جمعہ , 19 اپریل 2024

بھارتی یوم جمہوریہ کشمیریوں کیلئے یوم قیامت

(خالد بیگ)

قومی ایام اور تہوار ہر ملک و قوم کے لئے خاص مواقع ہوتے ہیں جنہیں منانے کیلئے خاص اہتمام کیا جاتا ہے، قومی سطح پر تقریبات منعقد کی جاتی ہیں نئی نسل کو اپنے اسلاف کی قربانیوں اور اپنے وطن کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرکے ان کے دلوں میںجذبہ حب الوطنی پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے ماضی میں کی گئی محنت اور بقا ٔکے لئے قربانیوں کو اجاگر کرنا بھی ان ایام کو منانے کاایک اہم مقصد ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ غلامی و نو آبادیاتی نظام سے نجات کاجشن بھی منایا جاتا ہے۔ اس اہم موقع پر دنیا میں کہیں بھی کوئی ریاست اپنے ملک میں آباد اقلیتوں کو ظلم کا نشانہ نہیں بناتی اور نہ ہی مقبوضہ بنائے گئے علاقوں کے لوگوں کو کرفیو لگا کر ان کی زندگی جیل کے قیدیوں سے بھی بدتر بنا دی جاتی ہے۔ اول تو دنیا میں اس وقت دو ہی مظلوم خطے مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر ہیں جو آج کے جمہوری اور انسانی حقوق کی علمبردار دنیا میں بھارت اور اسرائیل کی غلامی کا شکار ہیں ۔ ظلم بھی ایسا کہ جس پر چنگیز اور ہلاکو خان کی روحیں بھی شرما جائیں۔ جمہوریت کی چیمپئن بڑی عالمی قوتوں کی طرف سے منافقانہ طرز عمل کی انتہا یہ ہے کہ وہ کشمیریوں و فلسطینیوں کی تسلسل سے جاری نسل کشی پر بھارت ہو یا اسرائیل ان دونوں ممالک کی فسطائیت کو قابل مذمت ہی نہیں سمجھتیں، اور تو اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں ہوں یا اقوام متحدہ کے اس حوالے سے ذیلی ادارے اب ان کی مقبوضہ کشمیر و فلسطین میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹس کی اہمیت ہی باقی نہیں رہی، نہ ہی اقوام متحدہ میں دم خم ہے کہ وہ امریکہ وبرطانیہ کی مرضی کے خلاف دنیا میں ہر طرح کے قوانین سے بالاتر سمجھے جانے والے بھارت اور اسرائیل کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکے۔

اگر صرف گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران مقبوضہ کشمیر میں وہاں ناجائز قابض بھارتی فوج کی کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر نظر ڈالیں تو 28 کشمیری نوجوانوں کو حریت پسندوں کا سہولت کار اور حمایتی قراردے کر بغیر کسی مقدمہ کے حراست میں لیاجاچکا ہے۔ 5 کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کر دیا گیاہے۔ یہ ساری کارروائی 26 جنوری 2023 ء کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر کشمیریوں کو بھارت کے خلاف روایتی احتجاج سے روکنے کے لئے کی گئی جس میں بغیر اعلان کیے 26 جنوری کا سورج طلوع ہونے سے 24 گھنٹے قبل وہاں کرفیو کا نفاذ شامل تھا۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیریوں نے بھارتی یوم جمہوریہ کو ,,یوم سیاہ،، کے طور پر منانے کی اپنی پرانی روایت برقرار رکھی جو کہ ہمیشہ کی طرح صرف بھارت ہی نہیں ان تمام بڑے جمہوریت کا راگ الاپنے والے ممالک کے چہرے پر زور دار طمانچہ ہے جو اس موقع پر بھارت کو مبارک باد تو دیتے ہیں لیکن انہیں بھارت کی غلامی میں بندوق کے زور پر قیدیوں کی سی زندگی گزارنے والے کشمیری دکھائی نہیں دیتے، کشمیری صرف جمہوریت کے اصولوں کے مطابق زندہ رہنے کا حق مانگتے ہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد چاہتے ہیں جس میں بھارت نے از خود کشمیریوں کے خود ارادیت کے حق کو اقوام متحدہ میں تسلیم کیا تھا۔ ویسے تو پورا سال بھارتی فوج کی مقبوضہ کشمیر میں بربریت جاری رہتی ہے تاہم 26 جنوری کے روز کشمیریوں کا احتجاج اور بھارتی یوم جمہوریہ کو مقبوضہ کشمیر میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جانا بھارت سرکار، بھارتی فوج اور بھارتی پارلیمنٹ سمیت ان تمام بھارتیوں کے لئے انتہائی شرمندگی اور تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ جنہوں نے 80 لاکھ پر مشتمل کشمیریوںکو جمہوریت کے تمام اصولوں کا گلہ گھونٹتے ہوئے انہیں اس طرح غلام بنا رکھا ہے کہ نہ تو وہ حج و عمرہ کیلئے جاسکتے ہیں نہ ہی انہیں دیگر کسی ملک میں جانے کی اجازت ہے کیونکہ انہیں پاسپورٹ کی سہولت ہی حاصل نہیں ۔ وہ اپنے ہی خطے میں ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں جانے کے لیے کام کی نوعیت اور وجہ بتانے اور اپنے ہی شہر میں بیسیوں جگہ موجود ناکوں پر شناخت دکھانے اور تلاشی دینے کے پابند ہیں۔ انہیں ہر وقت گھروں کی تلاشیوں کا سامنا ہے کہ نہ جانے کب ناجائز قابض بھارتی فوج ان کے محلے اورگلی کامحاصرہ کرکے گھر گھر تلاشی شروع کر دے۔ تلاشیوں کے دوران گھر میں موجود نقدی اور خواتین کے زیورات اٹھا کر لے جائے اور خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرے اگر ان کے اس اقدام کے خلاف گھر کا کوئی نوجوان مزاحمت کرے تو اسے بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے جائے ۔

بھارت نے آزادی ملنے کے بعد برطانوی راج کے دوران حکومت ہند ایکٹ 1935ء سے نافذ نظام کو منسوخ کرتے ہوئے 26جنوری 1949ء کی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے نئے آئین کا نفاذ کیا اور بھارت کو سیکولر نظام کے تحت ایک جمہوری ملک ’’ڈکلیئر‘‘ کیا اور ساتھ ہی ہر سال 26جنوری کا دن بھارت میں یوم جمہوریہ کے طور پر منانے اور اس روز عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد ہر سال نئی دہلی میںبھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر بھارتی صدر کی زیر صدارت مرکزی تقریب کا انعقاد کیاجاتاہے۔ دہلی میں اس روز میلے کا سماں ہوتا ہے ۔ تقریبات کا یہ سلسلہ تین روز تک جاری رہتا ہے۔ بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کا مارچ پاس اور جدید ہتھیاروں کی نمائش کی جاتی ہے ۔بھارت کی دیگرریاستوںمیں الگ سے یوم جمہوریہ کی تقریبات منائی جاتی ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا یوم جمہوریت منانے کا خواب آج تک پورانہیں ہوسکا۔ اس کے برعکس صرف مقبوضہ کشمیر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میںجہاں کہیں کشمیری آبادہیں وہاں 26 جنوری کا دن بلیک ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ابتدا میں مغربی دنیا میں ہر جگہ کشمیری اپنے طور پر یوم سیاہ منایا کرتے تھے لیکن اب ,,کشمیر کونسل یور پ ،، تمام مغربی ممالک میں 26 جنوری کو یوم سیاہ منانے کا اہتمام کرتی ہے۔ بھارت نے جنوری 1950ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں 26جنوری کا دن یوم الحاق کے طور پر منانے کا اعلان کیا مگر کشمیریوں نے اسے یوم سیاہ قراردے کر بھارت ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔5اگست 2019ء کو مقبوضہ جموںو کشمیر کو بھارت میںضم کرنے کے بھارتی اقدام کے بعد وہاں ناجائز قابض بھارتی فوج نے بندوق کے زور پر انتہائی بدترین کرفیو کے دوران26جنوری 2020ء کو یوم جمہوریہ منانے کی جو کوششیں کیں کشمیریوں نے اپنی جان کے نذرانے دے کریہ کوششیں ناکام بنادیں ۔ مقبوضہ وادی میںہر طرف، ہر ضلع ، ہر شہر کی ہر گلی میں لاکھوں کی تعداد میں جدید ہلکے خود کارہتھیار وں سے لیس سفاک بھارتی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود کشمیری نوجوان یوم سیاہ منانے اوربھارتی ناجائز قبضے کے خلاف احتجاج کیلئے باہر نکلے۔ ان پر کی گئی براہ ِ راست فائرنگ میں9بچوں سمیت 28کشمیری نوجوان شہید کر دیئے گئے اور زخمیوں کی تعداد 90 بتائی گئی ۔ انٹرنیٹ اورموبائل ٹیلی فون سروس بند ہونے کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں ایک ہی روز کشمیریوں کی شہادتوں کی خبریں باہر آئیں تو عرب نیوز نے اسے ’’یوم خون‘‘ لکھ کربھارتی جمہوریہ کاحقیقی چہرہ بے نقاب کردیا۔بشکریہ نوائے وقت

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …