منگل , 23 اپریل 2024

مریم نواز کی واپسی اور شاہد خاقان عباسی کا استعفیٰ

(محمد نواز رضا)

خدا خدا کر کے مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز ساڑھے ماہ بعد برطانیہ سے پاکستان واپس آ گئی ہیں۔ ان کی بطور سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر تقرری پر جہاں پارٹی کے کارکنوں میں خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وہاں سینئر عہدوں پر قابض بعض مسلم لیگی رہنماؤں کی جانب سے اس تقرری پر دبی دبی زبان میں تنقید کی گئی اور میڈیا میں اس تقرری پر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

مریم نواز کا سینئر نائب صدر بنائے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے نہ صرف پارٹی کی سینئر نائب صدارت سے استعفا دے دیا بلکہ ”ری امیجنگ پاکستان“ نام کا ایک نیا فورم قائم کر دیا اور اس فورم سے پاکستان کی فلاح و بہبود کا پیغام پھیلانے کا اعلان کر دیا مجھے تو اس روز ہی کھٹکا ہوا جب شاہد خاقان عباسی نے مصطفی نواز کھو کھر، مفتاح اسماعیل، ہمایوں کرد اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ کوئٹہ سے پریس کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ مریم نواز کی واپسی پر پوری پارٹی قیادت ان کے استقبال کے لئے لاہور ائرپورٹ پر موجود تھی لیکن ان میں شاہد خاقان عباسی کی کمی محسوس کی گئی البتہ انہوں نے خبر کے متلاشی اخبار نویسوں سے کہا ہے کہ ”مسلم لیگ (ن) میں ہی رہوں گا اور نہ ہی کہیں اور جا رہا ہوں کہیں گیا تو سیدھا گھر ہی جاؤں گا“

شاہد خاقان عباسی کا شمار نواز شریف کے ان قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے 35 سال قبل مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا ہے۔ پرویز مشرف کی مارشل لائی حکومت میں نواز شریف کے ہمراہ قید و بند کی صعوبتیں تو برداشت کیں لیکن نواز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے اور نہ ہی رہائی پر سرکاری مسلم لیگ (ق) کا حصہ بننے پر آمادگی کا اظہار کیا جس کی پاداش میں پرویز مشرف نے انہیں قومی اسمبلی کا رکن منتخب نہیں ہونے دیا۔ اگرچہ راجہ محمد ظفر الحق پارٹی کے چیئرمین تھے لیکن نواز شریف نے ان کو راجہ محمد ظفر الحق پر ترجیح دی راجہ محمد ظفر الحق نے پرویز مشرف کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کو ”ٹیک اوور کرنے پر انعام کے طور عبوری مدت کے لئے وزیر اعظم بننے کی پیش کش کو مسترد کر دیا۔

نواز شریف نے راجہ محمد ظفر الحق کو پارٹی کا چیئرمین تو بنا دیا لیکن پارلیمانی سیاست میں شاہد خاقان عباسی کو غیر معمولی اہمیت دی گئی شاہد خاقان عباسی اپنے آبائی حلقے مری سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب نہ ہو سکے تو نواز شریف نے انہیں لاہور سے خالی ہونے والی نشست سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب کروا دیا حتیٰ کہ انہوں نے 2017 ء میں ”نا اہل“ قرار دیے جانے پر نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف کو بقیہ مدت کے لئے وزیر اعظم بنانے کی بجائے شاہد خاقان عباسی کو ترجیح دی۔ شاہد خاقان عباسی کو نواز شریف کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا جب پہلی بار ان کی پارٹی کی سینیئر نائب صدارت سے استعفا کی خبر آئی تو ان کے ترجمان حافظ عثمان نے ان کے استعفا کی تردید کر دی ان کی جانب سے کی گئی تردید کی سیاہی خشک نہ ہو پائی تھی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ”میں نے تین سال قبل نواز شریف پر واضح کر دیا تھا کہ اگر مریم نواز کو پارٹی میں سینئر عہدہ پر لایا گیا تو ان کے لئے پارٹی میں رہنا ممکن نہ ہو گا۔“

لیکن انہوں نے بڑی معنی خیز بات کہی ہے۔ ”میں آخری دم تک پارٹی کے ساتھ رہوں گا لیکن اگر پارٹی نے میرے ساتھ راہیں جدا کر لیں تو اپنے گھر جانا پسند کروں گا۔“ شاہد خاقان عباسی کا کہنا کہ انہوں نے 3 جنوری 2023 ء کو اپنے عہدہ سے استعفا دے دیا تھا۔ مریم نواز اور میرے درمیان حجاب کا رشتہ ہے جسے میں قائم رکھنا چاہتا ہوں میرا شاہد خاقان عباسی سے اس وقت سے دوستی ہے جب انہوں نے اپنے والد محترم محمد خاقان عباسی کی سانحہ اوجڑی کیمپ میں شہادت کے بعد عملی سیاست میں حصہ لیا بقول ان کے وہ پیشہ کے لحاظ سے ہوا باز تھے لیکن حالات نے انہیں سیاست کی وادی میں دھکیل دیا۔ راجہ محمد ظفر الحق اور شاہد خاقان عباسی جن کا ایک ہی پارٹی سے تعلق ہونے کے باوجود سیاسی لحاظ سے کبھی ایک دوسرے کے قریب نہ پایا بظاہر دونوں میں رواداری بدرجہ اتم موجود ہے جب نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا تو راجہ محمد ظفر الحق نے ان کے فیصلہ کی تائید کی اسی طرح جب راجہ محمد ظفر الحق کو سینیٹ کا ٹکٹ نہ دیا گیا تو ان کے حق میں سب پہلے اٹھنے والی آواز شاہد خاقان عباسی کی ہمشیرہ سینیٹر سعدیہ عباسی کی تھی۔

مریم نواز کی آمد پر شاندار استقبال پر پی ٹی آئی کی قیادت چیں بجبیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی باغیانہ روش پر سب سے زیادہ خوشی پی ٹی آئی کو ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی ان کی تعریف کے پل تعمیر کر رہی ہے۔ شاہد خاقان عباسی ایک صاف ستھرے کر دار کے مالک ہیں۔ آج تک کوئی ان کے خلاف کوئی مائی کا لعل کرپشن ثابت نہیں کر سکا صاف گو ہونے کی وجہ سے ان کو پارٹی کے اندر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کے درمیان گہری دوستی تھی۔ جلاوطنی کے دور میں دونوں پہروں انٹر نیٹ پر گپ شپ لگایا کرتے تھے۔ شاہد خان عباسی شہباز شریف کے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے کردار بین السطور کئی بار تنقید کر چکے تو رانا تنویر حسین نے ٹیلی ویژن پر شہباز شریف کا بھرپور دفاع کیا تو پھر کچھ دیر تک شاہد خاقان عباسی اور رانا تنویر کے درمیان ناراضی رہی اسی طرح شاہد خاقان اور خواجہ آصف کے درمیان کئی ماہ تک جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کے قانون کے مسودہ پر بول چال بند رہی۔

شاہد خاقان عباسی کا موقف تھا انہیں جو مسودہ دکھایا اس سے مختلف مسودہ قانون کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کی گئی جب کہ خواجہ آصف کا موقف تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے اس مسودہ کی منظوری دی گئی جس کو نواز شریف کی تائید حاصل تھی۔ مختلف مواقع پر مریم نواز نائب صدر کی حیثیت سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتی رہی ہیں۔ سینئر نائب صدر شاہد خاقان ان کے ساتھ کھڑے ہونے کبھی بھی معترض نہیں ہوئے لیکن یہ اچانک کیا ہوا کہ انہوں نے پارٹی کی سینئر نائب صدارت سے استعفا دے دیا اب ان کا اگلا قدم ”باعزت“ طور پر گھر جانا ہو سکتا ہے۔

مریم نواز نے سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر کی حیثیت سے اپنی نئی سیاسی اننگز کا آغاز کیا ہے۔ گلے کے آپریشن کے باوجود ان کے لب و لہجہ کی گھن گرج سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کے ہاتھوں ”مسلم لیگ (ن) کے سیاسی سرمایہ“ کی تباہ حال عمارت پر ایک بار پھر پر شکوہ عمارت کھڑی کرنے کا عزم لے کر نکلی ہیں۔ برصغیر پاک ہند کے سیاسی ماحول میں جماعت اسلامی پاکستان کے سوا شاید ہی کوئی جماعت ”موروثی سیاست“ کے بدنما داغ سے بچی ہو باپ کے اس کے بیٹے یا بیٹی کے سر پر ہی قیادت کا تاج سجانا ان کا حق سمجھا جاتا اس سے اختلاف کرنے والوں کو ”راندہ درگاہ“ کر دیا جاتا ہے۔

شریف خاندان ہو یا بھٹو خاندان کارکن بھی ان کے سوا کسی کو اپنا لیڈر نہیں مانتا سردار مہتاب احمد خان پارٹی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ وہ بھی بوجوہ مین سٹریم میں نہیں مریم نواز راجہ محمد ظفر الحق، اقبال ظفر جھگڑا، پیر صابر شاہ، مفتاح اسماعیل لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین، لیفٹیننٹ جنرل عبد القیوم، شاہ محمد شاہ، سلیم ضیا، نہال ہاشمی کو پارٹی میں سرگرم کردار ادا کرنے کے لئے ان کے پاس جائیں۔بشکریہ شفقنا نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …