جمعہ , 19 اپریل 2024

’آخر ایٹمی توانائی کا حامل پاکستان بجلی کی قلت کا شکار کیسے ہوا؟‘

(ایف ایس اعجازالدین)

23 جنوری کو صبح 7 بج کر 34 منٹ پر ہمارا پورا نیشنل گرڈ ٹھپ ہوگیا اور ملک تاریکی میں ڈوب گیا۔ اس وقت بھارتی وزیرِاعظم مودی کو پاکستان میں داخل ہونے کے لیے شاید صرف ایک ٹارچ کی ہی ضرورت تھی۔

گزشتہ سال پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 43 ہزار 775 میگاواٹ تھی۔ اس میں 26 ہزار 683 میگاواٹ تھرمل (جو نجی شعبے کے پاس ہے)، 10 ہزار 635 میگاواٹ ہائیڈرو الیکٹرک (جو واپڈا کے کنٹرول میں ہے)، ایک ہزار 838 میگاواٹ ہوا، 530 میگاواٹ شمسی توانائی، 369 میگاواٹ بیگاس اور 3 ہزار 620 میگاواٹ بجلی ایٹمی توانائی سے پیدا ہوتی تھی۔ تو آخر ایٹمی توانائی کا حامل ایک ملک بجلی کی قلت کا شکار کیسے ہوا؟

اس صورتحال میں برطانوی لیبر لیڈر اینورین بیون کی طرف سے 1945ء میں کیے گئے ایک مذاق کی یاد آجاتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ جزیرہ بنیادی طور پر کوئلے سے بنا ہے اور مچھلیوں سے گھرا ہوا ہے۔ کوئی ذہین ترین آدمی ہی ایک وقت میں یہاں کوئلے اور مچھلی کی کمی پیدا کر سکتا ہے‘۔

تو وہ کون ذہین لوگ ہیں جنہیں بجلی سے محروم پاکستانی ملک میں بجلی کی قلت کا ذمہ دار ٹھہرا سکیں؟

اس ملک میں کئی توانائی پالیسیاں رہی ہیں لیکن جس پالیسی کے سب سے زیادہ طویل اور منفی اثرت ہوئے وہ 1994ء کی توانائی پالیسی ہے۔ اس پالیسی میں بجلی کے نظام میں ’نجی شعبے کی بڑے پیمانے پر شرکت‘ کی سفارش کی گئی تھی۔ اس سے قبل یہ شعبہ مکمل طور پر واپڈا کے پاس تھا۔ یعنی ملک کو 13 ہزار میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت اور 29 ہزار کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائنیں دینے والے ادارے کی صلاحیتوں پر مزید بھروسہ نہیں کیا جارہا تھا۔ ایک زمانے میں واپڈا کا سب سے اچھا دوست رہنے والا ورلڈ بینک بھی اس پر تنقید کرنے لگا تھا۔

اس کے نتیجے میں واپڈا کے ہاتھ سے تھرمل پاور نکل گئی اور اس کے پاس صرف ہائیڈل ڈیم ہی رہ گئے۔ یہ سستی بجلی تو پیدا کرتے ہیں لیکن انہیں کمیشن ایجنٹس کی توجہ نہیں ملی۔

3 حکومتی عہدے داروں یعنی شاہد حسن خان، تنویر اظہر اور ایم سلمان فاروقی نے نجی شعبے کو شامل کرنے میں بہت تیزی دکھائی۔

اس پالیسی میں منصوبے کے ابتدائی 10 سالوں (ہر منصوبے کے لیے قرض کی مدت پوری ہونے تک) کے لیے بَلک پاور ٹیرف 6.5 سینٹ فی کلو واٹ آور اور اس کے بعد 5.9 سینٹ متعارف کروایا گیا۔

بَلک پاور ٹیرف 2 چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے، ایک توانائی کی قیمت جس میں ایندھن کی لاگت اور آپریٹنگ اخراجات شامل ہوتے ہیں جبکہ دوسری چیز کیپیسٹی پرائس ہے جس میں قرض کو ادائیگی، مقررہ آپریٹنگ اخراجات، دیکھ بھال کے اخراجات اور ایکویٹی (جسے اس وقت اوسطاً 17 فیصد فرض کیا گیا تھا) پر منافع شامل ہوتا ہے۔ بَلک پاور ٹیرف اور ڈیویڈینڈ کی بیرون ملک منتقلی کی ضمانت دی گئی تھی۔

ورلڈ بینک کے حکم پر واپڈا کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نظام کو توڑ کر 12 مقامی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں (ڈسکوز) بنائی گئیں، جن سے ریٹائرڈ فوجیوں کو روزگار ملا۔ ٹرانسمیشن سسٹم کو نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے تحت رکھا گیا تھا۔ اس کمپنی کے خراب ٹرانسمیشن نظام اور چوری سے ہونے والے نقصانات سال 98ء-1997ء میں 21 فیصد تھے جو اب (ڈسکو کے علاقے کے حساب سے) 10 سے 40 فیصد کے درمیان ہیں۔

واپڈا کی مرکزیت ختم ہونے کے بعد کئی ریگولیٹری ادارے وجود میں آئے جن میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) اور پاکستان نیوکلیئر پاور ریگولیٹری اتھارٹی بھی شامل ہیں۔ ذمہ داریاں تقسیم ہوتی گئیں اور احتساب کا نظام سُست ہوگیا۔

آج ملک بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ 2013ء میں یہ قرض 450 ارب روپے تھا۔ 2020ء میں یہ بڑھ کر 2 کھرب 30 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ آج کل یہ گردشی قرض تقریباً 129 ارب روپے سالانہ کے حساب سے بڑھتے ہوئے 4 کھرب 20 ارب کی خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بجلی کی زیادہ پیداواری لاگت، ٹیرف کے تعین میں تاخیر، ٹرانسمیشن اور تقسیم میں غیر معمولی نقصانات، ڈسکوز کی جانب سے ریونیو اکٹھا کرنے میں کوتاہی، حکومت کی جانب سے ڈسکوز اور کے الیکٹرک کو جزوی (اکثر تاخیر سے) ٹیرف ڈیفرینشل سبسڈیز کی ادائیگی، زیادہ مالی اخراجات اور تاخیر سے ادائیگی پر ہونے والے جرمانے گردشی قرض میں اضافے کا سبب ہیں۔

یہ وجوہات نئی نہیں ہیں اور ان کا حل مصیبت زدہ صارفین کے پاس نہیں ہے جو اب تاریکی کے عادی ہوچکے ہیں۔

اکتوبر 2021ء میں حکومت نے پاکستان انرجی ڈیمانڈ فورکاسٹ (2030ء-2021ء) جاری کیا تھا جس میں انٹیگریٹڈ انرجی پلاننگ فار سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ (آئی ای پی) پر توجہ دی گئی تھی۔ آئی ای پی کے مطابق ’ایک آزاد، مسابقتی اور نجی شعبے کی زیرِ قیادت چلنے والا توانائی کا شعبہ طلب میں ہونے والے ممکنہ اضافے کو پورا کرنے کے لیے پائیدار اور کم قیمت ذریعہ بن سکتا ہے‘۔ اس کا مقصد ’تجزیے پر مبنی فیصلہ سازی کے لیے حکومتی اداروں اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی صلاحیت کو بڑھانا‘ تھا۔

آئی ای پی نے 2025ء میں بجلی کی بنیادی طلب 28 ہزار 300 میگاواٹ اور 2030ء میں 33 ہزار 600 میگاواٹ ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ تیل کی طلب 2025ء میں 180 ملین بیرل اور 2030ء میں 205 ملین بیرل ہونے کا امکان ہے جس میں بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہونے والا تیل بھی شامل ہے۔

وزارتِ خزانہ کے منصوبہ ساز ان تخمینوں کو زرِمبادلہ کے اخراجات کا تعین کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ سعودی عرب، قطر اور روس کی حکومتیں ان کو اپنے طویل المدتی منصوبوں میں شامل کرنا چاہیں گی۔

جہاں تک پاکستانیوں کی بات ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ آئی ای پی کی رپورٹ کی کاپیاں جمع کرلیں، شاید 2030ء تک انہیں ہر موسمِ سرما میں انہیں جلانے کی ضرورت پڑے۔بشکریہ ڈان نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …