ہفتہ , 20 اپریل 2024

امریکی ٹینک: اب یوکرین میں

(لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان)

( پارٹ ۲)

انسان نے بھی کیا روپ بہروپ دھار رکھا ہے۔ 6اور 9 اگست 1945ء کو جاپان کے دو بھرے پُرے شہروں کو آنِ واحد میں خاک و خون میں نہلا دینے کے بعد بھی امریکہ کی ہوسِ ملک گیری ختم نہ ہوئی۔ وہ دوسری عالمی جنگ کا واحد فاتح اتحادی تھا لیکن 1952ء میں اس کے ایک بڑے جرنیل ڈگلس میکارتھر نے کوریا کی جنگ کے دوران اس وقت کے صدرِ امریکہ ٹرومین سے مطالبہ کیا کہ شمالی کوریا کی مدد کرنے والی چینی فوج پر ایٹمی حملہ کر دیا جائے۔ اس کا استدلال تھا کہ اس کوریا وار کو ختم کرنے کے لئے یہ جوہری حملہ ناگزیر ہے۔ تاہم ٹرومین نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد ایک برطانوی جرنیل نے بھی اپنے ایک لیکچر میں یہی ”علاج“ تجویز کیا۔ فیلڈ مارشل منٹگمری نے یہ لیکچر 1954ء میں دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر مستقبل کی گرم جنگوں کا خاتمہ کرنا ہے تو نیٹو کو نیوکلیئر وار کی طرف جانا پڑے گا۔۔۔ کوشش کروں گا کہ اس لیکچر کا کچھ احوال آنے والے ایک دو کالموں میں عرض کروں۔ اس زمانے میں منٹگمری نیٹو کا ڈپٹی سپریم کمانڈر تھا۔ لیکن نیٹو افواج کے سربراہوں نے اس تجویز کو رد کر دیا۔ پھر بھی اس مغربی انسان کی حرص و ہوا کا اندازہ کیجئے کہ اس نے 1954ء کے بعد بھی کئی بار مختلف گرم و سرد محاذوں پر مختلف برسوں میں جوہری حملے کا ارادہ کیا جسے کارکنانِ قضا و قدر کسی نہ کسی بہانے / تدبیر سے ناکام بناتے رہے۔

سونے میں سٹے بازی، پاکستان میں قیمت 50 ہزار روپے زیادہ مقرر کیے جانے کا دعویٰ
گزشتہ برس 24فروری کو روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ مغربی طاقتوں (NATO) نے بظاہر اس کا ذمہ دار روس کے صدر پوٹن کو ٹھہرایا حالانکہ پوٹن تو اس جوہری حملے کی پیش بندی کر رہا تھا جو یوکرین کی راہ ماسکو پر کیا جانے والا تھا۔ یہاں بھی تقدیرِ خداوندی آڑے آئی اور اس نے کائنات کو اس قیامت سے بچا لیا جو جوہری جنگ کی صورت میں نازل ہونے والی تھی۔ جنرل ڈگلس میکارتھر اور فیلڈ مارشل منٹگمری کے زمانے میں روس، (1949ء میں) کامیاب جوہری دھماکے کر چکا تھا اور اگر 1952ء یا 1954ء میں امریکہ اور روس کے درمیان جنگ ہو جاتی تو قیامتِ کبریٰ نہ سہی، قیامتِ صغریٰ تو ضرور برپا ہو جاتی جو آدھی عالمی آبادی کو نیست و نابود کرنے کے لئے کافی تھی۔

امریکہ اور نیٹو، اوائل 2022ء میں روس پر آخری وار کرنے کے قریب پہنچ گئے تھے کہ پوٹن نے ’پہل‘ کر دی اور کہا کہ آؤ اگر جوہری قیامت برپا کرنی ہی ہے تو دیکھ لیتے ہیں۔ یہ دھمکی کام کر گئی اور ابھی تک کر رہی ہے۔ کوئی یورپی یا امریکی سپاہی یوکرین میں نہیں آ سکا اور نہ ہی ان کا کوئی طیارہ یوکرینی فضاؤں میں پہنچ سکا ہے۔۔۔ یہ ایک حیرت انگیز منظر (Phenominon) ہے۔ امریکی، برطانوی اور فرانسیسی جرنیل ایک تسلسل سے روس پر جوہری یلغار کے داعی تھے لیکن جب روس نے سنجیدگی سے فیصلہ کر لیا کہ اگر مٹنا ہی ہے تو سب کو مٹا کر مٹنا چاہیے۔ لیکن صدر پوٹن کے مخالفین پھر بھی باز نہیں آ رہے۔ وہ اپنی افواج تو یوکرین نہیں بھیج رہے لیکن جنگی ہتھیار بڑے تواتر سے خفیہ راستوں سے یوکرینی دارالحکومت کو بھیجے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی یوکرینی آرمی کو بھی ہلہ شیری دی جا رہی ہے کہ روس کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکو۔

مغربی فورسز کے ماضی کے بعض جرنیلوں کے برعکس، عسکری امور کے دوسرے ماہرین یہ کہتے اور لکھتے چلے آئے ہیں کہ جوہری جنگ سے پہلے غیر جوہری جنگ ہوگی اور انسان جب اپنے روائتی ہتھیاروں کا ذخیرہ ختم کر لے گا تو اس کے بعد ہی جوہری گودام گھر کی طرف نظر دوڑائے گا۔۔۔ ان کا یہ تجزیہ درست معلوم ہوتا نظر آ رہا ہے۔۔۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے اب تک جن روائتی ہتھیاروں کو یوکرین بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ان میں راکٹ، طیارہ شکن میزائل، بکتر بند لڑاکا گاڑیاں (AFVs)، 155ایم ایم بور کی توپیں، فضائی دفاع کی پیٹریاٹ بیٹریاں اور ان سب کا گولہ بارود شامل ہے۔ اب یوکرینی فوج کے پاس جو اسلحہ آ رہا ہے اس میں یہ ہتھیار موجود تو ہیں لیکن ان کے گولے (Shells) مطلوبہ تعداد میں موجود نہیں۔ جنگ ہو رہی ہو تو ان گولوں کی تعداد بڑی تیزی سے خرچ ہوتی ہے جس کو پورا کرنے کے لئے اتنی تیزی ہی سے ایمونیشن لاجسٹک سپورٹ کی کوششیں کی جاتی ہیں جو کی جا رہی ہیں۔

لیکن مغربی فورسز، یوکرین آرمی پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ اپنے اُن مشرقی صوبوں (ڈونسک اور کریمیا وغیرہ) پر قبضہ کر لے جن پر روس نے حال ہی میں قبضہ کیا ہے (کریمیا پر تو روس نے 2014ء ہی میں قبضہ کر لیا تھا) یوکرئن اب یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ایسا کرنے کے لئے جدید ترین ٹینکوں کی ضرورت ہے۔ ان جدید ترین مغربی ٹینکوں میں برطانیہ کا چیلنجر۔2، جرمنی کا لیوپولڈ۔2، فرانس کا لیک لیرک اور امریکہ کا ایم ون ابرام شامل ہیں۔

ان تینوں چاروں ٹینکوں کی ٹیکنالوجی اتنی جدید اور پیچیدہ ہے کہ یوکرینی فوج ان کو آپریٹ کرنے سے قاصر ہے۔ یوکرینی سولجرز تو ٹی۔72، ٹی۔80 اور ٹی۔90 برانڈ کے ٹینکوں پر ٹریننگ پائے ہوئے ہیں جبکہ امریکہ اور یورپی ممالک کے ٹینکوں کی ٹیکنالوجی، یوکرینی اور رشین ٹینکوں سے کہیں آگے اور بہتر ہے۔ امریکہ اور جرمنی کو یہ ڈر بھی ہے کہ اگر ان کے یہ ٹینک، روسیوں کے ہاتھ لگ گئے تو وہ ان کی کاپی کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور اس طرح مغربی گراؤنڈ فورسز کے اس اہم ہتھیار (ٹینک) کی برتری (بمقابلہ روس) ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ امریکہ نے تو ابھی گزشتہ ہفتے تک ایم ون ابرام دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ یوکرینی صدر نے جب حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا تھا تو جدید اسلحہ جات میں بالخصوص اس ٹینک کو یوکرین بھیجنے کی درخواست کی تھی جسے امریکی محکمہ دفاع نے رد کر دیا تھا۔البتہ یہ کہا تھا کہ جرمنی کا لیوپولڈ۔2ٹینک، ہمارے ابرام کے تقریباً برابر ہے۔ چنانچہ جرمنی پرزور دیا گیا کہ وہ اپنے ان ٹینکوں کو یوکرین کے حوالے کر دے۔تاہم جرمنی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ جرمن وزیرِ دفاع اور چانسلر کا کہنا تھا کہ جب تک امریکہ اپنا ایم ون ابرام یوکرین کو نہیں دیتا، جرمنی بھی ایسا نہیں کرے گا۔

یورپ کے بہت سے ملک جرمنی کا لیوپولڈ۔2 استعمال کرتے ہیں۔ تقریباً2000 جرمن ٹینک ان ملکوں کی افواج کے زیرِ استعمال ہیں۔ امریکہ نے جرمنی کو کہا کہ وہ اگر اپنے ہاں تیار کردہ ٹینک، یوکرین نہیں بھیجتا تو ان یورپی ممالک کو اجازت دے دے کہ جن کے پاس یہ ٹینک ہیں اور جو جرمنی کی اجازت کے بغیر کسی اور ملک کو نہیں دیئے جا سکتے۔ نہ صرف ان ٹینکوں کی ٹیکنالوجی بلکہ ان کے گولے بھی خاص قسم کے بارود سے بنائے جاتے ہیں اور یہ بارود، خود جرمنی ان ملکوں کو سپلائی کرتا ہے۔

امریکہ نے عاجز آکر یوکرین کو اپنا صرف ایک ایم ون ابرام بھیجنے پر رضامندی ظاہر کر دی تھی تاکہ اتمامِ حجت ہو سکے۔ لیکن جرمنی نے یہ ”فیاضانہ پیشکش“ مسترد کر دی اور کہا کہ امریکہ کم از کم ایک بٹالین (31 ٹینک) یوکرین بھیجے۔ اس پر امریکی وزیر دفاع اور وزیرخارجہ نے سرجوڑ لیا اور صدر بائیڈن کو مشورہ دیا کہ یہ بٹالین بھیج ہی دی جائے۔ چنانچہ بائیڈن صاحب کو یہ شرط ماننی پڑی اور یہ ٹینک اب یوکرین بھیجے جائیں گے اور ان کی ٹریننگ کے لئے خصوصی امریکی عملہ بھی اپنے ہاں یوکرینی عملے کو بلوا کر یہ ٹریننگ دے گا۔

یہ امریکی ٹینک اتنی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے کہ امریکی آرمرڈ کور، اپنے ٹینک ڈویژنوں سے یہ ٹینک، یوکرین بھیجنے پر راضی نہیں۔ اس کے لئے ٹینک ساز کمپنی (جنرل ڈائنا میکس) کو نئے آرڈر دے دیئے گئے ہیں کہ وہ 31نئے ابراہم تیار کرے جن کو یوکرین بھیجا جا سکے۔ لیکن ان کی تیاری کے لئے تین سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ یہ ٹینک جب یوکرائن کی طرف روانہ ہوں گے تو تبھی جرمن لیوپولڈ۔2 بھی روانہ کئے جائیں گے۔ امریکہ اور جرمنی بہت سے امور میں ایک دوسرے کے ساتھ متفق بلکہ گھی کھچڑی ہیں۔ لیکن رقابت کا اندازہ کیجئے کہ جرمن وزارتِ دفاع اپنے اس اسلحہ پر کتنی نازاں اور بضد ہے۔ (تازہ ترین خبروں کے مطابق جرمنی نے اپنے 14لیوپولڈ۔2 ٹینک، یوکرین بھیجنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے)۔

یہ شبہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکہ نے جن نئے ٹینکوں کا آرڈر دیا ہے ان میں وہ جدید ٹیکنالوجی (کماحقہ اور تمام تر) منتقل نہیں کی جائے گی جو امریکی آرمرڈ یونٹوں کے ٹینکوں میں موجود ہے!۔۔۔

قیاس کن ز گلستانِ من، بہارِ مرا

اور قارئین گرامی! ذرا تصور کیجئے وہ سینکڑوں ٹینک اور دوسرے اسلحہ جات جو امریکی اور یورپی ممالک عرب ممالک کو فروخت کرکے اپنے تیل کے لیجروں کو ’برابر‘ کرتے ہیں ان کی جنگی کارکردگی بوقتِ جنگ کس کمتر معیار کی ہوگی!!(ختم شد)بشکریہ ڈیلی پاکستان

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …