پیر , 20 مارچ 2023

امریکی ٹینک: اب یوکرین میں

(لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان)

 (حصہ اول)

پاک فوج کی مطالعاتی دنیا میں جب سے آنکھ کھولی یہی سنتے آئے ہیں کہ امریکہ ایک سپرپاور ہے اور اس کی وجہ اس کی عسکری اور اقتصادی قوت ہے۔ آج ہماری اقتصادی قوت جس انداز میں خوار و زبوں ہے اس کا زوال تقریباً ایک سال پہلے شروع ہوا تھا۔ لیکن اس سے بھی سالہا سال پہلے ہمارا یہی رونا دھونا تھا۔ اب آثار نظر آ رہے ہیں کہ ہماری عسکری قوت کو بالآخر اقتصادی قوت کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا۔ اس سرنگونی کا کیف و کم کیا ہوتا ہے اس کا فیصلہ IMF کی ٹیم کے اس دورے کے دوران ہو جائے گا جو کل 31 جنوری سے ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں خفیہ اور اعلانیہ کتابِ دل کی بہت سی تفسیریں لکھی جائیں گی۔ لیکن پاکستان کا اللہ مالک ہے۔ دنیا کی سپر اور ریجنل پاورز IMF کی چلمن کے پیچھے بیٹھ کر اپنی تدبیریں کر رہی ہیں لیکن اللہ بھی ”خیرالماکرین“ ہے۔ اس کے مکر اور اس کی تدبیریں رفتہ رفتہ کھل رہی ہیں۔ یہ سپرپاورز پاکستان جیسے ملکوں میں ایک کھیل، کھیل رہی ہیں اور دوسرا کھیل اُس یورپ میں کھیلا جا رہا ہے جو بزعمِ خود 8عشروں سے اپنے حصنِ حصیں میں محفوظ بیٹھا ہے۔۔۔ اِس کی کچھ تفصیل۔۔۔

امریکی صدر بائیڈن نے بالآخر فیصلہ سنا دیا ہے کہ جدید ترین امریکی ٹینک (ایم ون ابرام) یوکرین بھیجے جائیں گے۔ چند روز پہلے تک امریکی ایڈمنسٹریشن برملا اعلان کر چکی تھی کہ یہ ٹینک ’ہرگز‘ یوکرین نہیں بھیجے جائیں گے۔ اس نہ بھیجنے کی وجوہات کا جائزہ تو آگے چل کر، پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یوکرین میں ان ٹینکوں کی ضرورت کیا ہے۔

ضرورت یہ ہے کہ یوکرین کے اسلحہ گوداموں میں جو بھاری ہتھیار (ٹینک، توپیں، طیارے، آبدوزیں، میزائل وغیرہ)موجود ہیں وہ روسی نژاد ہیں۔ بالعموم باور کیا جاتا ہے کہ روسی اسلحہ، مغربی اسلحہ کے مقابلے میں کم کارگر اور بھاری بھرکم ہے۔ ایک سال تک یوکرین نے مقابلہ کرکے دیکھ لیا ہے اس کے پرانے (یا نئے) ٹینک، روسی ٹینکوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ٹینک کی خوبیوں میں اس کی کراس کنٹری اہلیت (یعنی زمینی نشیب و فراز اور رکاوٹیں عبور کرنے کی اہلیت)، اس کی حرکیت (موبلٹی)، اس کی چادر جس پر انفنٹری ہتھیار اور ٹینک شکن میزائل وغیرہ کارگر نہیں ہوتے، اس کی یلغار کا شور شرابا اور اس کی فائر پاور ہے یعنی اس کی نالی سے جو گولہ فائر کیا جاتا ہے اس کی تاثیر اور اس کی رینج بہت موثر ہے۔

ٹینک پہلی جنگ عظیم کی ایجاد ہے۔ اُن دنوں فرانس میں جرمنی کے خلاف جو اتحادی افواج (برٹش، فرنچ اور امریکن) صف آراء تھیں، وہ ہر محاذ پر رُک کے رہ گئی تھیں۔ وجہ یہ تھی کہ طرفین نے اپنے سامنے خندقیں کھود لی تھیں۔ ان خندقوں پر گھڑ سوار کیولری، توپخانہ اور انفنٹری بے اثر ہو کر رہ گئی تھی۔

1300برس پہلے مدینہ منورہ میں مسلمانوں نے حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مشورے پر جو خندق کھود لی تھی اور جس کی وجہ سے حملہ آور کفارِ مکہ بے نیل مرام واپس چلے گئے وہی خندق اس عالمی جنگ کے اتحادیوں کو یاد آئی۔ چنانچہ یہ خندق کھود لی گئی اور اس نے جرمن کیولری (گھڑ سوار) اور پیدل سپاہ کو روک لیا۔ کئی مہینے گزر گئے۔ طرفین خندقوں میں مورچہ زن رہے اور کوئی بھی فریق ایڈوانس نہ کر سکا۔ اس طریقِ جنگ نے خندقی جنگ و جدل (Trench Warfare)کا نام پایا۔ عسکری ماہرین اور سائنس دان / انجینئرز وغیرہ سرجوڑ کر بیٹھ گئے کہ کیا کیا جائے۔۔۔ آخر برطانیہ نے اس کا توڑ نکالا اور یہ توڑ ”ٹینک“ تھا۔

یہ ٹینک ربڑ کے پہیوں کی بجائے سٹیل کے ٹریک پر موو (Move) کرتا تھا، اس کی چادر اتنی مضبوط تھی کہ اس پر کوئی گولہ/ گولی اثر نہیں کرتی تھی، یہ بلند و پست زمین کو عبور کرتا جاتا تھا اور اس میں ایک توپ بھی نصب کر دی گئی تھی۔ 1917ء میں یہ ٹینک پہلی بار کیمبرائی (فرانس) کے مقام پر استعمال ہوا (قارئین کو اس لڑائی کا احوال ضرور پڑھنا چاہیے۔) یہ نومبر/ دسمبر 1917ء کو فرانس کے ایک مشہور قصبے Cambrai کے مقام پر لڑی گئی اس میں 400 ٹینک استعمال کئے گئے۔ اس وقت تک کسی بھی فوجی نے ٹینک کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ ان ٹینکوں نے آناً فاناً خندقوں میں گھس کر اس جرمن فوج کو تہس نہس کر دیا جو دفاع میں وہاں کئی ماہ سے مورچہ زن تھی۔ اس لڑائی کے بعد ”گھوڑا“ جو صدیوں سے انفنٹری کا ”رفیقِ کار“ تھا، میدانِ جنگ سے خارج اور فارغ کر دیا گیا۔ لاکھوں گھوڑے دنیا بھر کی افواج سے نکال دیئے گئے بلکہ ان کو خود گولیاں مار کر ختم کر دیا گیا۔ اس لڑائی کی ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس میں پہلی بار ہندوستانی سولجرز کو یورپی محاذوں پر استعمال کیا گیا۔ اس وقت تک برٹش انڈین آرمی کے مقامی سولجر پرانے دور کی رائفلوں سے مسلح تھے۔1918ء میں جب یہ جنگ بند ہوئی اور انڈین سولجر واپس گھروں کو لوٹے تو اس جنگ کی بہت سی ”ناقابلِ یقین“ داستانیں بھی ساتھ لائے۔ ہمارے پنجابی اور اردو ادب میں یہ داستانیں (نظم و نثر کی صورت میں آج بھی محفوظ ہیں۔ بہت سے قارئین ان سے واقف ہوں گے)

اس جنگ کے بعد ٹینک کا ارتقائی دور شروع ہوا۔ پہلی عالمی جنگ کے 21برس بعد جب 1939ء میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو پہلی عالمی جنگ کے شکست خوردہ جرمنی نے اسی ٹینک کو میدان میں اتارا۔ اس کے اوپر لڑاکا جرمن طیاروں (سٹوکا) کی اڑانیں چھتر چھاؤں کر رہی تھیں اور ٹینکوں (Panzers) کے جلو میں نازی انفنٹری دستے آگے بڑھ رہے تھے۔۔۔ اس طریقِ جنگ نے ”بلز کریگ“ کا نام پایا۔۔۔ مئی 1940ء کے اختتام تک ہٹلر نے تمام یورپ پر قبضہ کر لیا۔ صرف برطانیہ بچ سکا جو رود بار انگلستان (انگلش چینل) کے پار تھا۔25 میل چوڑی یہ آبی دیوار اگر جرمن ایڈوانس کے سامنے حائل نہ ہو جاتی تو برطانیہ پر بھی سواستیکا (ہٹلر کی نازی جرمنی کا پرچم) لہرا رہا ہوتا!

‘اگر بشریٰ بی بی نے عدت میں نکاح پر توبہ نہیں کی توتجدید ایمان کرنی چاہیے، نکاح خواں مفتی سعید کا بیان
جس سرعت سے ان جنگوں کے وقفے کے دوران، دوسری عالمی جنگ کے فریقین نے ٹینک افواج کھڑی کیں وہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔ جولائی1943ء میں روس میں کرسک (Krusk) کے مقام پر جو ٹینک بیٹل لڑی گئی وہ آج تک دنیا کی سب سے بڑی ٹینک بیٹل کہلاتی ہے جس میں 9ہزار ٹینکوں نے حصہ لیا اور جس میں جرمنی کے مقابلے میں روس نے فتح حاصل کی۔

1945ء میں جب اتحادیوں کی فتح کے بعد امریکہ نے 1950ء میں کوریا کی جنگ شروع کی تو اس میں جو ٹینک استعمال کیا گیا، اس کا نام پیٹن (Patton) تھا۔ یہ ٹینک اس وقت دنیا کا جدید ترین ٹینک تھا لیکن اس کی ٹیکنالوجی بھی پیچیدہ ترین تھی۔1953ء میں جب یہ جنگ ختم ہوئی تو امریکہ نے اپنے وہ سینکڑوں ٹینک جو مرورِ ایام سے متروک ہو چکے تھے، سمندر میں غرقاب کرنے کی بجائے پاکستان جیسے ملکوں کے حوالے کر دیئے۔1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اسی ٹینک نے پاکستان کو ایک بڑی فتح سے محروم کر دیا!

پیٹن ٹینک کی ٹیکنالوجی خاصی نازک اور پیچیدہ (Sophisticated) تھی جس پر پاک آرمی کی آرمرڈ کور، ہنوز ٹریننگ پا رہی تھی کہ یہ جنگ سر پر آ گئی۔ انڈیا کے 4ڈویژن نے دریائے بیاس میں پانی چھوڑ دیا اور یہ بھاری بھرکم پیٹن، کیچڑ اور دلدل میں پھنس کے رہ گئے۔ انڈین آرمی کے ٹینک شکن دستوں نے ان کو نشانے پر رکھ لیا اور درجنوں پاکستانی پیٹن برباد کر دیئے۔ اس جگہ کو انڈیا اب ”پیٹن نگر“ کے نام سے موسوم کرکے باہر سے آنے والے سیاحوں کو دکھاتا اور اپنی پیشہ ورانہ برتری کی ڈینگیں مارتا ہے۔

امریکہ دریں اثناء اس ٹینک کو برتر اور بہتر ٹینک ٹیکنالوجی سے لیس کرتا رہا۔ 1980ء کے عشرے کے وسط میں امریکہ نے ”ابرام ٹینک“ پاکستان کو آفر کئے۔ ان کا ڈیمو (مظاہرہ) دیکھنے کے لئے ضیاء الحق بہاولپور گئے تھے اور واپسی میں ان کا سی 130حادثے کا شکار ہو گیا۔ بہر کیف یہ ٹینک، پاکستان آرمی نے لینے سے انکار کر دیا۔ ان واقعات کی تفصیل کی ایک تاریخ ہے جس میں گھسنے کا یہ محل نہیں۔۔۔ اب یہی ایم ون ابرام ٹینک یوکرین کو دیئے جا رہے ہیں

(جاری ہے)۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

بشار الاسد کی سفارتکاری

(تحریر: سید رضی عمادی) روس کے دورے کے بعد بشار الاسد غیر متوقع طور پر …