پیٹرو ڈالر – یعنی سعودی تیل – کو سنہ 1980ع کی دہائی سے امریکی ڈالر کی پشت پناہ کے طور متعین کیا گیا تھا لیکن اوپیک کے تیل کی پیداوار پر سعودیہ اور امریکہ کے درمیان حالیہ اختلافات نے پیٹروڈالر کو عمل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ابنا کی رپورٹ کے مطابق امریکی تجزیہ نگار پال کریگ رابرٹس (Paul Craig Roberts) نے کہا ہے کہ مختلف ممالک کے سرمایوں کی ضبطی اور ان پر پابندیاں لگانے پر مبنی امریکی مالیاتی پالیسیوں نے ڈالر کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے۔
روسی خبر ایجنسی سپوٹنک کی رپورٹ کے مطابق، امریکی اقتصاد دان اور رونلڈ ریگن کے دور میں وائٹ ہاؤس کے اعلی اہلکار پال کريگ رابرٹس نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ "اگر سعودی عرب اور تیل کے ذخائر رکھنے والے دوسرے ممالک پٹروڈالر کو ترک کر دیں کہ تو یہ واقعہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لئے المناک نتائج کا حامل ہوگا۔
جملہ معترضہ:
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف کہتے ہیں کہ امریکہ نے اپنے ڈالر کے ذریعے تمام حدود کو پامال کرکے رکھ دیا ہے اور ڈالر بہت جلد دیوالیہ ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مختلف ممالک کی طرف سے قومی کرنسیوں میں تجارت امریکہ کے جارحانہ اقدامات کا نتیجہ ہے جس نے ڈالر کے ذریعے شرافت کی حدود کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حادثاتی واقعہ نہیں ہے کہ آج مختلف ممالک قومی کرنسیوں کی طرف رجحان کی باتیں کرتے ہیں۔ کون جانتا ہے کہ امریکی صدر کس دن صبح کو بائيں جانب سے اٹھتے ہیں اور کس کو پسند یا ناپسند کرتا ہے۔ برازیل اور ارجنٹائن کے سربراہان اس وقت دو طرفہ کرنسی متعین کرنے کے امکان پر بات چیت کر رہے ہیں اور وہ اگلے مرحلے میں آگے بڑھ کر لاطینی امریکہ اور کیریبینز کی متحدہ ریاستوں کے لئے مشترکہ کرنسی قائم کرنے کے درپے ہیں۔ ادھر برازیل کے نومنتخب صدر لولا ڈا سلوا (Lula da Silva) نے تجویز دی ہے کہ اس مسئلے کو برکس (BRICS) کے دائرے میں زیر بحث لایا جائے۔ چنانچہ یہ ایک علاقائی نقطۂ نظر نہیں ہے بلکہ ایک عالمی رجحان ہے کیونکہ یہ موٹا سوال درپیش ہے کہ جس مالیاتی ماحول میں امریکہ اپنے ڈالر کے ذریعے تمام قابل تصور حدوں کو پامال کرتا ہے، وہاں اس کے سوا کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ چنانچہ یہ عمل اب شروع ہو چکا ہے۔
پال کریگ رابرٹس ایک امریکی اقتصاددان ہیں، وہ سنہ 1980ع کے عشرے کے امریکی صدر رونلڈ ریگن کی انتظامیہ میں نائب وزیر خزانہ اور ریگن معیشت کے نظریہ سازوں میں شامل تھے۔ وہ نیشنل پالیسی، نیشنل ریویو، ٹائمز (لندن)، وال اسٹریٹ جرنل اور فیگارو کے لئے مضمون لکھتے ہیں۔
پال کريگ رابرٹس لکھتے ہیں:
سعودی عرب نے ڈالر کے بغیر دوسری کرنسیوں میں تیل کی قیمتیں وصول کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جو ایک اہم خبر ہے لیکن امریکی ذرائع ابلاغ نے اسے نظرانداز کردیا ہے۔
سرمایوں کی ضبطی اور پابندیاں لگانے کے مقصد سے وضع کردہ امریکی مالیاتی پالیسیوں نے ڈالر کی پوزیشن کو کمزور کردیا ہے۔
آج بہت سے ممالک بین الاقوامی تجارت میں قومی کرنسیوں کے استعمال کی طرف رغبت دکھا رہے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کی طرف کے ممکنہ خطرات سے بچنا چاہتے ہیں۔
اگر سعودی عرب ڈالر کو ایک طرف رکھ دے، تو امریکی کرنسی کی مانگ نیز ڈالر کی قدر میں کمی آئے گی اور یہ واشنگٹن کی بالادستی اور امریکی بینکوں کی مالیاتی طاقت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ امریکی ڈالر کو پیٹرو ڈالر – یعنی سعودی تیل – کو سنہ 1980ع کی دہائی سے امریکی ڈالر کی پشت پناہ کے طور متعین کیا گیا تھا لیکن اوپیک کے تیل کی پیداوار پر سعودیہ اور امریکہ کے درمیان حالیہ اختلافات نے پیٹروڈالر کو عمل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
چین آج ہی دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جو سعودی عرب سے تیل اور گیس خرید رہا ہے؛ اور اقتصاددانوں کی رائے یہ ہے کہ اگر چین کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا جائے کہ وہ سعودی تیل کی قیمت اپنی قومی کرنسی "یوآن” میں ادا کرے تو دنیا بھر کی منڈیوں میں ڈالر کے بطور زر مبادلہ کے تبادلوں میں 35 فیصد کمی آئے گی۔ اور دنیا میں پہلی معیشت کے طور پر امریکہ کی پوزیشن خطرے میں پڑ جائے گی اور دنیا کی منڈیوں میں امریکی ڈالر کی بالادستی کے زوال کا عمل شروع ہو جائے گا؛ کیونکہ عین ممکن ہے کہ چین کے بعد دوسرے ممالک بھی ڈالر کے سوا دوسری کرنسیوں میں لین دین کرنا چاہیں جیسا کہ سعودی عرب چین کے ساتھ یوآن کو بطور زر مبادلہ استعمال کرنا چاہتا ہے۔بشکریہ ابنا نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔