بدھ , 24 اپریل 2024

خوف کے بھنور میں ڈوبے یہودی غاصب

(ترجمہ: فرحت حسین مہدوی)

"المیادین” چینل کی ویب گاہ نے اپنے ایک تجزیئے میں، دریائے اردن کے مغربی کنارے میں صہیونی فوجیوں کی بے مثل تعیناتی کی خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مغربی کنارے میں دو تہائی صہیونی فوج کی تعیناتی کا مقصد فلسطینیوں کی مزاحمتی کاروائیوں سے نمٹنا ہے؛ کیونکہ مقبوضہ یہودی بستیوں کے رہائشی خوف اور بدامنی کے بھنور میں ڈوب گئے ہیں۔

کمزور صہیونی فوج اور بنیامین نیتن یاہو کی منتشر کابینہ کے باہمی صلاح مشوروں کا مضحکہ خیز نتیجہ یہ ہے کہ "یہودیوں کی سلامتی کے تحفظ کے لئے ہر فلسطینی کے مقابلے میں ایک سپاہی تعینات کیا جائے”۔

مسلسل مزاحمتی کاروائیاں اور صہیونیوں کو گہرا صدمہ

غاصب فوج نے قدس شریف میں "خیری اللقم” اور فلسطینی اسیر "محمد علیوات” کی دو کاروائیوں کے بعد، مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنی نفری کو تقویت پہنچانے کی غرض سے دو مزید یونٹیں تعیناتی کا اعلان کیا جو صرف ایک معمولی سا واقعہ اور ایک وقتی فیصلہ نہیں تھا۔ چونکہ یہ فیصلہ مغربی کنارے میں فوجی نفری میں اضافے کا باعث بنا اور اس کے نتیجے میں یہودی فوج کا 60 فیصد حصہ مغربی پٹی میں تعینات کیا گیا، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ فیصلہ جعلی صہیونی ریاست کے فوجی اور سیکورٹی نظامات کے ہاں کے متوقعہ خطرات کی عظمت کی عکاسی کرتا ہے۔

لیکن سب سے زیادہ اہم مسئلہ – جو غاصبین کی سیکورٹی اور فوجی سطح پر کمزور اور نازک صورت حال کے دائرے کے اندر نمایاں ہوتا ہے – مغربی کنارے پر صہیونیوں کے کنٹرول کا فقدان ہے؛ یہ علاقہ – اعتقادی پہلو سے قطع نظر – مقبوضہ فلسطین کے مرکزی شہروں کے ساتھ جڑا ہؤا ہے اور صہیونیوں کی سیکورٹی مشینری میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ مسئلہ غاصب ریاست کی سلامتی پر نظرانداز ہونے کے لئے، فلسطینیوں کے ہاتھ میں بہت اہم اوزار سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ صہیونی ریاست اس علاقے میں اپنی فوج کو تقویت پہنچا کر، بدامنی کی صورت حال اور مختصر وقت کے چیلنج سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے تا کہ مغربی کنارے سے جنم والے خطروں کا سد باب کر سکے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ غاصب یہودی فوج سیف القدس کی فلسطینی کاروائی (سنہ 2021ع‍) کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنی فوجی نفری میں اضافہ کر رہی ہے؛ بلکہ اس نے اس علاقے میں اپنی یونٹوں اور بٹالینوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ سنہ 2022ع‍ کے آغاز میں صہیونی فوج کا 55 فیصد حصہ اس علاقے میں تعینات کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں حالیہ فروری کے مہینے میں صہیونی ریاست نے "امواج شکن” کے عنوان سے اپنی کاروائی کا اعلان کرنے کے بعد اپنی مزید 55 یونٹوں اور سرحدی افواج کی 16 یونٹوں کو مغربی کنارے میں تعینات کیا۔

نفری میں اضافہ، ایک سطحی اور ظاہری حکمت عملی

مورخہ 28 فروری 2022ع‍ کو مغربی کنارے اور سنہ 1948ع‍ کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے درمیان حائل دیوار کے ساتھ متعین نفری کو تقویت پہنچانے کے لئے چار نئی یونٹیں روانہ کر دیں۔ ایک ماہ بعد، اس وقت کے وزیر جنگ "بینی گانٹز” نے مغربی کنارے میں 15 یونٹوں کی تعیناتی کا فیصلہ کیا جن میں اسنائپر (دور سے نشانہ لے کر گولی چلانے والے) اور خصوصی یونٹیں بھی شامل تھیں۔ اس نے اسی اثناء میں 1000 فوجیوں کو پولیس میں شامل کر دیا جن کو پولیس کی مدد کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔ وزارت جنگ اور داخلی سلامتی کی وزارت کی تمرینی (مشقی) کارروائیوں کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ سرحدی فورس کے لئے نئی بھرتی عمل میں لائی جائے اور انہیں مطلوبہ وسائل سے لیس کرکے مغربی کنارے میں تعینات کیا جائے۔ ایک ہفتہ بعد گانٹز نے تین مزید یونٹیں بھجوا کر مغربی کنارے میں اپنی افواج کو تقویت پہنچانے کا فیصلہ کیا!

گانٹز نے اپنے مذکورہ اقدامات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ 12 اپریل کو حائل دیوار کے پاس اپنی نفری کو تقویت پہنچانے کے لئے مزید دو یونٹوں کی تعیناتی کا فیصلہ کیا۔ گذشتہ سال ماہ رمضان میں صہیونی فوج کو پورا ایک مہینہ ہوشیار باش رکھا گیا۔ سپیشل فورسز کی 1000 سے زائد نفری کو فلسطینیوں کے مزاحمتی اقدامات اور شہادت طلبانہ کاروائیوں کے خوف سے سنہ 1948ع‍ کی مقبوضہ علاقوں اور تل ابیب میں تعینات رکھا گیا اور گذشتہ سال کے آخری مہینوں میں غاصب صہیونی فوج اور کنیسٹ (صہیونی پارلیمان) کی کمیٹی برائے جنگ و خارجہ تعلقات، نے سپاہیوں کی ریزرو سروس کی مدت میں اضافہ کرنے کی درخواست دائر کردی! [= فلسطین پر 75 سال غاصبانہ قبضے کے باوجود عدم استحکام کا عینی نمونہ، تو کیا ایسے غیر مستحکم غاصب نظام کو بحیثیت ایک ریاست تسلیم کرنا حماقت نہیں ہے؟]

بینی گانٹز سے بن گویر تک، بدامنی سے نمٹنے کے لئے سپاہیوں کا ڈھیر لگانا

یہودی ریاست کے مذکورہ اداروں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں مزید ریزرو یونٹوں کی تعیناتی کا مطالبہ کیا تھا؛ حالانکہ فوجی سروس کا قانون ہر تین سال ایک بار ایک مکمل ریزرو یونٹ حاضر کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن یہ ادارے اس قانون سے عبور کرنا چاہتے تھے۔ کچھ دن پہلے بھی "سرحدی گارڈ” کی فورسز کی تعیناتی کے لئے غاصب ریاست کے داخلی سلامتی کے تشدد پسند وزیر "ایتمار بن گویر” کے منصوبے کی رو سے مغربی کنارے میں صہیونی افواج کی تعداد میں خاصا اضافہ ہؤا ہے۔ وہ سرحدی فورس کو "نیشنل گارڈ” نام کی نئی فورس کے طور پر بروئے کار لانا چاہتا تھا؛ اور سرحدی فورس کی نفری مقبوضہ قدس شریف اور 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقے میں تعینات تھی۔

مغربی کنارے سلامتی کی ناگفتہ بہ صورت حال اور بے چینی کی کیفیت اور بالنتیجہ، اس علاقے میں فوجیوں کی بے تحاشا تعیناتی کی بنا پر غاصب افواج معمولی کی فوجی نفری کی تربیت روکنے پر مجبور ہوئیں اور ریزرو فوجیوں کو طویل مدت کے لئے حاضر کرکے، ان کی ذمہ داریوں کا دائرہ وسیع تر کردیا۔ غاصب فوج نے حالیہ ایک سال کے عرصے میں 66 یونٹوں کو – تربیتی مراحل طے کرنے کے لئے نہیں بلکہ – میدانی کاروائیوں میں شرکت کے لئے مغربی کنارے میں بلا لیا۔ ان یونٹوں میں سے بعض کو مغربی کنارے سے دوسرے علاقوں کی طرف بھی بھیج دیا گیا۔

لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ ان سارے حفاظتی اور احتیاطی انتظامات اور افواج کی تقویت کے باوجود، مزاحمتی کاروائیاں نہ صرف رکی نہیں بلکہ ان کاروائیوں میں زبردست اضافہ بھی ہؤا۔ کاروائیوں میں شدت اور پچھلی اور اگلی کاروائیوں کا فاصلہ شدت سے گھٹ گیا اور فلسطینی مجاہدین کسی بھی صہیونی اقدام کا جواب فوری طور پر غاصب یہودیوں کی نوآباد بستیوں میں دے دیتے ہیں۔ چنانچہ موجودہ صورت حال تیسری انتفاضہ تحریک کے آغاز سے مماثلت رکھتی ہے۔

غاصب فوجیوں کی نفری میں اضافے کے اسباب

صہیونی سیکورٹی اداروں کا تخمینہ یہ ہے کہ مقبوضہ قدس شریف کے نواح کی یہودی نوآبادی "نبی یعفوب” میں فلسطین نوجوان کی کامیاب کاروائی کی وجہ سے مغربی کنارے کے درجنوں نوجوانوں کو اسی قسم کی کاروائیاں کرنے کی ترغیب ملی ہے؛ چنانچہ صہیونی مغربی کنارے میں فوجی نفری میں زبردست اضافہ کرکے اپنی زد پذیری کو کم کرنے کی [ناکام] کوشش کر رہے ہیں۔

تل ابیب کے سلامتی کے نظامات اس حقیقت سے واقف ہیں کہ مقاومت و مزاحمت کی شکلیں ان کے تجزیوں اور تخمینوں کی حد سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مستقبل میں کاروائیاں کرنے والے فلسطینی مجاہدین کے منصوبے ان کی توقعات سے ماوراء ہیں اور ان کی کاروائیاں بھی غیر متوقعہ ہونگی۔

چنانچہ مقبوضہ نوآباد بستیوں میں سے کوئی بھی اگلی کاروائیوں کا میدان بن سکتی ہے؛ مغربی کنارے میں، جہاں بھی صہیونی فوجی اور جارح بستی نشین ہونگے، انہیں ممکنہ فلسطینی مزاحمتی کاروائیوں کا سامنا ہوگا۔ اسی بنا پر بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ کے بعض اراکین کو کہنا پڑا ہے کہ "نئی کاروائیوں کا انسداد کرنے کے لئے ہر فلسطینی شہری پر ایک یہودی فوجی تعینات کرنے کی ضرورت ہے!”۔

حقیقت یہ ہے کہ صہیونی رائے عامہ کو پرسکون بنانے اور صہیونیوں کے درمیان امن و سلامتی کا احساس ابھارنے کا حل نکالنے میں تل ابیب کے سیاسی اور سیکورٹی حکام کی درماندگی اور عاجزی چھپانے کے لئے مغربی کنارے اور مقبوضہ قدس شریف میں زیادہ سے زیادہ نفری کی تعیناتی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیونکہ دوسرے راستوں پر گامزن ہونے کے لئے زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

بنیامین نیتن یاہو نے اس بار دائیں بازو کی جماعتوں اور مذہبی عناصر کا اتحاد بنا کر انتہائی تشدد پسند حکومت بنائی ہے اور ساتھ ہی صہیونی فوج بھی مختلف سیاسی سطحوں پر پہلے سے کہیں زیادہ انتہاپسند بن گئی ہے چنانچہ اس کو پہلے سے زیادہ فلسطینی مزاحمتی کاروائیوں کی توقع ہے؛ وہ فلسطینیوں کو مشتعل کرکے ان کی طرف سے شدید رد عمل کی توقع رکھتے ہیں۔ جنین کیمپ میں شدید ظالمانہ اور جارحانہ اقدام، اس حقیقت کا بڑا ثبوت ہے کہ نیتن یاہو کابینہ نے فلسطینیوں پر دباؤ بڑھانے اور زیادہ سے سے زیادہ جرائم کے ارتکاب کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے اور یوں وہ فلسطینیوں کا شدید رد عمل دیکھنا چاہتی ہے۔

ادھر غاصب فوجی حکام جانتے ہیں کہ مغربی کنارے میں فوجی نفری میں اضافے اور فلسطینیوں کو مسلسل دباؤ کے بغیر آزاد چھوڑنے کی صورت میں، درمیانی مدت میں، مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔

وہ جانتے ہیں کہ بے چینی بڑھائے بغیر، مغربی کنارے میں مقاومت کے نظریئے کو تقویت ملے گی، محمود عباس ابو مازن کی سربراہی میں [نام نہاد اور بے اختیار] خودمختار اتھارٹی کمزور پڑ جائے گی اور اس علاقے میں "عرین الاُسُود” اور "جنین یونٹس” جیسی مزید فوجی تنظیمیں معرض وجود میں آئیں گی۔

وہ جانتے ہیں کہ فلسطینیوں کی نسل بدل گئی ہے اور فلسطینی نوجوانوں کی نئی نسل برسوں سے صہیونی فوج کی قائم کردہ سیکورٹی ترتیبات پر غلبہ پا چکی ہے۔

جعلی یہودی ریاست کے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ – اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ مقبوضہ یہودی رہائشی بستیوں میں کوئی بھی مزاحمتی کاروائی غاصبوں کے لئے بہت مہنگا اور مقاومت کے لئے انتہائی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے اور اس صورت میں تل ابیب کی طرف کے رد عمل کے اوزاروں کو کافی حد تک محدود کیا جا سکتا ہے، – مقبوضہ مغربی کنارے سے باہر سرگرم عمل مقاومتی تنظیموں کی طرف سے مغربی کنارے کے باشندوں کو تحریک دلانے یا ان پر دباؤ لانے اور انہیں یہودی ریاست کے خلاف بغاوت پر راغب کرنے کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔

بہر صورت، یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ غاصب صہیونیوں کے ان عجلت زدہ اور غیر معقول منصوبوں کے منظر عام پر آنے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کہ فلسطین غاصب ریاست کے قابو سے باہر ہو چکا ہے اور صہیونیوں کی یہ پیشن گوئی درست ہے کہ اسرائیل نامی ریاست اپنا 80واں یوم تاسیس نہیں دیکھ سکے گی۔بشکریہ ابنا نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

 

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …