جمعرات , 25 اپریل 2024

ترکی اور عبری عربی مغربی جال

(تحریر: علی حسن حیدری)

علاقائی اور عالمی سطح پر ترکی سازباز کرنے والے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جس کی خارجہ پالیسی کی مستقل خصوصیات پرگماٹزم اور مفاد پرستی ہیں۔ خطے کے ممالک سے تعلقات میں لچک کی خصوصیت کے باعث ترکی کو "کمانے والا کھلاڑی” کہا جاتا ہے جس کی خارجہ اسٹریٹجی مستقل اصولوں پر استوار نہیں ہے اور اس میں موجودہ حالات کے تناظر میں مسلسل یوٹرن کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ 2011ء کے بعد ترکی کا سیاسی رویہ نیز عراق، شام، لیبیا اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم سے متعلق تیزی سے بدلنے والے متضاد فیصلے اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔ اس عرصے میں ترکی نے عرب دنیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات فروغ دینے کی پالیسی ترک کرتے ہوئے ہمسایہ اور دیگر عرب ممالک سے تناو پیدا کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔

انقرہ نے اس عرصے میں شام اور عراق میں شدت پسند گروہوں کی حمایت کر کے ان دونوں ممالک کو بھاری نقصان پہنچایا جبکہ عرب دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات بھی شدید بحران کا شکار ہو گئے۔ اس دوران عراق اور شام کے علاوہ دیگر عرب ممالک جیسے لیبیا، سعودی عرب اور مصر بھی مختلف وجوہات کی بنا پر ترکی سے دور ہوتے گئے اور ان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی چلی گئی۔ عراق، شام، لیبیا اور حتی مصر میں بحران ختم ہونے اور ترکی کی سلسلہ وار ناکامیوں کے بعد انقرہ نے عرب دنیا سے تعلقات بحال کرنے کی پالیسی اختیار کی اور سفارتی تعلقات میں پیدا شدہ کشیدگی اور مشکلات حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نئی پالیسی کی روشنی میں ترک حکمران گذشتہ پالیسیوں کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ تین اہم عرب ممالک یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کے ساتھ تعلقات میں فروغ لانے کے درپے ہیں۔

عرب ممالک کے ساتھ ترکی کے تعلقات کبھی بھی خودمختار حیثیت کے مالک نہیں رہے اور ہمیشہ امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں اور خطے کے متغیر حالات کے تابع رہے ہیں۔ یہ پیروی صرف ترکی کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات تک محدود نہیں ہے بلکہ وسطی ایشیا اور قفقاز سے متعلق ترکی کی پالیسیوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ ترکی کی خارجہ پالیسی کے تابع ہونے کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس میں چھوٹے اتحادی، اصلی کھلاڑیوں سے تعلقات میں پوشیدہ زیادہ بڑے مفادات کی خاطر قربان کر دیے جاتے ہیں۔ ترکی جیسے طاقتور کھلاڑی کی جانب سے یہ اذیت ناک رویہ مختلف عرب ممالک جیسے سعودی عرب، مصر اور لیبیا کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں بخوبی قابل مشاہدہ ہے۔ ترکی اور مصر کے تعلقات 8 برس تک منقطع رہنے کے بعد گذشتہ چند ماہ میں دوبارہ بحال ہونا شروع ہوئے ہیں۔

مصر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے ترکی نے اپنی نظریاتی اتحادی جماعت اخوان المسلمین کی قربانی کر دی ہے۔ یاد رہے اخوان المسلمین کے محمد مرسی مصر میں برسراقتدار تھے جن کے خلاف مصر کے موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی نے فوجی بغاوت کی اور اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اسی طرح ترکی نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، لیبیا، شام اور قطر سے اپنے تعلقات بحال کرنے کیلئے نہ صرف اخوان المسلمین کو قربان کر دیا بلکہ شام اور عراق میں اخوان المسلمین کے ذیلی گروہوں کو بھی قربانی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ شاید ترکی کی جانب سے انجام پانے والی سب سے بڑی قربانی مسئلہ فلسطین اور فلسطینی مزاحمت قرار پائے جو امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم سے دوستانہ تعلقات کیلئے کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ ترکی، امریکہ اور صیہونی رژیم کے مشترکہ تھنک ٹینکس کی جانب سے کیا گیا ہے۔

خطے میں امریکی روڈمیپ کو آگے بڑھانے والے تین اہم کھلاڑیوں یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کے ساتھ ترکی کی جانب سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی خواہش ایک خطرناک کھیل شروع ہونے کی علامت ہے۔ یہ خطرناک کھیل ترکی کی جانب سے کھیلا جا رہا ہے جس کا مقصد مسئلہ فلسطین کو قربان کرنا ہے۔ یہ فیصلہ "نیو مڈل ایسٹ” منصوبے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ یاد رہے نیو مڈل ایسٹ منصوبے کو اسلامی مزاحمت (اسلامک جہاد، حماس اور حزب اللہ) سے عاری مڈل ایسٹ منصوبہ بھی کہا جاتا ہے۔ ترکی، اخوان المسلمین تحریک کی قیادت کا دعویدار ہونے کے ناطے اس انتہائی خطرناک منصوبے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ اگرچہ یہ فیصلہ آزادی اور خودمختاری سے نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوجود الازہر مصر اور ترکی کے علماء اور مفکرین پر عائد بھاری ذمہ داری ختم ہو جانے کا باعث نہیں بنتا۔

آخری نکتہ یہ کہ اگرچہ عرب ممالک سے ترکی کے تعلقات بحال ہونا خوشی کا باعث ہے اور درست راستہ اختیار کئے جانے کی صورت میں اسلامی دنیا اور فلسطین کیلئے بہت زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے لہذا اس کی حمایت کرنی چاہئے لیکن ساتھ ہی ترکی کی سیاسی اور سکیورٹی مجبوریوں اور اس کے اسٹریٹجک مفادات پر بھی توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ انقرہ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ نئی غلطیوں سے نہ کرے۔ عبری عربی مغربی منظرنامے میں ترکی جو کردار بھی ادا کرے گا اس کا فائدہ مکمل طور پر غاصب صیہونی رژیم کو پہنچے گا۔ امریکہ اور اسرائیل کے بنائے گئے منصوبے کے تحت، غاصب صیہونی رژیم اور عرب ممالک میں دوستانہ تعلقات تشکیل پا جانے کے بعد انقرہ کی باری ہو گی اور اسے بھی انصاف و ترقی پارٹی کی حکومت سے پہلے والے ترکی کی جانب واپس پلٹنا ہو گا۔ لہذا ترک حکمرانوں کو جان لینا چاہئے کہ عبری عربی مغربی محاذ کے تیار کردہ میدان میں کھیلنے کا مثبت نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …