(نسیم شاہد)
معذرت خواہ ہوں کہ میری پیش گوئی غلط ثابت ہوئی میں نے کہا تھا 31 جنوری آنے والا ہے، پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا جبکہ حکومت نے 29 جنوری کی صبح ہی دونوں کی قیمت میں 35,35 روپے فی لٹر کا اضافہ کر دیا یوں وہ دو دن جو غریب عوام کو بچت کے لئے مل سکتے تھے نہ مل سکے اور معروف معنوں میں پٹرول بم چل گیا یہ اوگرا بھی بہت شرارتی محکمہ ہے یہ ایسی افواہ چھوڑتا ہے کہ سارا نظام ہل جاتا ہے۔ خبر آئی تھی کہ اوگرا نے حکومت کو پٹرول کی قیمتوں میں 83 روپے فی لٹر اضافے کی تجویز دی ہے۔ اس طرح پٹرول کی قیمت تقریباً 310 روپے فی لٹر بنتی تھی اس خبر نے سوشل میڈیا پر گردش کرنا شروع کیا تو سب سے پہلے پٹرول بم مافیا چوکنا ہوا، اس کے بعد عوام میں بے چینی پھیلی، لوگ تیل ذخیرہ کرنے کو نکل کھڑے ہوئے ادھر پٹرول پمپ مالکان نے فروخت کم کر دی، پٹرول پمپوں پر لمبی لمبی قطاریں لگنے لگیں چھوٹے شہروں میں پٹرول نایاب ہو گیا۔ چونکہ ملک میں اس وقت حکومت یا انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں اس لئے بجائے پٹرول کی فراہمی کو یقینی بنانے اور نئی قیمتوں کا اطلاق قواعد کے مطابق یکم فروری سے کرنے کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس الزام سے بچنے کیلئے ملک میں پٹرول ختم ہو گیا ہے دو دن پہلے ہی نئی قیمتوں کا اطلاق کر دیا۔ یوں خزانے میں اربوں روپے آنے کی سبیل بھی پیدا ہو گئی اور سب نے دیکھا کہ قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ہی پٹرول پمپوں پر تیل بھی ملنا شروع ہو گیا۔ ہمارے ہاں نظام حکومت اور یہ ہے منافع خور مافیا کا حال سب کو صرف دولت کمانے کی پڑی ہے کسی کو اخلاقی قدروں اور ایمانداری کی فکر نہیں۔
بعض حلقوں کا خیال ہے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں تو دو چار دن پہلے ہی بڑھانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا مگر درمیان میں مریم نواز کی وطن واپسی آ گئی اگر ان کی واپسی سے پہلے پٹرول و ڈیزل مہنگے ہو جاتے تو استقبال کی چکا چوند ماند پڑ سکتی تھی اس لئے اس اضافے کو مؤخر کیا گیا اور جب وہ خیریت سے لاہور لینڈ کر گئیں ایک بڑا استقبال بھی ہو گیا تو قیمتیں بڑھا دی گئیں اسے کہتے ہیں باغباں بھی خوش رہے اور خوش رہے صیاد بھی چلو زیادہ نہ سہی مریم نواز کی وجہ سے عوام کو دو چار دن کا ریلیف تو مل ہی گیا موجودہ حالات میں تو اتنا ہی کافی ہے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اوگرا کی تجویز کے مطابق اضافہ نہیں کیا گیا اور یہ بھی مریم نواز کی وجہ سے ہوا ہے تاکہ ان کی جو رابطہ عوام مہم شروع ہوئی ہے اس پر پٹرول مہنگا کرنے کا بڑا سایہ نہ ڈالا جائے، بس عوام کے لئے اب یہ چھوٹے موٹے ریلیف ہی رہ گئے ہیں کسی بڑے ریلیف کی وہ توقع نہ کریں سوشل میڈیا پر تو یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ یکم فروری کو مزید اضافہ ہو سکتا ہے، میرا نہیں خیال کہ اسحاق ڈار دو دنوں میں دو بار ٹی وی پر آکر نیا چہرہ ایسے اعلان کے لئے دکھائیں گے پھر تو لوگ انہیں اسحاق ڈار کی بجائے اسحاق ڈرا کہنے لگیں گے جن کے ٹی وی پر آتے ہی عوام کی رہی سہی جان بھی نکل جاتی ہے کہنے کو اضافہ صرف 35 روپے کا ہوا ہے مگر صاحبو ذرا ٹھہرو دیکھنا یہ اضافہ مختلف اشیاء میں منتقل ہو کر کیا قیامت ڈھاتا ہے ڈیزل کی قیمت بڑھی ہے تو ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جائیں گے بلکہ یہ سطور جب آپ پڑھ رہے ہوں گے تو بڑھ چکے ہوں گے، پہلے ہی تاجر طبقہ ڈالر مہنگا ہونے کا بہانہ بنا کر قیمتوں میں دن رات اضافہ کر رہا ہے اب پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہونے کا بہانہ بھی ہاتھ آ گیا ہے۔ سبزیاں، پھل، آٹا، چینی، دالیں، گھی، انڈے، مرغی، بجلی، گیس غرض سب کچھ اب مزید مہنگا ہو جائے گا۔ 35 روپے بڑھے ہیں تو کہیں 350 بڑھیں گے اور زیادہ چھلانگ لگی تو 3500 بھی بڑھا دیئے جائیں گے جس طرح پٹرول پمپ مالکان کو قیمتیں بڑھنے سے بیٹھے بٹھائے کروڑوں روپے کا فائدہ ہوا ہے اسی طرح مختلف اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے دکانداروں کے بھی وارے نیارے ہو جاتے ہیں پستا وہی ہے جس کی محدود آمدنی ہے اور جو اپنا بوجھ آگے منتقل نہیں کر سکتا ان میں تنخواہ دار طبقہ اور دیہاڑی دار مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
کل ہی ایک کھانے پر مختلف شعبوں کے احباب موجود تھے ان میں ایک سینئر پولیس افسر بھی تھے ان سے پوچھا گیا کہ جرائم کی تعداد میں ہوشربا اضافہ کیوں ہو گیا ہے کیا پولیس بے بس ہو گئی ہے یا اس کی گرفت نہیں رہی میرے ساتھ بیٹھے ہوئے کالم نگار اظہر سلیم مجوکہ نے تڑکا لگایا کہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی نے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان ان کی ترجیح ہے اور صوبے میں جرائم پر قابو پانا پولیس کی ذمہ داری ہے کیا موجودہ حالات میں پولیس ان کی توقعات پر پورا اتر سکتی ہے اس دوست پولیس افسر نے کہا بھائیو! میرا نام نہ کہیں لینا مگر میں دیانتداری سے کہہ رہا ہوں کہ موجودہ حالات میں پولیس چاہے آپ امریکہ جیسی بھی لے آئیں وہ جرائم کو نہیں روک سکتی ان کا کہنا تھا کہ بے روز گاری اور مہنگائی نے خاص طور پر نوجوانوں کو موجودہ صورتحال سے بددل کر دیا ہے، انہیں کوئی راہ نظر نہیں آ رہی کہ وہ اپنا اور اپنی فیملی کا ہاتھ کیسے بٹائیں جتنے بھی ملزمان پکڑے جاتے ہیں ان میں زیادہ تر تعداد پڑھے لکھے نوجوانوں کی ہوتی ہے سٹریٹ کرائمز میں بھی اسی لئے اضافہ ہو رہا ہے کہ غربت اور بے روز گاری نے قانون شکنی کو ایک آسان راستہ بنا دیا ہے، جس کے ذریعے اپنی محرومیاں دور کی جا سکتی ہیں سادہ سا اصول ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری بڑھے گی تو جرائم میں بھی اضافہ ہو گا، دنیا کے مہذب ممالک میں اسی لئے بے روزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے کہ بے روزگار آدمی منفی سوچوں کا شکار ہو کر غلط راستے پر چل نکلتا ہے۔
ہمارے ہاں اس پہلو پر سوچنے کی کسی کے پاس فرصت نہیں، اس وقت واضح طور پر عوام اور خواص کی سوچ میں ایک گہرا تفاوت موجود ہے عوام کو روٹی دال اور روزگار کی پڑی ہے اور خواص اس لہر میں ہیں کہ سیاست کیسے کرنی ہے عوام پر اپنا قبضہ کیسے برقرار رکھنا ہے ملک کا مستقبل کیا ہے کسی کو کوئی فکر نہیں کوئی روڈ میپ ہے اور نہ منصوبہ کہ جس پر عملدرآمد کر کے ہم اس بحران سے نکل سکیں جس کا اس وقت شکار ہیں سیاسی روڈ میپ نظر آتا ہے اور نہ اقتصادی، پس چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے والی کیفیت ہے حکومت یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے، معاہدہ ہوگا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ بڑی غلط فہمی ہے کہ آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لئے حکومت جو ہتھیار ڈال چکی ہے ان کے اثرات سے عوام کو نکالنے کے لئے ہی کئی سال چاہئیں ہوں گے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کیسے آئے گا اس طرف تو کسی کی توجہ ہی نہیں کہنے کو یہ الیکشن کا سال ہے مگر حکومت کے اقدامات سے لگتا ہے کہ وہ الیکشن میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، الیکشن نہیں ہوں گے تو بے یقینی کیسے ختم ہو گی، بے یقینی ختم نہ ہوئی تو سیاسی استحکام کیسے آئے گا سیاسی استحکام کے بغیر معیشت کیسے بہتر ہو گی؟ گویا سب کچھ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے لیکن سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے متحارب کھڑی ہیں ان میں رابطے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی۔ حتیٰ کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی اسی حوالے سے اپنی کوششوں کی ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں، مجھے بھی کالم لکھتے ہوئے 40 برس ہو گئے ہیں۔ بڑے سرد و گرم زمانے دیکھے ہیں، مارشل لاء کے ادوار بھی اور جمہوریت کے زمانے بھی مگر کبھی ایسے تاریک حالات نہیں دیکھے جو آج نظر آ رہے ہیں صرف یہی نہیں کہ مہنگائی عروج پر ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ ایک مایوسی ہے جو ہر طرف نظر آ رہی ہے۔بشکریہ ڈیلی پاکستان
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔