پیر , 27 مارچ 2023

سانحہ پشاور۔ خطرے کی گھنٹی

(نسیم شاہد)

پشاور پھر لہو لہو۔ ایک مرتبہ پھر اللہ کے گھر کو نشانہ بنایا گیا، ظہر کی نماز پڑھتے نمازیوں میں گھسے ہوئے خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اُڑا دیاآخری اطلاعات تک شہید ہونے والوں کی تعداد92 تک پہنچ گئی اور زخمیوں کی تعداد ایک سو سے بھی زیادہ ہے۔دہشت گردی کا عفریت پھر سر اُبھار رہا ہے،اس بزدلانہ حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ اس کا مطلب ہے جن سے ہم امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ مذاکرات کے ذریعے امن لانے میں اپنا کردار ادا کریں گے وہ دوسری طرف کھڑے ہیں اور انہیں پاکستان کے آئین، قانون اور سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے پشاور میں آرمی چیف کے ہمراہ زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں کو کچل دیں گے،ریاست کی رٹ کو چپے چپے پر برقرار رکھیں گے،صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پروگرام پر پوری طرح عملدرآمد کیا جائے گا،ارے بھائی! ایسے بیانات تو اب زخموں پر مرہم کی بجائے نمک بن کر تکلیف دیتے ہیں پچھلے کچھ عرصے میں مختلف شہروں میں دہشت گردی کے دو درجن سے زائد واقعات پیش آ چکے ہیں۔خانیوال کے نزدیک حال ہی میں سی ٹی ڈی کے دو افسروں کو نشانہ بنایا گیا، سنا ہے مارنے والا قاتل بھی کل مارا گیا مگر اُن کی رسائی ہر جگہ کیسے ہو جاتی ہے۔ پشاور کی جس مسجد میں خود کش دھماکہ ہوا وہ پولیس لائنز میں ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے آئی جی سے یہ سوال بالکل بجا پوچھا ہے کہ دہشت گرد وہاں تک پہنچا کیسے؟ جس کا آئی جی خیبرپختونخوا نے یہ عجیب جواب دیا کہ ممکن ہے وہ پہلے سے ہی پولیس لائنز کے کسی گھر میں موجود ہو،گویا پہلے وہ داخل ہو سکتا تھا جو اُسے وہاں تک گھسنے کی چھوٹ دے دی گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ یہاں صرف سکیورٹی ہائی الرٹ کا جھانسہ دیا جاتا ہے وگرنہ دہشت گرد جہاں چاہتے ہیں واردات کر کے نکل جاتے ہیں یہ دھماکہ ایسے وقت میں ہوا جب خیبرپختونخوا میں نگران صوبائی حکومت ہے اگر پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی تو وفاقی وزراء نے آسمان سر پر اُٹھا لینا تھا کہ ساری سکیورٹی زمان پارک بھجوا دی گئی ہے، خیبرپختونخوا کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ہمیں اس خوش فہمی سے نکل آنا چاہئے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی ختم ہو جاتی ہے۔کچھ عرصے بعد پھر آتی ہے جب تک ہمارے دونوں ہمسائے بھارت اور افغانستان دہشت گردی کے خلاف ہمارا ساتھ نہیں دیتے دہشت گردی کا امکان موجود رہے گا۔ ٹی ٹی پی ہمارے لئے ایک بڑا چیلنج ہے افغانستان کی طرف سے یہ روایتی سا بیان آ جاتا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے،حقیقت اس کے برعکس اور افغانستان سے دراندازی کا سلسلہ جاری ہے یہ خود کش حملہ آور بھی لازماً افغانستان سے پشاور آیا ہو گا اور وہاں سے پشاور تک آنے میں اُس کے سہولت کار بھی جا بجا موجود ہوں گے،یہ کام نیٹ ورک کے بغیر ممکن نہیں اور یہ ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی ہے کہ ایسے نیٹ ورک بروقت ٹریس نہیں ہوتے اور کوئی سانحہ ہو جاتا ہے۔ماضی قریب میں سکیورٹی اداروں کے افسروں اور اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا، پشاور کا یہ واقعہ پہلا بڑا سانحہ ہے جس میں سول و سکیورٹی ادارے کے افراد بڑی تعداد میں جاں بحق ہوئے۔نشانہ یہاں بھی پولیس تھی اور انتخاب اِس بار بھی ایسی جگہ کا کیا گیا جو پشاور پولیس کا مرکز ہے۔ یہ دہشت گردوں کی مضبوط اور مربوط رابطہ کاری کا نتیجہ ہے کہ وہ ایسی جگہوں کو بھی نشانہ بنانے میں کامیاب رہتے ہیں جو سکیورٹی کا مرکز کہلاتی ہیں،ذرا سوچئے کہ دہشت گرد اگر ایسے مقامات پر بآسانی پہنچ جاتے ہیں تو عام پبلک مقام پر انہیں پہنچنے سے کون روک سکتا ہے۔گذشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک خود کش بمبار اپنے ہدف سے پہلے گاڑی میں خود کو اڑانے پر اس لئے مجبور ہوا کہ پولیس اُس گاڑی کے پیچھے لگ گئی تھی، وزیر داخلہ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس خود کش بمبار کے سہولت کاروں تک پہنچیں گے مگر بعد میں کچھ معلوم نہیں ہوا معاملہ کہاں تک پہنچا۔

ہر واردات کے بعد بیانات کی مالا جپنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا ایسے بیانات پر دہشت گرد اور کالعدم ٹی ٹی پی والے یقینا ہنستے ہوں گے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عفریت سے نمٹنے کے لئے وقت ضائع کئے بغیر واضح پالیسی کا اعلان کیا جائے۔وزیراعظم نے نیشنل ایکشن پروگرام کو دوبارہ متحرک کرنے کا اعلان کیا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس پروگرام سے صرفِ نظر کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا ہم جن حالات اور جغرافیائی مسائل میں گھر ہوئے ہیں اُن میں کوئی سوچ سکتا ہے کہ پاکستان میں بیرونی مداخلت اور دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ بلاشبہ فوج نے مسلسل جدوجہد کے ذریعے دہشت گردی کو کم کیا اور حالات بہتر ہوئے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حالات اب نارمل ہو گئے ہیں، ایک لمحے کے لئے بھی ہم غافل نہیں ہو سکتے کیونکہ دشمن ہماری طاق میں ہے اسے جب موقع ملتا ہے وہ گھناؤنا وار کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسے سانحات کو بھی سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔گورنر خیبرپختونخوا سے لے کر وفاقی وزراء تک پشاور سانحے کے بعد یہ سوال پوچھتے رہے کہ کیا ایسے حالات میں انتخابات ہو سکتے ہیں۔ درمیان میں انتخابات کا ذکر کہاں سے آ گیا؟ کیا انتخابات نہ ہونے سے دہشت گردی رک جائے گی اور ہونے سے بڑھ جائے گی یہ معاملہ سکیورٹی اور داخلی پالیسی کا ہے اُس پر توجہ دی جانی چاہیے،یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ حکومت دہشت گردی کو بھی الیکشن سے فرار کا ایک بہانہ بنانا چاہتی ہے ایسی باتوں سے ایک تقسیم پیدا ہو گی اور اِس وقت قوم کو تقسیم کی نہیں اتحاد کی ضرورت ہے۔

دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پروگرام پر ایک قومی اتفاق ر ائے پیدا ہونا چاہیے بہتر یہ ہو گا کہ حکومت اس حوالے سے ایک قومی کانفرنس بلائے اور اُس میں عمران خان کو بھی دعوت دے۔عمران خان کو بھی چاہئے کہ وہ ایسی کسی کانفرنس کا بائیکاٹ نہ کریں اور اُس میں شامل ہو کر اپنی رائے کا اظہار کریں،ایک قومی کانفرنس کے بعد یہ طے کیا جائے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے ہیں اور کرنے ہیں تو کن شرائط پر، دہشت گردوں کو قومی یکجہتی کے ذریعے ایک واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے، سکیورٹی کے اداروں کو مزید چوکنا، فعال اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف سیاسی عمل کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف متحد اور پُرعزم ہے اور ایسی وارداتوں سے اُس کے حوصلے پست نہیں کئے جا سکتے۔ایک بڑا سوال یہ ہے کہ ایک عرصے بعد دہشت گردی نے زور کیوں پکڑا ہے، اس کے اسباب میں کیا ہمارے اداروں کی کمزوریاں ہیں یا پھر وفاقی حکومت کا قصور ہے کہ اُس نے قبائلی علاقوں میں ضم کرنے کے بعد انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔پشاور سانحہ ایسا نہیں کہ جسے معمول کی دہشت گردی سمجھ کے بھلا دیا جائے۔ اس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جس پر توجہ نہ دی گئی تو دہشت گرد ملک کے دیگر شہروں کو بھی نشانہ بنائیں گے اور ہم لکیر پیٹتے رہ جائیں گے۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

ایران پاکستان گیس پائپ لائن کیا کبھی مکمل ہوگی؟

(رپورٹ: ایم سید) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے گزشتہ ماہ ہونے …