جمعرات , 25 اپریل 2024

یوم یکجہتی کشمیر، کبھی تو مظلوم کی سنی جائے!!!!!

(محمد اکرم چوہدری)

تمام پاکستانی ہر سال پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں- یہ دن منانے کا مقصد لاکھوں مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی ہے، یہ دن منانے کا مقصد ناصرف کشمیریوں سے اظہار یکجہتی ہے بلکہ اس کا مقصد دنیا کو بھارتی افواج کے مظالم سے آگاہ کرنا، دنیا کی توجہ دلانا بھی ہے، ویسے تو دنخا جانتی ہے کہ بھارت نے طاقت کے زور پر لاکھوں کشمیریوں کے لیے زندگی مشکل بنا دی ہوئی ہے، لاکھوں مسلمانوں کو کلمہ پڑھنے کی سزا دی جا رہی ہے، لاکھوں مسلمانوں کو آزادی کی نعمت سے محروم رکھا ہوا ہے۔ لاکھوں کو انسانوں کو طاقت کے زور پر جیل میں بند کر دیا ہے، نہ وہاں انسانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے، نہ مسلمانوں کو مسجد میں جانے کی اجازت ہے، نہ وہ امام بارگاہ جا سکتے ہیں، نہ وہ رمضان المبارک میں آزادی سے عبادت کر سکتے ہیں، نہ عید کی نمازیں پڑھ سکتے ہیں، نہ انہیں مذہبی آزادی حاصل ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ بھارتی افواج نے ناصرف مذہبی آزادی کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ خواتین کی عصمت دری، اجتماعی زیادتی، بچوں پر ظلم، نوجوانوں پر تشدد کی ایسی بدترین مثالیں ہیں کہ سن اور پڑھ کر دل دہل جاتا ہے۔ دنیا کو مالی مفادات عزیز ہیں تمام طاقتور اور اہم ممالک معاشی معاہدوں کی وجہ سے بھارت کے مظالم کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے، کاروباری معاہدوں کی وجہ سے بھارتی مظالم پر ویسے آواز بلند نہیں ہوتی جیسے یوکرائن کے معاملے میں سب روس کے خلاف متحد ہیں یا دیگر ایسے معاملات جہاں مسلمانوں کے بجائے کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے نشانہ بنتے ہیں وہاں دنیا کا ردعمل کچھ اور ہوتا ہے لیکن کشمیر میں مسلمانوں کا بہتا خون، بچوں پر ہونے والے مظالم اور خواتین کی مسلسل عصمت دری کے باوجود دنیا خاموش ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دہائیوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سرعام ہو رہی ہوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو علم نہ ہو۔ یہاں افغانستان میں طالبان کی حکومت خواتین کے حوالے سے کوئی اعلان کرتی ہے تو دنیا فوری ردعمل کا اظہار کرتی ہے لیکن کشمیر میں دہائیوں سے ہونے والے ایسے ہی مظالم پر سب خاموش ہیں۔

پاکستان نے باضابطہ طور پر پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانا شروع کیا تاکہ "مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کیا جا سکے۔اس دن کو منانے کا مقصد کشمیری بھائیوں کی جدوجہد آزادی میں حمایت کا اظہار کرنا اور دنیا کو یہ بتانا ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام دیرینہ مسئلہ کو نہیں بھولے ہیں۔ پانچ فروری کشمیر کے ساتھ پاکستان کے گہرے تعلقات کی علامت ہے۔ ہر سال، یہ دن پاکستان کے ساتھ وادی کی ثقافتی، مذہبی اور جغرافیائی قربت کو زندہ کرتا ہے۔ اپنے غیر قانونی کنٹرول کو برقرار رکھنے کے لیے، بھارت نے مختلف سازشوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں اپنی جابرانہ حکومت کو جاری رکھا ہوا ہے۔ ہندوستانی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ، آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے مختلف سخت قوانین کو استعمال کیا ہے تاکہ کسی بھی فرد کو غیر معینہ مدت کے لیے من مانی طور پر گرفتار کیا جا سکے اور یہاں تک کہ انہیں بغیر کسی قانونی طریقہ کار کے قتل کیا جا سکے۔

مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال حالیہ تاریخ میں بدترین ہے جہاں لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق بشمول زندگی، خوراک، صحت، اظہار رائے کی آزادی اور اجتماع کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔

05 اگست 2019 سے، مسلسل غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے ذریعے، مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں خوف اور افراتفری کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔وحشیانہ لاک ڈاو¿ن اور بنیادی آزادیوں کی عدم موجودگی نے بین الاقوامی برادری کے ضمیر اور اقوام متحدہ/عالمی برادری کے قابل احترام رکن ہونے کے ہندوستان کے اقدامات کو چیلنج کیا ہے۔

حال ہی میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 72 ممالک کے اتفاق رائے سے "عوام کے حق خود ارادیت کی عالمگیر احساس” کے بارے میں پاکستان کے زیر اہتمام قرارداد منظور کی ہے۔اس دن میڈیا پر کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے لیے خصوصی نشریات نشر کی جاتی ہیں۔بیرون ملک پاکستانی مشن بھی خصوصی تقریبات مناتے ہیں تاکہ بین الاقوامی برادری کو غیر قانونی بھارتی قبضے کے تحت کشمیریوں کو درپیش ظلم و ستم کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے حصول تک مقبوضہ کشمیر عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ پاکستان ہر سال پانچ فروری کو یہ دن مناتا ہے اس امید کے ساتھ کہ لاکھوں کشمیریوں کو آزادی ملے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سال بھی آزادی کے خواب کو تعبیر ملتی ہے یا نہیں۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کے حوالے سے کوئی بھی پالیسی بناتے وقت کشمیر کو سب سے پہلے رکھے، کشمیریوں کی ہر ممکن حمایت اور مدد کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ حکومت کی تبدیلی سے کشمیر کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آنی چاہیے۔بشکریہ نوائے وقت

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …