طبی امداد کی ضرورت تھی، آل خلیفہ نے سیاسی مخالفین کو اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا، جس کی وجہ سے سیکڑوں افراد اس مہلک وائرس سے متاثر ہوئے اور ان میں سے کچھ جان کی بازی ہار گئے۔ جیلوں میں کورونا کا پھیلنا آل خلیفہ کے لیے ایک اچھا موقع تھا کہ وہ بغیر کسی قیمت کے اپوزیشن سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے اور ان کی موت کو فطری قرار دیکر بیرونی دباؤ کے بوجھ سے بھی نجات حاصل کرلیں گے۔ کورونا کی وباء کے عروج پر سیاسی قیدیوں کے حالات اس قدر تباہ کن تھے کہ انسانی حقوق کے اداروں نے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا، لیکن آل خلیفہ نے اس معاملے میں اپنے انسان دشمن مؤقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ ال خلیفہ حکومت علاج اور صحت کی خدمات سے محرومی کو جیلوں میں اذیت کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے، تاکہ دوسرے مخالفین کو یہ پیغام دے کہ حکومت کی مخالفت سے انہیں بھی یہ مصیبتیں برداشت کرنا پڑیں گی۔

انقلاب کے بعد سے اپوزیشن کو دبانا
فروری 2011ء میں انقلاب کے آغاز کے بعد سے آل خلیفہ حکومت نے وسیع جبر کے ذریعے اپوزیشن کی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس دوران اس نے تمام سیاسی جماعتوں کو تحلیل کر دیا ہے یا ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق بحرین میں تقریباً 15 ہزار افراد کو ان کی سیاسی رائے رکھنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے اور اس وقت تقریباً 4500 سیاسی قیدی انتہائی سنگین حالات میں ہیں اور اس حوالے سے بحرین نے دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بحرین کی آل خلیفہ حکومت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خود مختار معائنہ کاروں کو سیاسی قیدیوں تک رسائی سے روکتی ہے۔ بحرین نے انسانی حقوق کے کارکنوں سے ملاقات کرنے والے امریکی سفارت کاروں کو بھی ناپسندیدہ عناصر قرار دے کر انہیں اس ملک سے نکال دیا ہے۔ انسانی حقوق کی صورتحال کی تحقیق کے لیے غیر ملکی صحافی شاذ و نادر ہی بحرین کا سفر کرسکتے ہیں اور آل خلیفہ نے اس حوالے سے سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، تاکہ اس کے جرائم دنیا میں بے نقاب نہ ہوں، لیکن ان پابندیوں کے باوجود آل خلیفہ حکومت کا ریکارڈ اتنا سیاہ ہے کہ اس کو چھپایا نہیں جا سکتا۔

حالیہ برسوں میں آل خلیفہ کی طرف سے منعقد ہونے والے نمائشی عدالتی ٹرائل کا مقصد رائے عامہ کو دھوکہ دینا تھا، کیونکہ سیاسی مخالفین کے فیصلے کو بادشاہ کے حکم سے پہلے سے لکھ کر سیل کر دیا جاتا تھا۔ اس کی ٹھوس مثال الوفاق کے رہنما شیخ علی سلمان کی سزا ہے، جن پر جاسوسی اور ملک سے غداری کے جھوٹے الزامات لگائے گئے اور انہیں ناکردہ جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس بے تکی سزا پر اہل مغرب نے بھی یقین نہیں کیا۔ 2011ء سے بحرین کے عوام نے حکومتی ڈھانچے میں اصلاحات اور تبدیلی کے مقصد سے آل خلیفہ کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کیا، لیکن آل خلیفہ نے انہیں گرفتار کرکے قید کر دیا اور مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا۔ آل خلیفہ نے اپنی متزلزل حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے کے بہانے سینکڑوں لوگوں کی شہریت بھی منسوخ کر دی ہے۔

انسانی حقوق کے جھوٹے دعویداروں کی خاموشی
سیاسی مخالفین کے خلاف آل خلیفہ حکومت کے جرائم کی طویل فہرست کے باوجود، مغربی ممالک نے اس اہم مسئلے سے آنکھیں چرائی ہوئی ہیں اور اس سے انسانی معاملے میں ان کے دوہرے معیار کا پتہ چلتا ہے۔ امریکی اور یورپی حکام ایران میں بلوائیوں اور فسادیوں کی گرفتاری پر ایسا ہنگامہ برپا کرتے ہیں، گویا تمام انسانوں کے حقوق پامال ہوگئے ہیں، لیکن جب بات خلیج فارس کی مطلق العنان حکومتوں کی ہوتی ہے تو وہ اس صورت حال کو سیاسی عینک سے دیکھتے ہیں اور ان جرائم کو آسانی سے نظر انداز کر دیتے ہیں، تاکہ دو طرفہ تعلقات میں خلل پیدا نہ ہو۔ بحرین میں امریکی پانچویں بحری بیڑے کی لنگر اندازی، جو برسوں سے خطے میں اس ملک کا نگران بن چکا ہے، وائٹ ہاؤس میں انسانی حقوق کے اہلکاروں کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے کافی ہے اور اسی وجہ سے گذشتہ دہائی میں استبدادی حکمران آل خلیفہ کے خلاف واشنگٹن سے کوئی آواز نہیں اٹھی۔

انگلستان جو ان دنوں خلیج فارس میں واپس لوٹنا چاہتا ہے اور خطے میں اپنی سابقہ ​​پوزیشن حاصل کرنا چاہتا ہے، اس نے بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ بحرین میں برطانوی اڈہ بنانے کی اجازت، جو چند سال پہلے دی گئی تھی، اس نے لندن کی انسانی حقوق کی تنقید کو بھلا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل مغرب کی تنقیدی آواز سے راحت پانے والا آل خلیفہ خاندان اپنے مخالفین کے خلاف کسی جرم سے بھی گریز نہیں کرتا۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …